صحافت کی جڑیں مقامی اخبارات سے جڑی ہوئی ہیں

کہتے ہیں کہ آئینہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اسکا چہرہ دکھاتا ہے۔ اگر آئینہ نہ ہوتا تو دنیا کا کوئی شخص بھی اپنا اصل چہرہ نہ دیکھ پاتا۔ آئینہ ایک ایسی ایجاد ہے جس نے جہاں بڑے بڑوں کو انکے خوبصورت کردار سے آشکار کیا وہیں اس معاشرے کے بد کردار لوگوں کو انکے مکروہ اور بد نما چہرے بھی دکھائے یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے مکروہ او ر بد نما چہروں پر ملمع کاری کرکے اسے چھپانے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ جہاں ایک آئینہ انسان کو اسکا چہرہ دکھانے میں اہم کردار دا کرتا ہے وہیں صحافت بھی معاشرے میں رہنے والوں کیلئے ایک آئینے کا کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے میں رہنے والے ہر طبقہ فکر کیلئے ایک آئینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں ہماری صحافت معاشرے کے لوگوں کو انکا چہرہ دکھاتی ہے وہیں ایک صحافی کسی بھی معاشرے کیلئے ایک آنکھ کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور وہ جو کچھ بھی دیکھتا ہے اسے معاشرے میں انتہائی ایمانداری سے من و عن پیش کر دیتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں صحافت کے کردار اور اہمیت کا کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صحافت آج جس مقام پر ہے وہ مقام نہ جانے کتنی قربانیوں اور کتنا لہو بہانے کے بعد حاصل ہوا ہے ۔ قلم کی حرمت بینہہ اس شہید کی سے ہے جو اپنے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتا قلم سے رواں روشنائی اور ایک شہید کی رگوں میں بہنے والا وہ خون جووہ اپنے مشن کیلئے قربان کرتا ہے دونوں اپنی جگہ ایک بہت بڑی مسلمہ اہمیت کے حامل ہیں۔ صحافت کے میدان کار ساز میں بہنے والا وہ لہو جس نے آج صحافت کو ہزاروں قربانیوں کے بعد یہ روشن دن دکھایا ہے ہمیں اس روشن دن کو ہمیشہ اپنے قلم کی صداقت سے زندہ رکھنا ہے۔ ہم آج بھی خون دے رہے ہیں اور آئیندہ بھی ہمیں ایسی بے مثال اور لا زوال روایات کو اپنے خون سے زندہ رکھنا ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہمارے اخبار کے ان سپاہیوں کے خون سے سینچے جانے والے اس چمن کی حفاظت اپنے خون کانظرانہ پیش کرکے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہر اس دشمن سے بچانے میں کامیاب ہوں جو اپنی گھناؤنی سازشوں سے اسے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

جہاں ہم نے اپنے اس عظیم اور مقدس حق کو ان غاصبوں اور لٹیروں سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے برصغیر میں بد عہدی اور لاقونونیت کے دور سے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے تا حال جبر و ستم اور مار شل لاء کے علاوہ نام نہاد اشرافیائی جمہوریت سے چھینا ہے وہیں ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ صحافت کے اس خونریز میدان میں سب سے پہلے اس آزادی کی تکمیل کیلئے شہید ہونے والا ایک صحافی تھا ہی تھا جس نے آزاد صحافت کی داغ بیل اپنے خون سے ڈالی۔مگر افسوس کہ جہاں صحافت نے ظلم اور بربریت کے خلاف اپنے قلم کی نوک سے انکے مکروہ چہروں سے نقاب اتارے وہیں صحافت کے اس میدان میں ایسی کالی بھیڑیں بھی شامل ہو چکی ہیں جو صداقت کو ننگی آنکھ سے دیکھنے کے باوجود اپنی عیارانہ تحریروں کے پردوں میں چھپا کر یا پھر اپنے ذاتی لالچ اور مفاد کی خاطر صرف نظر کرنے میں پیش پیش ہیں جسے ہم ذرد صحافت کا نام دیتے ہیں۔ذرد صحافت کو ہم انتہائی مقدس صحافت کے میدان میں ایسے ہی سمجھتے ہیں جیسے کینیڈا میں ننگی فلموں میں کام کرنے والی فحش، شرمناک اور بد کردار سنی لیونی نے اپنے نا پاک قدم رکھ دئے ہوں۔ درباری صحافت بھی زرد صحافت کی ہی ایک قسم ہے جس میں چند مقامی اخبارات گٹھ جوڑ کرکے اپنے ذاتی لالچ کیلئے ایکا کر لیتے ہیں اور آزاد صحافت کے یہ نام نہاد علمبردار مقامی صحافت پر اپنی گرفت مضبوط کرکے اس پر قابض ہو جاتے ہیں اور اسطر ح وہ ہر سفید اور سیاہ کے مالک بن کر اپنی مرضی سے مقامی مسائل کی نشاندہی کرنے میں مقامی سیاستدانوں اور سرکاری محکمہ جات سے میل ملاپ کرکے صحافت کا گلہ گھونٹنے کے درپے ہوتے ہیں اور عوام کے مسائل کو پش پشت ڈال کر سیاستدانوں کی چاپلوسی میں انکے قصیدے لکھتے ہیں اسی طرح مقامی طور پر سرکاری سطح پر ہونے والے کام خواہ وہ ترقیاتی ہوں یا پھر کسی بھی شعبے سے انکا تعلق ہو یہ درباری صحافی اپنی من مانی کرتے ہیں ۔ جو اخبارات مقامی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ان اخبارات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور جان بوجھ کر ان اخبارات کو نظر انداز کرکے ان سے جینے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے ۔ نہ تو ان اخبارات کو سرکاری طور پر کوئی پزیرائی حاصل ہے اور نہ ہی انہیں مقامی طور پر سرکاری اشتہارات دئے جاتے ہیں جس سے انکی دو وقت کی روٹی پورا کرنا بھی محال ہو تا جا رہا ہے۔ مقامی طور پر چھپنے والے وہ اخبارات جو بے باک اور نڈر صحافت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ بیوروکریٹس اور کرپشن اور لوٹ مار کی نشاندہی کرتے ہیں انکے مقابلے میں درباری صحافیوں کو مسلسل رشوت کے طور پر لاکھوں روپے صرف اسلئیے دئے جاتے ہیں کہ وہ انکی کرپشن کی نشاندہی نہ کریں جس سے مقامی طور پر نڈر اور بے باک صحافت کا خاتم ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ کیونکہ وہ تمام ترقیاتی کام جن میں کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کی جاتی ہے زرد اخبارات انکی کرپشن کو چھپا نے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور سیاسی طور پر ایسے مقامی اخبارات کی قسمت کے فیصلے حکومت کے وہ سیاسی علمبردار کرتے ہیں جو ان اخبارات کو ہر قسم کی عیاشیوں کیلئے ہر کرپشن کو چھپانے کیلئے رشوت دیکر اپنی بد کرداری اور بد اعمالیوں کو چھپا تے ہیں۔ اسی طرح دوسری جانب وہ اخبارات جو اس کرپشن کی نشاندہی کرتے ہیں انہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور مقامی طور پر نڈر اور بے باک صحافت آہستہ آہستہ دم توڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے اسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ یہ اخبارات تواتر سے شائع ہی نہیں ہوتے اور فرضی طور پر سرکاری ریکارڈ ہی پورا کرتے ہیں۔ ۔ اسی طرح زرد صحافت کے حامی اخبارت بھی میلاپ کرکے فصلی بٹیروں کیطرح ہیں جو سیزن آنے پر چھاپے جاتے ہیں ورنہ یہ اخبارات تواتر سے شائع ہی نہیں ہوتے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اخبارات مارکیٹ میں کہیں دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ جب سے قومی اخبارات دوسرے شہروں سے شائع ہونا شروع ہوئے ہیں انہوں نے مقامی اخبارات کی اہمیت کو کم کر دیا ہے حالانکہ مقامی صحافت اور مقامی طور پر شائع ہونے والے اخبارات کسی طور بھی اپنی اہمیت کے لحاظ سے کم نہیں ہیں۔ اسی طرح صحافت کے میدان میں سرمایادار اور صنعت کار بھی گھس چکے ہیں جس سے وہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہے ہیں اور مقامی اخبارات اور صحافت زوال پزیری کا شکار ہو رہی ہے۔ صحافت جہاں معاشرے میں رہنے والے لوگوں کو معلومات فراہم کرتی ہے وہیں یہ عوام میں شعور بیدار کرنے اور انہیں علم کی روشنی فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ ادب کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ مگر ہمیں افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ مقامی اور قومی اخبارات میں بعض چھپنے والی خبریں بعض اوقات جھوٹی ہوتی ہیں اور بعض اوقات انمیں املا اور گرامر کی اتنی غلطیاں ہوتی ہیں کہ قاری کی اس اخبار میں دلچسپی نہ صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ اسکے ذہن میں اس اخبار اور اسے ایڈیٹ کرنے والے کے بارے میں بد گمانی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ بعض مقامی اخبارات ایسے بھی ہیں جنکی پیشانی مختلف ہوتی ہے مگر انمیں شائع ہونے والی خبریں ایک جیسی ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی نقل کرکے یہ خبریں چھاپتے ہیں اور ان اخبارات کا کوئی معیار بھی نہیں ہوتا۔ مقامی طور پر چھپنے والے اخبارات کو چاہئے کہ وہ مقامی طور پر ہونے والے واقعات اور اپنے علاقے پر توجہ دیں اور ان مسائل کو اجاگر کریں جو مقامی طور پر لوگوں کو درپیش ہیں ایسے تمام اخبارات جو چھپتے ہی نہیں یا پھر وہ صرف اس پیشے سے وابسطہ ہو کر اسکی خدمت کرنے کی بجائے لوگوں کی بلیک میلنگ کرتے ہیں انکے کیساتھ ہمدردی نہیں رکھنی چاہئے انہیں فی الفور طور پر بند کر دینا چاہئے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہ اخبارات جو صرف اپنی نام و نمود اور تشہیر کیلئے چھپتے ہیں اور انمیں حقائق لکھنے کی جرات نہیں ہوتی ایسے اخبارات یقینا صحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے اور وہ صرف اپنے اخبار کے ذریعے دوسروں کی بلیک میلنگ یا پھر اصل حقائق کو چھپا کر اس سے اپنے ذاتی مقاصد حل کرنا چاہتے ہیں اور وہ دوسروں کو صرف تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں اور یہ ادب کی یا پھر صحافت کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ مقامی اخبارات کا کام جہاں مقامی طور پر ہونے والی تقریبات، مقامی طور پر مشاہیر کے انٹرویو، مقامی طور پر ہونے والے ترقیاتی کام، مقامی طور پر تعلیم کے میدان میں ہونے والی سرگرمیاں، مقامی محکمہ جات میں ہونے والے کام اور انمیں ہونے والی کرپشن ، صحت کے میدان میں ڈاکٹروں کی خدمات اور انکی چیرہ دستیاں ، مریضوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو اجا گر کرکے عوام کو ان سے روشناس کروانا ہی وہ خدمت ہے جس سے ان اخبارات کی پزیرائی ہو سکتی ہے ورنہ مقامی اخبارات جس ڈگر پر چل رہے ہیں اور انہوں نے جو رویہ اختیارت کیا ہوا ہے کہ وہ مقامی طور پر سیاستدانوں اور با اثر افراد کی بڑی بڑی تصاویر چھاپ کر صرف خانہ پری کرتے ہیں اور ان سے نذرانے لیکر صبح شام انکی قصیداہ خوانی کرنا کوئی صحافت نہیں اور نہ ہی یہ صحافت کی کوئی خدمت ہے۔دنیا میں جب صحافت کا آغاز ہو ا تو یہ ایک کاغذ کے چھوٹے سے صفحے پر ہوا تھا جسے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا اسمیں با قاعدہ اخبار کی پالیسی کا ذکر ہوتا تھا ور اسکا اداریہ ہوتا تھا جس سے اخبار کی پالیسی کے بارے میں علم ہوا کرتا تھااور اسی کیساتھ ایک فکہی کالم بھی ہوا کرتا تھا جو لوگوں کی توجہ مختلف مسائل کی طرف مبذول کروایا کرتا تھا مگر کسی بھی مقامی اخبار میں نہ تو کوئی اداریہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فکہی کالم ہوتا ہے۔

صحافت کی جڑیں مقامی اخبارات سے جڑی ہوئی ہیں اورمقامی اخبارات صحافت کے میدان میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر ہم انکی اہمیت ازخود ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ نہ ہی ہم مقامی ا خبارات کا معیار درست کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی ہم صحافت کے میدان میں کوئی مثبت کام کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں جس سے مقامی صحافت کا گراف دن بدن نیچے کی طرف آ رہا ہے اور مقامی طور پر چھپنے والے اخبارات اپنی حیثییت کھوتے جا رہے ہیں۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مقامی طور پر شائع ہونے والے اخبارات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس سے انصاف برتیں اور اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے مقامی اخبارات کی اہمیت میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہوئے صحافت کے میدان میں بہتری کی کوشش کریں:

Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 155597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.