مرکز المعارف (این جی او):
اپنے والد گرامی کے رفاہی وخیراتی کاموں سے تحریک پاکر، دار العلوم، دیوبند
کے اس وقت کے نوجوان فاضل مولانا بدر الدین اجمل صاحب قاسمی (حفظہ اللہ) نے
سن 1983 میں، ایک تنظیم بنام "مرکز المعارف" قائم کیا؛ تاکہ مفلوک الحال
لوگوں کے لیے کام کرسکیں۔ اس تنظیم کے قیام کا اہم مقصد سماج کے تعلیمی
ومعاشی طور پر پچھڑے ہوئے لوگوں کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔ اس کا صدر
دفتر آسام کے شہر "ہوجائی" میں ہے۔ اس تنظیم نے اپنے قیام کے روز اول سے
خاص طور پر تعلیمی میدان کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اس نے درجنوں اسکول
اور کالجز قائم کیا۔ تعلیم کے علاوہ اس تنظیم نے متعدد ہسپتال اور یتیم
خانے قائم کیے۔ بہت سے ایسے لوگ جن کو سر چھپانے کے لیے ایک گھر میسر نہیں
تھا، گھر بنواکر ان لوگوں کے حوالے کیا۔ تنظیم نے آفاتِ سماوی کے موقع سے
راحت رسانی کا کام انجام دیا۔ وہ جوان لڑکیاں جن کے والدین تنگ حالی کی
وجہہ ان کی شادی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، یہ تنظیم شادی کے لیے ان کو
تعاون پیش کرتی ہے۔ یہ تنظیم صرف آسام کے قرب وجوار میں ہی کام نہیں کرتی؛
بلکہ ہندوستان کے متعدد علاقے، مثلا منی پور، نئی دہلی، دیوبند اور ممبئی
وغیرہ میں قائم اپنے دفاتر کے تحت بھی کام کرتی ہے۔ اس کے تعلیمی کارناموں
میں ایک اہم مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر (ایم ایم ای آر سی) کے
تحت نئے فارغین علما کو انگریزی زبان سے مسلح کرنا ہے۔
علما کے لیے انگریزی زبان کی ضرورت:
عصر حاضر میں انگریزی زبان کی حیثیت ایک بین الاقوامی زبان کی ہے۔ اگر کوئی
شخص چاہتا ہے کہ اس کے افکار وخیالات بین الاقوامی سطح پر پہنچیں اور سنے
جائیں یا وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایسی زبان استعمال کرے جسے عام طور پرعالمی
سطح پر قارئین وسامعین سمجھ سکیں؛ تو اس شخص کے لیے انگریزی زبان سیکھنا
ضروری ہے؛ کیوں کہ بغیر انگریزی زبان کے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔
اسلام کی ترجمانی اور اسلام کے پیغامِ امن کوعالمی سطح پر پہنچانے کے لیے
علماء کرام کی شخصیت بہت ہی موزوں ہے، مگر عام طور پر علماء کرام انگریزی
زبان سے ناواقف ہوتے تھے۔ ان کے لیے اپنے افکار وخیالات اور پیغامِ اسلام
کو عالمی سطح پر پہنچانا، بہت مشکل تھا؛ جب کہ متعصب ذرائع ابلاغ اسلام
مخالف بہت سی غلط فہمیاں عالمی سطح پر پھیلارہے ہیں۔ سب کے نزدیک آج کی
تاریخ میں انگریزی زبان کی اہمیت مسلم ہے؛ مگر کچھ سالوں قبل تک علماء کرام
انگریزی زبان کے سمجھنے، بولنے اور لکھنے سے بالکل معذور تھے۔ اس بات سے
انکار نہیں کیا جاسکتا ایک آدھ عالم ایسے ضرور تھے جو انگریزی زبان پر قادر
تھے؛ مگر انھوں نے ذاتی طور پر محنت ومشقت اور مشق وتمرین سے یہ حاصل کیا
تھا۔ باضابطہ کوئی ادارہ ایسا نہیں تھا، جہاں علما کو داخلہ دے کر، انگریزی
زبان سیکھائی جاتی تھی۔ بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس تھا کہ علماء کرام
