خوشبو کا تعاقب

محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اﷲ علیہ اور امیر خسرؒو کی محبت ایسی تھی کہ مثال ملنا مشکل ہے۔ محبوبِ الٰہی فرماتے تھے " اگر شریعت مانع نہ ہوتی تو میں وصیت کرتا کہ مجھے اور خسرو کو ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے" وصال سے پہلے وصیت فرمائی تھی کہ خسرو کی قبر میرے قریب نہ بنانا نہیں تو میرا لاشہ قبر چیر کر باہر آ جائے گا۔۔۔ مرشد اور مرید میں اس قدر محبت کے باوجود بھی خرقہ خلافت شاہ نصیر الدین چراغؒ دہلوی کے نصیب میں آیا۔ یہ اﷲ کی ذات کے بھید ہیں، یہ تقسیمِ ازل ہے، عطیہ خدا وندی اور نعمتِ خداوندی، اْس کی باتیں ، اس کے فیصلے وہی جانے، امیر خسرو کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک سید زادہ حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی. یاحضرت میں ایک غریب سید زادہ ہوں اور سر پر جوان بیٹیوں کا بوجھ ہے۔۔سادات گھرانے کی نسبت ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ بھی نہیں لے سکتا۔ آپ میرے دینی بھائی ہیں اور سید بھی ہیں آپ میری کچھ مدد کریں ۔-آپ نے اس کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھایا۔ اور وعدہ کیا کہ آج کے دن جو بھی نذر نیاز آئی سب آپ کی خدمت میں ہدیہ کروں گا۔ خادم سے بلا کر کہا کہ آج کوئی نذر و نیاز آئی خانقاہ میں؟تو خادم نے عرض کی سیدی ابھی تک تو کوئی نہیں آئی لیکن جیسے ہی آئی میں آپ کو اطلاع کر دوں گا- حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے سید زادے کو تسلی دی اور کہا اﷲ پہ بھروسہ کرے وہ دست غیب سے کوئی نہ کوئی انتظام فرما دے گا-مگر اس دن کچھ بھی نہ آیا، آپ نے اس سید زادے کو تسلی دی کہ کل تک انتظار کریں، کل جو کچھ بھی آیا وہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے گا، مگر اگلے دن بھی کچھ نہ آیا۔ تین دن گزر گئے کوئی نیاز نہ آئی- سید زادہ بھی مایوس ہوگیا کہ ایویں باتیں مشہور ہیں ان کے بارے میں یہاں تو کوئی مدد ہی نہیں ہو سکی میری. چوتھے دن اس نے واپسی کی اجازت طلب کی . حضرت محبوب الہیٰ کو بہت دکھ ہوا کہ مہمان خالی ہاتھ گھر سے جا رہا ہے-آپ نے اس کو چند پل کے لئے روکا اور اندر سے اپنے نعلین لا کر اسے دے دیئے اور کہا بھائی اس فقیر کے پاس تمھیں دینے کے لئے اپنے ان جوتوں کے علاوہ کچھ نہیں( واضع رہے کہحضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے جسم پر جو لباس تھا وہ پیوند سے بھرا ہوا تھا، جوتوں میں تھوڑے کم پیوند تھے اس لیئے سید زادے کی خدمت میں پیش کر دئیے) وہ سید زادہ جوتے لیکر چل پڑا اور سوچنے لگا کہ ان پرانے بوسیدہ جوتوں کا کیا کروں گا, حضرت نے اچھا مذاق کیا ہے میرے ساتھ۔ اس خیال سے کہ چلو میرے پہننے کے ہی کچھ کام آجائیں یا گھر میں کوئی اور پہن لے گا اس خیال سے ساتھ لے کر چل پڑا، شام ایک سرائے میں پڑی، وہیں رات کو رک گیا.

دوسری طرف کی سنئے سلطان محمد تغلق کسی جنگی مہم سے واپس آرہا تھا اور حضرت امیر خسرو جو حضرت نظام الدین اولیا ء کے خلیفہ بھی تھے سلطان کے ساتھ تھے اور چونکہ آپ ایک قابل قدر شاعر تھے اس لیے دربار سلطانی میں اہمیت کے حامل تھے .آپ نے سلطان کی شان میں قصیدہ کہا تو سلطان نے خوش ہو کر آپ کو سات لاکھ چیتل (سکہ رائج الوقت )سے نوازا۔اپنے واپسی کے سفر پر جب ابھی لشکر سلطانی دہلی سے باہر ہی تھا اور رات کو پڑاؤ کیا گیا۔ تو اچانک امیر خسرو چلا اٹھے "خوشبوئے مرشد می آید"
مجھے اپنے مرشد کی خوشبو آتی ہے مصاحب بولے امیر حضرت محبوب الہیٰ تو کیلوکھڑی میں ہیں جو دہلی سے کافی دور ہے تو آپ کو انکی خوشبو کیسے آ گئی؟؟ مگر امیر خسرو بے قرار ہوکر باہر نکل پڑے اور خوشبو کا تعاقب کرتے کرتے ایک سرائے تک جا پہنچے جہاں ایک کمرے میں ایک شخص اپنے سر کے نیچے کچھ رکھ کر سویا ہوا تھا اور خوشبو وہاں سے آ رہی تھی آپ نے اس کو جگایا اور پوچھا تم حضرت نظام الدین کی خانقاہ سے آ رہے ہو کیا؟ تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بولا ہاں

