جمعہ کا دن تھا ‘نماز عشا کی ادائیگی سے فارغ ہوتے ہی
خطیب جامع مسجد "اﷲ کی رحمت "قاری محمداقبال صاحب نے سپیکر پر اعلان کیا کہ
والٹن روڈ لاہور کینٹ کے علاقے کی خوش نصیبی ہے کہ اس علاقے کا ایک جوان پا
ک فوج کی جانب سے وادی لیپا کی جبار پوسٹ پر وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے
شہید ہوچکا ہے اس شہید کا نام تیمور اسلم شہید ہے‘ شہید کی نماز جنازہ
والٹن ٹریننگ اکیڈمی کی گراؤنڈ میں ٹھیک دس بجے رات ادا کی جائے گی ‘شہید
کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے وقت مقررہ پر ریلوے گراؤنڈ میں پہنچ
جائیں ۔الحمد ﷲ شہیدوں سے میرا بہت پرانا واسطہ ہے ‘ جب سے اﷲ تعالی نے
مجھے لکھنے کی توفیق عطا کی ہے اسی وقت سے میں لواحقین سے مل کر شہداء کے
کارناموں کو کہانیوں کی شکل دے کر اخبارات و جرائد کے توسط سے قوم کی خدمت
میں پیش کرتا رہتا ہوں ۔اس کے باوجود کہ میں جلد سونے کا عادی ہوں لیکن یہ
اعلان سنتے ہی میری آنکھوں سے نیند کوسوں دور بھاگ گئی ۔پھر میں( محمد اسلم
لودھی ) قاری محمداقبال صاحب ‘ محمد نذیر صاحب اور محمدالیاس صاحب اور محمد
اسلم آرائیں صاحب اس مقام پر جاپہنچے جہاں نماز جنازہ کااہتمام کیا گیا تھا
۔تقریبا گیارہ بجے شہید کا جسد خاکی ایک فوجی قافلے کی شکل میں پہلے شہید
کے گھر ( پیر کالونی گلی نمبر 7) میں لایا گیا جہاں شہید کے والدین ‘ بہن
بھائی ‘ بیوی ‘ بیٹی ‘ نانا ‘ نانی اور ماموں نے وطن عزیز پر جان قربان
کرنے والے فرزند کا آخری دیدار کیا اور اپنی دعاؤں سے سفر آخرت کے لیے
روانہ کیا ۔
ریلوے گراؤنڈ میں ہر جانب لوگوں کا ہجوم تھا ‘ یوں محسوس ہورہاتھا جیسے
پورا لاہور شہر ہی اپنے اس عظیم سپوت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آمڈآیا
ہو ‘ کہنے کو تو وہ صرف ایک خاندان کا چشم و چراغ تھا لیکن شہادت کی موت نے
اسے پوری قوم کا ہر دلعزیز فرزند بنا دیا تھا ‘ہر شخص ایک ہی جانب دیکھے
جارہا تھا جس طرف سے شہیدکا جسد خاکی آنے والا تھا ‘ کسی کے ہاتھ میں
پھولوں سے بھرے ہوئے شاپر تھے ‘ تو کسی کے ہاتھ جگمگاتے ہوئے موبائل ۔ جن
سے وہ اس یادگار منظر کو محفوظ کرناچاہتے تھے ۔ وقت تیزی گزر رہا تھا ۔شہید
کا جسد خاکی اپنے گھر سے روانہ نہیں ہورہا تھا۔ نہ جانے شہید کے ساتھ کس کس
انداز سے اظہار محبت کا اظہار کیاجارہا تھا ماں اپنے لخت جگر کو تابوت میں
بند دیکھ کر کیا محسوس کررہی ہوگی ‘وہ باپ جس کے بڑھاپے کا سہارا ہی یہ
شہید تھا ‘ اس کی حالت دیکھی نہ جاتی ہو گی ‘ وہ جوان سال بیوی جس کے
ہاتھوں سے ابھی مہندی کا رنگ بھی پھیکانہیں پڑا ہوگا کہ وہ ہمیشہ کے لیے
الوداع کررہی ہوگی ‘ وہ معصوم بیٹی جس نے باپ کی آغوش میں ابھی جی بھر کر
کھیلا بھی نہیں تھا کہ شفقت پدری سے محروم ہوگئی ‘ نہ جانے اس کے دل میں
کیا کیا وسوسے جنم لیتے ہوں گے ۔شہید کے دوستوں کی آنکھوں سے آنسو روکنے کے
کا نام نہیں لے رہے ہوں گے ۔ پہلے تیمور اسلم جب گھر سے نکلتا تھا تو
چندایک دوست ہی ساتھ ہوتے ہوں گے لیکن آ ج تو پورا شہر رخصت کرنے کے لیے
جمع تھا سب کی آنکھوں سے محبت کے آنسو بہہ رہے ہوں گے ۔ٹھیک بارہ بجے فوجی
گاڑیوں کے ہوٹروں کا شور اٹھا اور سرخ رنگ کی جگمگاتی روشنیوں میں تیمور
اسلم شہید اپنے گھر سے روانہ ہوا جتنے لوگ نماز جنازہ کے لیے صفیں باندھ