کو انگریزی زبان سے واقف ہونا چاہیے؛ مگر ان کے سامنے کوئی مثال نہیں تھی
کہ ان کو کس طرح انگریزی زبان سیکھائی جائے۔
مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کا قیام:
انگریزی زبان کی اہمیت اور وقت کے تقاضے کو سمجھتے ہوئے، دار العلوم دیوبند
کے فاضل اور کامیاب تاجر، محسن ملت حضرت مولانا بدر الدین اجمل صاحب قاسمی
(حفظہ اللہ)، بانی وصدر: "مرکز المعارف" نے سن 1994 میں ایک ادارہ بہ نام:
"مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر" (ایم ایم ای آر سی) قائم کیا۔
قاسمی صاحب دار العلوم، دیوبند کے رکن شوری، اے آئی یو ڈی ایف کے صدر اور
آسام کے دھبری حلقہ سے لوک سبھا کے ایم پی ہیں۔ ایم ایم ای آر سی کا مقصد
نئے فارغین مدارس کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر سائنس سے مسلح کرنا تھا؛
تاکہ یہ علماء کرام بہ سہولت زمانے کے چیلنجیز کا سامناکرسکیں اور اسلام کی
اشاعت اور قوم وملت کی خدمات قومی وبین الاقوامی سطح پر انجام دے سکیں۔ اس
طرح ایم ایم ای آر سی پورے ہندوستان میں اپنی طرز کا پہلا ادارہ ہوگیا، جس
نے زمانے کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے علما کی ٹریننگ کا آغاز کیا۔
ابتدائی طور پر ایم ایم ای آر سی کا قیام دہلی میں ہوا۔ جناب محمد عمر گوتم
صاحب، مشہور داعی وسابق لکچرر، شعبہ اسلامیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی
دہلی کو بحیثیت ڈائریکٹر اس ادارہ کو چلانے کی ذمےداری سونپی گئی۔ اس کورس
کا نام: "ڈپلوما ان انگلش لنگویج اینڈ لٹریچر" (ڈیل) رکھا گیا۔ مدت تعلیم
دو سال متعین کی گئی۔ پھر جناب گوتم صاحب کی ڈائرکٹرشپ میں اس ادارے نے
اپنے اہم سفر کا آغاز کیا۔ انگریزی زبان سے دل چسپی رکھنے والے نئے فارغین
مدارس کو، داخلہ امتحان کے بعد منتخب کیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا
کہ درجن بھر سے زیادہ نئے فارغ علما ایک جگہ پر انگریزی زبان اور کمپیوٹر
سیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ آغاز کے بعد، ادارہ بہت اچھے طریقے سے چلا،
الحمدللہ۔ کچھ سالوں بعد، اس ادارہ کو دہلی سے ممبئی منتقل کردیا گیا۔
ممبئی میں اس ادارہ کی ذمے داری ایم ایم ای آر سی کے محترم فاضل مولانا
محمد برہان الدین صاحب قاسمی کو سونپی گئی۔ مولانا قاسمی نے بحیثیت
ڈائریکٹر اس ادارہ کی ترقی کے لیے بڑی جد وجہد کی۔ انھوں نے اس کورس میں
بہت سے مفید اجزاء کا اضافہ کیا۔ ہرسال درجنوں علمااس کورس سے استفادہ
کررہے ہیں اور فارغ ہوتے ہیں۔ یہ ادارہ دن بہ دن ترقی کی طرف گامزن ہے،
الحمد للہ۔
ایم ایم ای آر سی کا پچیس سالہ جشن:
ایم ایم ای آر سی کے پچیس سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اب ایم ایم ای آر سی "پچیس
سالہ جشن اور سہ روزہ بین الاقوامی سمینار بموضوع: مسلم نوجوان، علما اور
معاصر چیلنجیز خاص طور پر مدرسہ کی تعلیم کے بعد اور ڈیل کورس کے تناظر
میں"، 4-6 اکتوبر 2019 کو دہلی میں کرنے جارہا ہے۔ پچیس سال کوئی بہت ہی
