انگریز عالم آئن نیشن جاپان گئے انھوں نے وہاں ۱۱ سال رہ
کر جاپانی سیکھی اور جاپانی قوم کا مطالعہ کیا۔ اسک ے بعد انھوں نے اپنے
مطالعے اور تحقیق کے نتائج کی روشنی میں 238 صفحات کی ایک کتاب لکھی جسکا
نام “جاپان ک کہانی”ہے ۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ جاپان قوم کو جس چیز نے
سب سے زیادہ تباہ کیا وہ سیاست نہیں بلکے 14/8/1945 کو امریکہ نے جاپان کے
دو بڑے صنعتی شہر پر ایٹم بم گرا دئے ایک لمحے میں جاپان کی فوجی طاقت تہس
نہس ہوگئ اور جاپان کو مجبور ہو کر امریکہ کے سامنے ہتیار ڈالنے پڑے۔اسکے
فوراً بعد جنرل میکارتھر نے امریکی فوجیوں کے ساتھ پورے جاپان پر قبضہ کر
لیا۔ جاپان اگرچہ فوجی اعتبار سے شکست کہا چکا تھا مگر جاپانیوں کا جنگی
جنون بادستور قائم تھا۔ اب جنرل میکارتھر کے سامنے یہ سوال تھا کے اس جنگی
جنون کا ختمہ کیسے کیا جائے! اسکا حل انھوں نے اسطرح نکالا کہ جاپانیوں کے
جزبے کو جنگ سے ہٹا کرمعاشی سرگرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔
جاپان نے اپنے عمل کا رخ بدل کر امریکہ سے براہِراست ٹکراو کو مکمل طور پر
ختم کر دیا اور اپنی تمام قوتوں کو سائنسی ترقی میں لگا دی، اسکا نتیجہ یہ
ہوا کہ صرف 30 سالوں میں جاپان نے پہلے سے زیادہ طاقتور حقیقت حاصل کرلی۔
جاپان کو کامیابی اسلیے حاصل ہوئی کیوں کے اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر
لیا تھا۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ایک درست سمت میں جا رہا ہے، ملک کے تمام
ادارے مستحکم ہو چکے ہیں تو پھر آپ اپنے اس نظریے پر قائم و دائم رہے۔ لیکن
اگر آپ ملک کے 20 کروڑ عوام کی طرح سوچتے ہیں کہ ہم اپنی مجودہ پالیسیوں کی
وجہ سے مکمل ناکامی کا شکار ہو چکے ہیں تو آپ صیح سوچ رہے ہیں۔ میتیھو نے
کہا تھا”جب اندھے کی رہنمائ اندھا کر رہا ہو تو دونو گڑھے میں گرتے ہیں”
کچھ ایسی ہی مثال ہماری ہے جب ہم اس نتیجے پر پہنچے گے کہ ہم گڑھے میں گر
چکے ہیں تو ظاہر ہے ہم اُس سے نکلنے کا راستہ تلاش کرے گے۔ یہی وہ وقت ہوگا
جب ہمارے نئے سفر کا ناکامی سے کامیابی کی طرف آغاز ہوگا۔
|