چکے تھے اس سے کہیں زیادہ لوگ اس فوجی گاڑی کے پیچھے آنسو بہاتے ہوئے بھاگ
رہے تھے ‘ تمام ٹی وی چینلز کی گاڑیاں لائیو ٹرانسمیشن کے لیے موقع پر
موجود تھیں جو براہ راست ٹیلی کاسٹ کررہی تھیں ۔سوا بارہ بجے نماز جنازہ
سید چراغ علی شاہ ؒکے صاحبزادے پیر محمد سعید الحسن نے پڑھائی ‘ پھرنہ جانے
رات کے کتنے بجے شہید کی میت کو لاریکس کالونی والٹن اسٹیشن کے مغرب میں
واقع قبرستان میں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کردیاگیا ۔ اس کے ساتھ ہی
تیمور شہید کی زندگی کا باب مکمل ہوا۔
تیمور اسلم ‘ پیر کالونی والٹن روڈ لاہورکینٹ پر واقع اپنے ننھیال (جہاں ان
کے والدین رہائش پذیر تھے ) کے گھر 1991ء میں پیداء ہوئے ۔بات کوآگے بڑھانے
سے پہلے یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس سے پہلے یہ لوگ ناروال کے نواحی قصبے میں
رہائش پذیر تھے ۔یہ خاندان 1989ء میں لاہورشفٹ ہوا تھا۔تیمور اپنے والدین
کا سب سے بڑا بیٹا تھا جبکہ اﷲ تعالی نے اسی گھر میں تین بہنیں اورایک اور
بھائی ( محمد مبین ) بھی موجود تھا ۔جو اب قربان سکول میں ہی آٹھویں جماعت
کا طالب علم ہے ‘ میں نے جب اس سے سوال کیا کہ تم بڑے ہوکر کیا بنوگے تو اس
نے جواب دیا میں فوجی بنوں گا اور اپنے وطن کے دشمنوں سے لڑوں گا۔
تیمور کے والد( محمد اسلم ) انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں وہ کم تعلیم
یافتہ ہونے کی بنا پر محنت مزدور ی کرتے تھے ۔ جب تیمور کا ننھیال لاہور
شفٹ ہوا تو ان کے والدین بھی ساتھ ہی لاہور چلے آئے۔لاہور میں ہی تیمور کی
پیدائش ‘ پرورش اور تعلیمی مدارج طے ہوئے ۔تیمور اپنے والدین کے ساتھ ساتھ
اپنے نانا محمد رفیق اور نانی کے ساتھ بے حد پیار کرتا تھا جبکہ ان کی
تربیت میں ماموں میاں سہیل کا بڑا ہاتھ ہے ‘تیمور نے دینی تعلیم اسی علاقے
کی مسجد کے امام حافظ محمد ندیم صاحب سے حاصل کی اور میٹرک کاامتحان اس
علاقے کی معروف تعلیمی درسگاہ "قربان ایجوکیشنل ٹرسٹ"سے پاس کیا ۔ بعد ازاں
مزید حصول تعلیم کے لیے گورنمنٹ بوائز کالج قذافی سٹیڈیم لاہور میں داخلہ
لے لیا لیکن جب فوج کی بھرتی کااشتہار اخبار میں دیکھا تھا تو تعلیم کو خیر
باد کہہ کر فورٹریس سٹیڈیم کے قریب واقع ریکروٹنگ سنٹر جا پہنچے۔
اس کے باوجود کہ خاندان میں سے کوئی بھی فوج میں ملازم نہیں تھا‘ تیمور
اسلم کو فوج سے اس قدر محبت تھی کہ جہاں بھی کوئی باوردی فوجی دکھائی دیتا
اسی وقت وہ سلیوٹ
کرتے ‘پھر جب 1965ء کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر داد شجاعت دیتے ہوئے شہید
ہونے والے میجر عزیز بھٹی کا ڈرامہ لگتا تو تیمور شہید بہت شوق سے وہ ڈرامہ
دیکھتے ڈرامہ دیکھتے ہوئے وہ اس قدر محو ہوجاتے کہ ان کو ارد گرد کی بھی
خبر نہ رہتی وہ اس قدر جوش اور جذبے کااظہار کرتے جیسے وہ بھی محاذ جنگ میں
دشمن سے برسر پیکار ہیں جبکہ میجر عزیزبھٹی کی شہادت کا منظر سامنے آیا تو
ان کی آنکھوں میں آنسو آمڈآتے ۔وہ کہتے کہ میں بھی اسی طرح وطن کی حفاظت
کروں گا اور اپنی جان وطن پرقربان کروں گا ۔جب اور جہاں بھی قومی ترانہ
پڑھا جارہا ہوتاتو تیمور شہید اپنی پوزیشن اور حالت کو بالائے طاق رکھتے
ہوئے احترام میں مستعد کھڑے ہوجاتے اور اس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک قومی
ترانہ ختم نہ ہوجاتا۔ تعلیمی دور میں انہیں کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حد تک