مختصر مدت نہیں ہے؛ مگر کسی نمایاں کامیابی کے لیے حصول کے لیے یہ کوئی بڑی
لمبی مدت بھی نہیں ۔ بہرحال، ایم ایم ای آر سی اپنے قیام کے پچیس سالہ مدت
میں، اپنے ہدف اور مقصد کے حصول میں نہایت ہی کامیاب رہا۔ کوئی بھی انصاف
پسند مورخ ایم ایم ای آر سی کی خدمات کو سراہتے ہوئے اس کی تاریخ سنہرے
حروف سے لکھے گا کہ اس ادارہ نے علما کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر سائنس سے
مسلح کرکے زمانے کی تحدیات کو قبول کرنے کے راستے میں واقع رکاوٹ کو دور
کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایم ایم ای آر سی کے فضلاء:
مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر(ایم ایم ای آرسی) نے اب تک تقریبا
450 علما کو انگریز زبان اور کمپیوٹر کی تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ دو سالہ
"ڈپلوما ان انگلش لینگویج اینڈ لٹریچر" کی تکمیل کے بعد، کوئی چیز ان کو
آگے بڑھنے میں مانع نہیں رہتی۔ یہ علما قوم وملت کی خدمت کے لیے کسی بھی
میدان کو منتخب کرنے میں، خود کو پورے طور پر مسلح پاتے ہیں۔ جن میدان میں
بھی وہ گئے، ان کی کارکردگی قابل تعریف رہی ہے۔ ان کی جدو جہد، صلاحیت
وقابیلیت اور محنت ولگن قابل تقلید ہوتی ہیں۔ ایم ایم ای آر سی کے فضلاء نے
تدریس وتعلیم، بحث وتحقیق، دعوت وتبلیغ، صحافت اور سماجی وانتظامی جیسے
مختلف میدانوں میں اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ان سبھی میدانوں میں انھوں نے اہم
کرادر اداکیے اور نمایاں خدمات انجام دیے ہیں۔ یہی وجہ ہےیہ حضرات جہاں بھی
ہوں اور جو بھی خدمات انجام دے رہے ہوں، منتظمین انھیں قدر کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں۔
ان فضلا کرام میں سے چند کے اسماء گرامی مع ان کی سرگرمیوں کے ساتھ پیش
کیے جارہے ہیں۔ مولانا محمد برہان الدین صاحب قاسمی، مشہور صحافی، "ایم ایم
ای آر سی" کے موجودہ ڈائریکٹر اور مشہور انگریزی میگزین "ایسٹرن کریسینٹ"
کے بانی وایڈیٹر ہیں۔ مولانا محمد عتیق الرحمن صاحب قاسمی مرکز المعارف کے
ڈی آئی پی آر کے کورڈینیٹر اور یو این ای پی کی طرف ماحولیاتی خدمات پر
ایوارڈ یافتہ ہیں۔ مولانا انصار اعظمی قاسمی کنگ سعود یونیورسیٹی، ریاض،
سعودی عرب میں پروفیسر ہیں۔ مولانا افتخار احمد صاحب قاسمی انگریزی وعربی
زبان کے قلم کار اور جامعہ اکل کوا میں استاذ حدیث ہیں۔ مولانا ڈاکٹر محمد
رفیق صاحب قاسمی مولانا آزاد نیشنل یونیورسیٹی، حیدرآباد میں استاذ ہیں۔
مفتی ڈاکٹر محمد عبید اللہ صاحب قاسمی شعبہ عربی زبان وادب، ذاکر حسین
کالج، دہلی یونیورسیٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر اورہیڈ ہیں۔ آپ دار العلوم،
دیوبند کے شعبہ انگریزی زبان وادب کے بھی ہیڈ رہ چکے ہیں۔ مولانا محمد افضل
صاحب قاسمی الجامعۃ الاسلامیہ، بولٹن، انگلینڈ میں استاذ حدیث اور بلیکبرن
کالج، یو کے میں لکچرر ہیں۔ آپ دار العلوم، دیوبند کے شعبہ انگریزی زبان
وادب کے سابق استاذ ہیں۔ مفتی عبد الرشید صاحب قاسمی، استاذ حدیث اور حق
