علم کا موجودا ور،فقر کا موجوداور
اشھد ان لا الہ، اشھدان لا الہ
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغ ِ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سپاہ
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جو انسان حکمت اور فلسفے کی باریکیوں میں الجھا
رہتا ہے،اس کی خودی اسلام کی حلقہ بگوش نہیں ہوتی اور کافر کی کافر ہی رہتی
ہے۔ اس لیے کہ وہ کتنے ہی حقائق بیان کرے لیکن اس کے اندر یقین و ایمان
پیدا نہیں ہوتا اور یقین و ایمان کے بغیر خودی مسلمان نہیں ہوتی کلیمی شانِ
خودی کا ایک چھپا ہوا بھید ہے پھر بادشاہی کا گر بتا تے ہوئے کہتے ہیں کہ
اگر انسان غریبی میں اپنی خودی کی حفاظت کرلے تو اس کا مقام فقیری میں بھی
بادشاہوں جیسا ہے۔ فرماتے ہیں:
حکیمی نا مسلمانی خودی کی
کلیمی رمزِ پنہانی خودی کی
تجھےگرفقر وشاہی کابتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی
علامہ، جاوید اقبال کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ،غریبی میں نام پیدا کر
علامہ اقبا لؒ خودی کے سلسلے میں کسبِ ہلال، تخلیقی عمل، آزادی، تسخیرِ
کائنات اور اشتراکِ عمل پر بھی زور دیتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ وہ عوامل جو
خودی کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں، ان کے تدارک اور خاتمے کی بھی بات کرتے
ہیں۔ ذیل میں وہ عوامل درج کیے جارہے ہیں،جو خودی کی کمزوری کا سبب بنتے
ہیں:
۱۔ خوف
۲۔ سوال
۳۔ غلامی
۴۔ تقلید
۵۔ نسب پرستی
۶۔ ضمیر فروشی
خوف کو علامہ اقبال ؒ انسانی زندگی کا ضرر رساں پہلو قرار دیتے ہیں۔ خوف
انسانی فضیلتوں کو سلب کرلیتا ہے۔علامہ اقبال نے یہاں خوف بمعنی خوفِ الٰہی
استعمال نہیں کیا بلکہ خوف بمعنی دہشت استعمال کیاہے۔ اللہ تعالیٰ کے خوف
کوعلامہ بہت پسند کرتے ہیں اور اسے استحکامِ خودی کا منبع تصور کرتے ہیں۔وہ
کہتے ہیں کہ جب خوف ِخدا دل میں بیٹھ جاتا ہے تو انسان کی خودی تابدار ہو
جاتی ہے۔جب کہ دہشت کی بدولت زندگی کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ پس ایسے خوف
اور ناامیدی کو علامہ اقبالؒ خودی کی موت تصور کرتے ہیں جس سے انسان کے
اوپر دہشت طاری ہو جائے۔ان کا خیال ہے کہ خوشامد، مکاری،کینہ پروری،جھوٹ
ایسی برائیاں خوف ہی کی وجہ سے فروغ پاتی ہیں۔ کہتے ہیں:
ہر شرِ پنہاں کہ اندر قلبِ تست
اصلِ او بیم است اگر بینی درست
لا بہ و مکاری و کین و دروغ
ایں ہمہ از خوف می گیرد فروغ
پردہئ زور و ریا پیراہنش
فتنہ را آغوش ِ مادر دامنش
(تیرے دل کے اندر جو بھی برائی پنہاں ہے۔اگر تو غور سے دیکھے تو اس کی
بنیاد خوف ہے۔خوشامد، مکاری، کینہ، جھوٹ،یہ سب برائیاں خوف ہی سے فروغ پاتی
ہیں۔خوف کا پیرہن جھوٹ اور ریا کاری کا پردہ ہے اور اس کا دامن فتنے کے لیے
آغوشِ مادر ہے۔)
علامہ اقبال کا خیال ہے کہ خوف کی طرح سوال بھی خودی کی کمزوری کا سبب بنتا
ہے۔سوال کرنے سے خودی کے اجزا بکھر جاتے ہیں اور خودی کا نخل ِ سینا تجلی
سے محروم ہو جاتا ہے، اسی لیے کہتے ہیں:
از سوال آشفتہء اجزائے خودی
بے تجلی نخلِ سینا ئے خودی
علامہ کہتے ہیں کہ جس کی پیشانی پر سوال کرنے کی شرمندگی سے پسینہ نہیں
آتا،وہ بے قدر ہو جاتا ہے اور اس کی غیرت دفن ہو جاتی ہے۔اس لیے وہ سوال
کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہیں۔
ایک اور عنصر جو علامہ اقبال ؒکے نزدیک خودی کی کمزوری کا باعث ہو سکتا
ہے،اسے انہوں نے غلامی سے موسو م کیا ہے۔یہ غلامی فرد کی بھی ہو سکتی ہے
اور قوم کی بھی۔ غرض یہ کہ ہر قسم کی غلامی انسانیت کی پیشانی پر بد نما
داغ ہے۔’خضر ِ راہ‘ میں غلامی کے متعلق یوں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
بندگی میں گَھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بے کراں ہے زندگی
۔۔۔جاری ہے۔۔۔
|