حالات حاضرہ کو دیکھ کر آج مجھے جس موضوع پر تحریر کی
سعادت حاصل ہوئی وہ ہے فریضہ نِکاح، جیسا کہ آج کل سبھی جانتے ہیں،کہ بہت
ساری شادیاں ہو تے ہی ناکام ہو جاتی ہیں۔ اگر کامیاب بھی ہورہی ہیں تو وہ
خوشیاں،محبتیں پہلے کی طرح نہیں ہیں جیسی ہماری آباؤاجداد ہمارے لیے چھوڑ
کر گئے۔افسوس کہ ہم اس کام کو اسی تسلسل سے جاری نہ رکھ سکے اُس میں ذمہ
دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں۔ہم نے شادیوں کو مشکل اور بُرائی کو
آسان بنا دیا ہے۔ ہم رحمٰن کے راستے سے دور ہوتے جارہے ہیں اپنی تعلیمات
کُھو چُکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم رسوا ہو رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ اگر عورت کسی مرد سے مال کھائے تو اُسے طوائف کہا جاتا ہے لیکن
مرد اگر کسی عورت کا مال ڈھول بجا کر کھائے اور تا حیات کھائے تو اُسے
دُولہا کہا جاتا ہے۔ اکثر و بیشترلڑکے والوں کی خواہش اور پوری کوشش ہوتی
ہے کہ لڑکی کے گھر والوں کے تَن کے کپڑے تک اُتروا لئے جائیں۔
ہم ایک ایسے خاندان کو بھی جانتے ہیں جس میں لڑکی والے بیرون ملک سے
پاکستان آئے اور بھوکے فقرے لڑکے والوں نے رُخصتی کے وقت تک ایسی ایسی
چیزوں کی فرمائشیں جاری رکھیں جس سے لڑکی والوں کو پاکستان میں موجود کچھ
دوستوں احبابوں سے قرض لینا پڑا اپنے طُلائی زیورات تو پہلے ہی مطالبات کو
پورا کرتے کرتے وہ بیچ چُکے تھے۔وہ یہ سمجھ رہے ہوں گے شاید یہ انکی آخری
خواہش و مطالبہ ہے لیکن یہ سلسلہ تو شادی کے بعد تک جاری رہا۔پھر بھی سَلام
اس عورت ذات کو جو پھر بھی ان سے نیک امیدیں لگائے والدین کی عزت کی خاطر
ایک لفظ تک لَب پر نہ لائی۔اس پر شدید افسوس بھی ہوا کہ آخر یہ عورت ذات
کونسی اچھی امیدیں لگا کر رخصت ہوئی؟
اس کا خیا ل تھا کہ یہ آخری ڈاکہ ہے بابل کے گھر پر،اس کے بعد سب چین ہی
چین ہو جائے گا۔جبکہ شادی کے بعد بھی یہ حریص خاندان انہیں نوچتا رہا اور
خاص بات یہ کہ لڑکے کو اپنے سسرال کو لوٹنے کے یہ گُر کوئی اور نہیں بلکہ
اسکی اپنی والدہ ہی سکھاتی رہیں۔شا ید لڑکی کے والدین کو زندہ بھی اس لئے
چھو ڑ دیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں بھی خون چوسنے کا سلسلہ جاری رہے۔کبھی
رَسموں کے نام پر، کبھی رواجوں کے نام پر۔۔۔
یہاں نہ تو وہ خود کو بے غیرت محسوس کرتے ہیں نہ چھوٹا۔ایک لڑکی تَاحیات
اپنے آپ کو ایک مرد کی خدمت اطاعت میں پیش کررہی ہوتی ہے۔اپنی
جوانی،حُسن،طاقت،صحت اور عزت سب کچھ اس پر وار دیتی ہے لیکن یہ سب کچھ ایسے
بے غیرت خاندانوں کی نظر میں ہیچ ہے، جب تک ان کے مطالبات کا کنواں بھرتا
نہ رہے۔جو کہ کبھی بھی نہیں بھر سکتا، جب تک لڑکی خود اس سے بغاوت نہ کردے
یا اپنے گھر کو بچانے کے لئے خود مَرد سامنے نہ آجائے جو کہ نا ممکن ہو تا
ہے۔
اگر دوسری جانب دیکھا جائے تو بساط سے زیادہ یا نمائشی جہیزعذاب ہے تو لڑکے
کی جانب سے ملنے والے تحائف اور سامان جسے بَری کہا جا تا ہے۔ا س بَری کے
نام پر ایک طوق لڑکے کی گردن میں بھی ڈالا جاتا ہے۔بَری بھی لڑکو ں کو
سالوں کے لئے مقروض کر دیتی ہے۔بری کے نام پر ایک نو جوان جو ابھی نیا نیا
کاروبار یا ملازمت کا آغاز کر رہا ہے اس سے دس دس،بیس بیس تولے کے طُلائی
زیورات،دس یا بیس ہزار کا ماہوار جیب خرچ، زمینیں اِنتقال کرانا اور لاکھوں
روپے کا حق مہر لکھوانا کس جہاں کی شرافت ہے؟
کیا یہ کُھلی بدمعاشی نہیں؟
اس کے خلا ف بھی آواز اُٹھائی جانی چاہیے۔جہاں بیٹی والے جہیز سے جان