ایجوکیشن اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن، کانپور کے نائب چیرمین ہیں۔ مفتی ڈاکٹر محمد
اللہ صاحب قاسمی انگریزی واردو زبان وادب کے قلم کار، دار العلوم دیوبند کے
شعبہ انٹرنیٹ کے ہیڈ اور آن لائن دار الافتا کے کورڈینیٹر ہیں۔ مولانا شمس
الہدی صاحب قاسمی جامعہ اکل کوا کے شعبہ انگریزی زبان وادب کے ہیڈ اور وہاں
سے شائع ہونے والا میگزین: "دی لائٹ" کے ایڈیٹر ہیں۔ مولانا اسماعیل صاحب
ماکروڈ (رحمہ اللہ)نے سن 2003 میں، ایم ایم ای آر سی کے طرز پر ایک ادارہ
بنام: مرکز اسلامی ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، گجرات کے شہر انکلیشور میں
قائم کیا، جہاں سے طلبہ کی ایک بڑی تعداد استفادہ کرکےملک وبیروں ملک میں
خدمات انجام دے رہی ہے۔ مولانا منظر امام قاسمی (پی ایچ ڈی)، انگریزی واردو
زبان کے صحافی، ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی اور یونیورسیٹی
آف نوٹرے ڈیم، یو ایس اے سے بھی منسلک ہیں۔ مولانا ڈاکٹر رفیق الاسلام صاحب
قاسمی، اسسٹنٹ پروفیسر: یونیورسیٹی آف گوہاٹی، اے آئی یوڈی ایف کے جنرل
سکریٹری اور سابق ایم ایل اےآسام ہیں۔ مولانا ڈاکٹر غفران نجیب قاسمی(بی یو
ایم اسی) طبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب قاسمی
پوسٹ ڈوکٹرول ریسرچ میں مشغول ہیں اور آل انڈیا ریڈیو میں بحیثیت نیوز ریڈر
کام کرچکے ہیں۔ مولانا ڈاکٹر رحمت علی قاسمی "حج میگزین"، حج کمیٹی، حکومت
ہند کے معاون ایڈیٹر ہیں۔ مولانا غفران ساجد قاسمی بصیرت آن لائن اور ہفت
روزہ ملی بصیرت، ممبئی کے بانی وچیف ایڈیٹر ہیں۔ مولانا ساجد قاسمی (ایم
ایڈ: امریکن کالج آف ایجوکیشن، یو ایس اے) دار العلوم اٹلانٹا، یو ایس اے
کے ناظم ہیں۔ مولانا خالد صاحب قاسمی جامعہ عبد اللہ بن مسعود میں استاذ
حدیث اور الفاروق مسجد اٹلانٹا، یو ایس اے کے سابق ہیڈ امام ہیں۔ مولانا
مدثر احمد قاسمی، ماہ نامہ ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب
کے کالم نگار اور الغزالی انٹرنیشنل اسکول، ارریہ، بہار کے ڈائریکٹر ہیں۔
مولانا توقیر احمد قاسمی کاندھلوی مشہور خطیب اور دار العلوم دیوبند کے
شعبہ انگریزی زبان وادب کے ہیڈ ہیں۔ مولانا حفظ الرحمن قاسمی (پی ایچ ڈی)
جے این یو، نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور آپ نے معتدد اردو کتابوں کا
انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
جن حضرات کے اسمائے گرامی ذکر کیے گئے ہیں، وہ بطور مثال ہیں۔ اس سے فضلاء
مرکز کا کوئی احصاء مقصود نہیں ہے۔ انھوں نے مختلف میدان میں نمایاں خدمات
انجام دی ہیں۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں اور درجنوں کتابوں کا
انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان حضرات نے مرکز المعارف
ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر میں داخلہ لے کر، حضرت مولانا بدر الدین اجمل
صاحب قاسمی (دامت برکاتہم) کی زیر سرپرستی، عالی جناب محمد عمر گوتم صاحب
اور محترمی مولانا محمد برہان الدین صاحب قاسمی کی زیر نظامت جو انگریزی