شوق تھا وہ اکثر اوقات محلے کے لڑکوں کے ساتھ" باب پاکستان"کے کھلے گراؤنڈ
میں کرکٹ کھیلنے جاتے ۔وہ بہتر ین بلے باز اور فاسٹ باؤلر بھی تھے ۔
تیمور اسلم 2011 ء میں فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوکر 12بلوچ رجمنٹ (جو ان
دونوں اوکاڑہ میں تعینات تھی) کا حصہ بنے ۔بعدازاں یہ رجمنٹ وزیرستان چلی
گئی جہاں کتنی بار لانس نائیک تیمور کاسامنا دہشت گردوں سے ہوا ۔ ہر مقابلے
میں تیمور نے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ۔9 ستمبر 2017ء کو تیمور اسلم
رشتہ ازواج میں منسلک ہوئے ۔اﷲ تعالی نے ایک بیٹی سے نوازا جو تیمور اسلم
کی جان تھی ‘تیمور جب بھی محاذ جنگ سے فون پر بات کرتا تھا‘ اپنی بیٹی کی
آواز سنانے کی فرمائش ضرور کرتا ‘چند ماہ پہلے تیمور اسلم کو وزیرستان سے
وادی لیپا کی جبار پوسٹ پر تعینات کردیاگیا یہ مقام کنٹرول لائن کاوہ حصہ
ہے جہاں بھارت کے ساتھ روزانہ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں ‘ بھارتی فوج سویلین
آبادی اور پاک فوج کے مورچوں پر اندھادھند فائرنگ اور گولہ باری کرتی ہے
جبکہ پاک فوج کے جوان اس کا منہ توڑ جواب دیتے ہیں ۔اپنی شہادت سے ایک
گھنٹہ پہلے تیمور اسلم نے اپنے گھر فون کیا والدہ اور اہلیہ سے بات کی ۔
اہلیہ سے مخاطب ہوکر کہا تم اپنا خیال بھی رکھو اور میرے والدین کی اچھی
طرح دیکھ بھال بھی کیاکرو ‘میں اب اگلے مورچوں میں جارہا ہوں ‘ اگر زندگی
رہی تو بات ہوگی وگرنہ خدا حافظ ۔
یہ کہتے ہوئے تیمور اسلم بیس کیمپ سے وادی لیپا کی جبار پوسٹ کی جانب روانہ
ہوئے جہاں فائرنگ کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ جاری تھا جس کا موثر جواب پاک
فوج کے جوان دے رہے تھے اسی دوران دشمن کی جانب سے توپ خانے سے گولہ باری
شروع ہوگئی اس گولہ باری سے پاک فوج کے تین جوان موقع پر ہی شہید ہوگئے جن
میں سے ایک تیمور اسلم بھی تھے ۔ یہ سانحہ 15اگست 2019ء کو صبح چھ بجے
رونما ہوا جبکہ تیمور شہید کی شہادت کی اطلاع دو بجے دوپہر پہنچی ۔
تدفین کے چندروز بعد تیمور اسلم شہید چند ایک لوگوں کے خواب میں نظر آئے ۔
سب سے پہلے شہیدکے جگری دوست‘ٹیپو سلطان کہتے ہیں ‘ ایک رات خواب میں ہم
تمام دوست ‘ تیمور شہید کے ایصال ثواب کے لیے انتظامات کررہے ہیں ‘ اچانک
تیمور اسلم ہمارے سامنے کھڑا نظر آیا وہ ہمیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا ‘ میں
نے کہا یار ہم تو تمہارے ایصال ثواب کے لیے ختم پاک کاانتظام کررہے ہیں اور
تم یہاں کھڑے مسکرا رہے ہو؟ ۔تیمور شہید نے جواب دیا میں تو زندہ ہوں
‘قہقہہ لگاکر مجھے گلے لگا لیا۔ بولا چھوڑ یہ سب کچھ ۔ جس لمحے تیمور شہید
ہم سے گفتگو کررہے تھے اس لمحے انہوں نے خاکی شرٹ اور گرین پتلون پہن رکھی
تھی ۔
اسی طرح محلے کا ایک شخص تعزیت کے لیے گھر آیا اس نے بتایا کہ میں نے خواب
میں تیمور شہید کو کچھ حالت میں دیکھا کہ انہوں نے بے شمار تمغے وردی پر
آویزاں کررکھے تھے جبکہ ان کے سر پر ہیرے اور موتیوں سے بنا ہوا تاج تھا
۔وہ بہت ہی خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔تیمور شہید کی بیوی کو خواب میں ان
کے شوہر دکھائی دیئے وہ اپنی لاڈلی بیٹی جو ابھی آٹھ ماہ کی ہے ‘اسے گود
میں اٹھا کر پیار کررہے ہیں ‘ بیوی نے کہا اسے سونے دیں تو بیوی کواشارے سے