چھڑانا چاہتے ہیں وہاں انہیں یہ بات بھی اپنے دماغ میں بِٹھا لینی چاہیے کہ
ایک لڑکا ساری زندگی اس کے اخراجات،خوشی،غمی پوری کرنے کا وعدہ کررہا ہے،
تو اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ ڈال کر اس رشتے میں قرض اور پریشانیوں کا زہر
نہ گھولا جائے۔کیونکہ وقتی طور پر لڑکا مجبور ہو کر یہ سب چونچلے کر بھی لے
گا تو شادی کے بعد یہی قرض اُتارنے کا موقع اس جوڑے کے لئے ایک دوسرے سے
نفرت اور بیزاری کا باعث بن جائے گا۔لڑکے سے راستہ روکنے، دودھ پِلائی،
جُوتا چھپائی اور جانے کون کون سی رَسموں کے نام پر منہ مانگی رقمیں بٹوری
جاتی ہیں، تو لڑکی سے قُرآن کھولنے، گود میں بچہ اُٹھانے، دیور کی گوڈا
بِٹھائی اور جانے کس کس رسموں، ڈراموں کے نام پر موٹی موٹی رقمیں اینٹھ لی
جاتی ہیں۔
بزرگوں نے یہ رسمیں شادی بیاہ کے موقع پر سڑیسStress) (یعنی ذہنی دباؤکو کم
کرنے اور ہنسی مذاق سے ان گھرانوں کو ریلیکس (Relax)یعنی کہ خوش کرنے کے
لئے بنائی تھیں، لیکن آج ہم لوگوں نے انہیں چھوٹے چھوٹے خوشی کے مواقعوں کو
بھی مقابلہ بازی اور پیسہ کمانے کی موقع پرستی میں بدل کر اپنے لئے اور
دوسروں کے لئے بھی پریشانی وغمی کی سی صورتحال میں بدل دیا ہے۔آج کل ہر
گھرانہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک کاروبار اور اپنے اخراجات وصول کرنے کا سنہری
موقع ہے،سو دوسرے خاندان سے جو بھی خرچ نکلوایا جا سکتا ہے نکلوالیا
جائے۔سوچنے کی بات ہے کہ اتنے اخراجات کیے ہی کیوں جائیں پھر جنہیں بٹورنے
کے لیے ا س قدر منصوبے کئے جائیں۔اپنی بساط کے مطابق کیوں نہ خوشی کے لمحے
کو خوشی میں گزارا جائے؟ ان گھٹیا اور گندی رسموں کے بعد چاہے وہ نیا جوڑا
ساری زندگی ایک دوسرے کو طعنے دے دیکر ہی چھلنی کرتا رہے۔انہیں اس کا اُس
وقت کوئی احساس نہیں ہوتا جبکہ دونوں طرف ان حالات کو نبھانا خاندان کو ہی
ہوتا ہے۔ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ نِکاح کا آسان کرنادونوں خاندانوں
کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی ایک فریق کی۔وَرنہ دِکھاوا کرنے والوں کا نمائشی
سامان لڑکے کر گھر ہوتا ہے اور بیٹی دوبارہ اپنے گھر۔کیا والدین اس لیے
بیٹی بیاہتے ہیں؟کیا وہ لوگ جن کی وجہ سے آپ اپنا ناک بچانے کی کوشش کرتے
ہیں وہ آکر آپ کی مدد تو ایک طرف آپ کو تسلی دینے یا آپ کا حال تک پوچھنے
کو آتے ہیں؟نہیں نا تو پھر ان رسموں سے چھٹکارا پائیے۔خُدارا دنیا کو گمراہ
نہ کیجیئے۔
بات صرف یہیں مکمل نہیں ہو تی بلکہ رُخصتی اور ولیمے کے موقع پر ایک دوسرے
سے من چاہی تعداد میں مہمانوں کو لانے کا مطالبہ اسکے ساتھ ہی من چاہے
پکوانوں کی خواہش۔یہ سب کونسی اِنسانیت اور کونسی شرافت ہے؟ آپ جو مطالبہ
پکوانوں یا مہمانوں کی تعداد میں کرتے ہیں بے شک آپ اپنی طرف سے جتنی مَرضی
تعداد میں مہمان بُلائیں یا جو مرضی پکوان پکائیں لیکن اپنے مہمانوں کا
بوجھ دوسرے کے پلڑے میں تو نہ ڈالیں۔کوشش کرنی چاہیے کہ بتائی ہوئی تعداد
سے بھی کچھ کم مہمان لے کر جائیے اورباقی مہمان اپنی دعوت میں بُلا لیجیئے
تاکہ دونوں گھرانوں کو آسانی مل سکے۔
ساری دُنیا ایک جیسی نہیں اچھے لو گ بھی دنیا میں ہوتے ہیں جو صر ف فریضہ
سمجھ کر ادا کر دیتے ہیں اور اُن کے گھروں میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی
ہیں۔اپنی اولاد سے دوستی کیجیئے نہ کہ دشمنی۔یاد رکھیئے آپ کے آج کے فیصلے
ساری زندگی آپ ہی کی نسلوں کو بُھگتنا پَڑیں گے۔اَلمختصر آپ لوگوں کو خوش
نہیں کر سکتے، لوگ فقط یہی کہیں گے کہ انا للہ و اناالیہ راجعون۔
|