زبان وادب کی تعلیم حاصل کی، اس نے ان حضرات کی کامیابی وکامرانی میں اہم
کردار ادا کیا ہے۔
ماہ نامہ ایسٹرن کریسنٹ کا آغاز:
سن 2006 میں ایم ایم ای آر سی نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئےانگریزی زبان میں،
ایک ماہ نامہ بہ نام: "ایسٹرن کریسنٹ" کا آغاز کیا۔ اس میگزین کا پہلا
شمارہ مئی 2006 میں شائع ہوا۔ یہ ماہ نامہ روز اول سے مولانا محمد برہان
الدین قاسمی کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔ جہاں یہ ماہ نامہ ایم ایم ای آر
سی کے فضلاء کے مضامین ومقالات کو اہمیت کے ساتھ چھاپتا ہے، وہیں بغیر کسی
امتیاز کے عصری اداروں کے تعلیم یافتہ قلم کاروں کو بھی اپنے نظریات
وخیالات بشکل مضامین پیش کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایسٹرن کریسنٹ فضلاء
ایم ایم ای آر سی کو اپنے نظریات وخیالات اور افکار کو انگریزی جاننے والو
تک پہنچانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یہ میگزین عام طور پر حالات حاضرہ،
ہندوستانی مسائل، ہندوستانی مسلمانوں کے حالات، اسلامی موضوعات وغیرہ کو
نمایاں طور پر اپنی اشاعت میں جگہ دیتا ہے۔ عمدہ مضامین ومقالات کی شمولیت
اور بہترین طباعت واشاعت کی وجہ سے اہل علم وقلم اور اساتذہ واسکالرز اس
میگزین کو پسند کرتے ہیں۔ یہ میگزین چودہ سالوں سے مستقل چھپ رہا ہے۔ کسی
بھی ماہ نامہ کا اتنی لمبی مدت تک چھپتے رہنا، میدان صحافت میں بڑی کامیابی
وکامرانی ہے۔
مکتب مرکز المعارف:
مسلم بچوں کے لیے مکاتب اسلامیہ کی جو اہمیت ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ
مکاتب اسلامیہ جہاں ایک طرف چھوٹے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے واقف کراتے
ہیں؛ وہیں دوسری طرف اخلاقی اقدار کو بھی ان بچوں کو ذہن نشیں کراتے ہیں۔
جو بچے مکاتب میں پڑھنے جاتے ہیں، وہ اپنے ایمان ودین کی اہمیت کو بخوبی
سمجھتے ہیں۔ وہ بچے وضو کرنے اور پنج گانہ نماز کے طریقے وغیرہ سے بھی واقف
ہوتے ہیں۔ ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکاتب کا قیام وقت کی اہم ضرورت
ہے۔ ہمیں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ ایم ایم ای آر سی کی
انتظامیہ، بچوں کے لیے قابل اساتذہ کرام کی زیر نگرانی، ایک کامیاب مکتب بہ
نام: "مکتب مرکز المعارف" چلاتی ہے۔ اس مکتب سے ابھی تقریبا 170 بچے
استفادہ کرتے ہیں۔ مکتب کے بچے ممتاز نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں۔ اس سماجی
خدمات کے لیے انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے۔
اسکولی بچوں کے لیے ورکشاپ:
کسی بھی شخص کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ وہ ضروریاتِ دین سے واقفیت رکھتا
ہو۔ جب ایک شخص اپنے دین کی ضروریات سے واقف ہوگا، تو اس سے جہاں اس کو
روحانی طاقت محسوس ہوگی، وہیں اس سے اس شخص کو دین پر عمل کرے میں اعتماد
پیدا ہوگا۔ ان دنوں ہمارے وہ بچے جو اسکول جاتے ہیں، انھیں بمشکل ہی اسلامی
تعلیمات اور اس کی اہمیت کے حوالے سے کچھ پڑھایا جاتا ہے۔ ان بچوں میں سے