آپ نے اشتیاق سے پوچھا کیسے ہیں میرے مرشد؟ وہ شخص بولا وہ تو ٹھیک ہیں اور میں ان کے پاس مدد کے لئے گیا تھا مگر اور کچھ تو دیا نہیں ہاں اپنے پرانے بوسیدہ جوتے ضرور دیئے ہیں.یہ سنتے ہیں امیر خسرو کی حالت غیر ہو گئی اور کہنے لگے کہاں ہیں میرے مرشد کے نعلین ؟ تو اس نے ایک کپڑا کھول کر دکھا دیئے.آپ نے ان کو پکڑا چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور کہنے لگے کیا تو ان کو بیچے گا؟اس نے کہا "امیر کیوں میرا مذاق اڑاتے ہو".امیر خسرو بولے مذاق نہیں میرے پاس اس وقت سات لاکھ چیتل ہیں وہ لے لو مگر میرے مرشد کے نعلین مجھے دے دو۔اگر چاہو تو دہلی چلو اتنی ہی رقم اور دے دوں گا سات لاکھ چیتل کا سن کر وہ چکرا کررہ گیا اور بولا نہیں بس میرا تو چند ہزار سے گزارا ہو جائے گا.مگر امیر خسرو نے زبردستی اس کو سات لاکھ چیتل دیئے اور ساتھ میں سپاہی اور تحریر دے دی تا کہ کوئی اس پر شک نہ کرے اور پھر امیر خسرو اس حالت میں خانقاہ مرشد میں داخل ہوئے کہ جوتے اپنی دستار میں لپیٹ رکھے تھے اور سر پر رکھے بڑھے چلے آ رہے تھے اور زارو قطار رو رہے تھے حضرت نظام الدین اولیاء نے مسکراتے ہوئے پوچھا ،خسرو ہمارے لئے کیا لائے ہو؟
امیر خسروؒ نے جواب دیا سیدی آپ کے نعلین لایا ہوں(بعض حوالوں سے یہ بھی تحریر ہے کہ مرشد نے خسرو کو دیکھتے ہی فرمایا تھا کہ خسرو بہت نفع کا سودا کر کے آئے ہو)
کتنے میں خریدے؟حضرت نظام الدین اولیاء نے استفسار کیا؟
سات لاکھ چیتل امیر نے جوابا" عرض کی
بہت ارزاں لائے ہو۔ حضرت خواجہ نظامؒ الدین اولیاء ٰ مسکراتے ہوئے بولے
جی سیدی سات لاکھ چیتل تو بہت کم ہیں اگر وہ سید زادہ میری جان بھی مانگتا تو جان دے کر نعلینِ مرشد حاصل کر لیتا
یہ تھی ان کی اپنے مرشد سے محبت اور حضرت نظام الدین اولیاء کا مقام معرفت جس کی وجہ سے ان کو محبوبِ الہیٰ کہا جاتا ہے۔۔
اﷲ کی ہر بات میں، ہر کام میں مصلحت ہے، بہانے ہیں اس کی رحمت کے، انسان بہت جلد باز ہے، ہر کام جلد از جلد چاہتا ہے، اپنی مرضی سے چاہتا ہے، اور وقت سے پہلے چاہتا ہے۔ مگر اﷲ پاک کی ذات تما عیوب سے پاک ہے، وہ بہانے سے انسان کو نوازتی ہے۔
وہ تو محبوبِؒ الٰہی کے نعلین تھے، مگر میری جان قربان ہو ان صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمٰعین پہ جنہوں نے نعلین مبارک سر پہ سجائے رکھے۔حضرت عبداﷲ ابنِ مسعودؓ آپ ﷺ کے نعلین مبارک کو بازؤوں میں لے کر سینے سے لگائے رکھتے، یہی ان کی عادتِ مبارکہ تھی کہ آقا کریم ﷺ جب وضو وغیرہ کے لئے نعلیں اتارتے حضرت عبداﷲ ابنِ مسعودؓ انہیں سینے سے لگائے رکھتے۔
اس کو نہ ملی منزلِ معراج کی راہیں
جو تیرے نقشِ کفِ پا تک نہیں پہنچا۔( خان آصف کے قلم سے حضرت خواجہ نظامؒ الدین اولیاء کا تذکرہ)

Ilyas Muhammad Hussain
About the Author: Ilyas Muhammad Hussain Read More Articles by Ilyas Muhammad Hussain: 474 Articles with 350884 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.