خاموش کروا دیا۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺاﷲ تعالی کو
کونسا عمل زیادہ محبوب ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وقت پر نماز پڑھنا ‘
والدین سے حسن سلوک کرنا ‘ اور اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا ۔
شہادت کی موت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی ‘ حضرت خالد بن ولید ؓ جن کو اﷲ
کی تلوار کا خطاب مل چکاتھا ‘ وہ اسلام لانے کے بعد جتنے بھی معرکوں میں
شریک ہوئے ہمیشہ سرخرو ٹھہرے ‘دشمن کی صفوں میں گھس کر دور تک کفار کا قتل
عام کرتے لیکن کوئی تلوار انہیں چھو کر بھی نہ گزرتی ۔ جب پیرانہ سالی کی
حالت میں لوگ آپ کی عیادت کے لیے آئے تو تمام آپ کی بہادری کے واقعات پر
رشک کررہے تھے ۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے فرمایا مجھ سے میدان جنگ کے تمام
کارنامے لے لو لیکن مجھے شہادت کی موت دے دو ‘ میں تو شہادت کی موت مرنا
چاہتا تھالیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا ۔
اگر میں یہ کہوں کہ تیمور اسلم کو مرتبہ شہادت پر فائز کرکے اﷲ تعالی نے
پورے خاندان پراحسان عظیم کیا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ شہید ان شاء اﷲ اپنے
والدین کا استقبال جنت کے دروازے پر کرے گا جبکہ 70افراد کو جنت میں داخل
کرنے کی اجازت ہے ‘ قرآن پاک میں ہے کہ اﷲ کی راہ میں جا ن قربان کرنے والے
کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔ ایک
اور جگہ فرمایا شہید کی روحیں سبز پرندوں میں ڈال دی جاتی ہیں جو جنت کے
میوے کھاتی ہیں ۔
بہرکیف جان سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہوتی ۔ انگلی پر معمولی سا زخم
آجائے تو ہفتوں سکون کی نیند نہیں آتی ۔اس کے برعکس دشمن کے سامنے سینہ تان
کر کھڑے ہونا اور منہ توڑ جواب دینا کسی بھی قوم کے لیے اعزاز بنتا ہے ۔اگر
ہم اپنے گھروں اور اہل خانہ میں سکون کی نیند سوتے ہیں اور اپنی مرضی کی
زندگی گزار رہے ہیں تو اس کاکریڈٹ پاک فوج کے ان افسروں اور جوانوں کو جاتا
ہے جو موسمی صوبتوں ‘ مشکل ترین حالات اور برفانی چوٹیوں کے اوپر دفاع وطن
کے تقاضے پورے کررہے ہیں یقینا ایسے لوگ ہی قومی ہیرو کہلاتے ہیں ۔ اس
تحریر کے ذریعے میں کور کمانڈر لاہور اور چیف ایگزیکٹو والٹن کنٹونمنٹ بورڈ
سے مطالبہ کرتا ہوں کہ تیمور اسلم شہید نے اپنی جان وطن پر قربان کرکے اپنا
فریضہ اداکردیا اب آپ کا فرض ہے کہ والٹن روڈ کو شہید کے نام سے منسوب
کردیا جائے کیونکہ والٹن ایک انگریز تھا اور انگریزوں کو برصغیر پاک و ہند
سے گئے 72 سال گزر چکے ہیں اس لیے والٹن روڈ کا نام ‘ تیمور اسلم شہید روڈ
رکھنے میں کوئی قباحت نہیں ۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو ڈیفنس چوک کو تیمور
اسلم شہید چوک میں تبدیل کردیا جائے ۔یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ والٹن
روڈ سے ملحقہ ہی تیمور شہید کا خاندان آباد ہے ‘جس طرح اس سے پہلے ڈیفنس
اور نشاط کالونی کی سڑکوں کو لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن شہید ‘ لالک جان شہید
سے منسوب کیا جاچکا ہے۔ شہید کی داستان شجاعت کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا
یہی طریقہ ہے ۔زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں۔
|