اکثر عقائد اور ضروریاتِ دین سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ اسکولوں کے تعطیلی
ایام میں، ایم ایم ای آر سی ایسے بچوں کی تربیت کے لیے گاہے بہ گاہے ورکشاپ
کا انعقاد کرتی ہے۔ یہ ورکشاپ اسلامی ماحول میں منعقد کیا جاتا ہے؛ تاکہ وہ
معصوم بچے جو مختلف اسکولوں میں جاتے ہیں، ان کے ذہنوں میں اسلامی معلومات
کی اہمیت وافادیت کو بیٹھایا جاسکے اور ان کو دینی باتیں سیکھائی جاسکیں۔
اس ورکشاپ کے ذریعے انتظامیہ ان بچوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ وہ ان چیزں کی
جانکاری حاصل کریں اور اپنی یومیہ زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرسکیں۔
ایم ایم ای آر سی کے ڈیل کورس کی مقبولیت:
جب آج سے ڈھائی دہائی قبل، ایم ایم ای آر سی کا ڈپلوما ان انگلش لنگویج
اینڈ لٹریچر (ڈیل) کورس متعارف کرایا گيا؛ تو اس وقت کسی نے بھی یہ نہیں
سوچا ہوگا کہ یہ کورس اس طرح کام یاب ہوگا، جس کا مشاہدہ آج سیکڑوں لوگ
اپنی کھلی آنکھوں کر رہے ہیں۔ مگر انتظامیہ، اساتذہ اور طلبہ کی محنتیں،
اخلاص، جدو جہد اور انتھک کوششیں کامیاب ہوئیں۔ آج یہ کورس نئے فارغین
مدارس کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر کی تعلیم سے مسلح کرنے کے حوالے ایک
کامیاب ترین نمونہ سمجھاتا جاتا ہے۔ اس کورس کی کامیابی کا مشاہدہ کرتے
ہوئے متعدد دینی مدارس کے منتظمین نے اسے قبول کیا اور اپنے اپنے اداروں
میں اس کورس کا آغاز کیا۔ پھر دینی مدارس کے بعد، وطن عزیز کی ایک مشہور
یونیورسیٹی: علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی (اے ایم یو) نے بھی اپنے یہاں اس کورس
کو جگہ دی۔ اے ایم یو میں اس کورس کو "برج کورس" سے جانا جاتا ہے۔
خاتمہ:
مختصر یہ ہے کہ ایم ایم ای آر سی نے نئے فارغین مدارس کو زمانے کے چیلنجیز
سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب یہ علما
بسہولت قومی وبین الاقوامی سطح پر قوم وملت کی خدمات انجام دے سکتے ہیں۔
بحیثیت ادارہ، ایم ایم ای آر سی ایک نمونہ ہے۔ فی الحال ہندوستان میں اس
طرح کی خدمات پیش کرنے والے تقریبا ایک درجن ادارے ہیں۔ ہندوستان جیسے بڑے
ملک میں جہاں ہر سال مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں علما فارغ ہوتے ہیں، یہ
ادارے ناکافی ہیں؛ کیوں کہ ان اداروں میں بہت ہی محدود طلبہ کا داخلہ
ہوپاتا ہے۔ بہت سے علما اپنی خواہش کے باوجود بھی سیٹ محدود ہونے کی وجہ سے
داخلہ نہیں لے پاتے ہیں۔ حالات حاضرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے علما کی ایک
بڑی تعداد کو انگریزی زبان سے واقف کرانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مزید
ادارے قائم کیے جانے چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ان اداروں میں کمپیوٹر وڈپلوما
ان انگلش لنگویج اینڈ لٹریچر کے ساتھ ساتھ ماہرین فن سے عصر حاضر کے اہم
مختلف موضوعات پر مہینہ میں کم از کم ایک محاضرہ بھی پیش کیا جانا
چاہیے!❁❁❁
٭ ہیڈ: اسلامک ڈپارٹمنٹ، مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
|