ہر ماہ 80کروڑ روپے سے محروم
بے خوف و بے رحم سرمایہ دار،بے اثر لیبر قوانین اوردم توڑتی ٹریڈ یونینزاور
اس کے نتیجے میں محنت کشوں کاشدید استحصال۔ یہ ہے آج پاکستان کے معاشی نظام
کا خلاصہ ومنظر نامہ۔نمونے کے طورپر ہم پٹرول پمپس پر کام کرنے والے محنت
کشوں کی حالت زارکا جائزہ لیتے ہیں۔کراچی میں مختلف پٹرول پمپس پرکام کرنے
والے فلرز اور کیشئرزسے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق ان کی تنخواہیں
صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ کے نصف سے
بھی کم ہے۔
تقریباً تمام پٹرول پمپس پر کام کاطریقہ کار یہ ہے کہ ایک محنت کش مسلسل
24گھنٹے کام کرتا ہے اور پھر اگلے 24گھنٹے چھٹی۔ لیبر قوانین اگرچہ اس
طریقہ کار کی اجازت نہیں دیتے لیکن اس کاسلسلہ جاری ہے۔اگرفی دن کے حساب سے
دیکھا جائے تو یہ ورکرز روزانہ 12گھنٹے ڈیوٹی کرتے ہیں۔ لیبر قوانین کے
مطابق 8گھنٹے سے زائد کی ڈیوٹی اور ٹائم شمار ہوتی ہے اور اس کا معاوضہ
دگنا ہوتا ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے بجٹ میں مقرر کردہ کم از
کم تنخواہ 17ہزار 500 روپے کے حساب سے دیکھا جائے تو لیبر قوانین کے مطابق
12گھنٹے کام کرنے والے مزدور کی کم ازکم ماہانہ تنخواہ 35ہزار روپے بنتی ہے
لیکن پٹرول پمپس پرزیادہ سے زیادہ تنخواہ15ہزار روپے ہے ۔
تنخواہ دینے کا طریقہ کار ہر پٹرول پمپ پر الگ الگ ہے، بعض جگہ ہر ماہ
یکمشت 15ہزار روپے دیئے جاتے ہیں، جبکہ بعض پمپس پرماہانہ تنخواہ 8یا10ہزار
روپے ہے اور ہر دوسرے دن جب ورکر 24گھنٹے کی مسلسل ڈیوٹی کی بعد گھر جاتا
ہے تو اسے 250 تا 500روپے دیئے جاتے ہیں جس کو یہ محنت کش ا پنی زبان میں
بھتہ کہتے ہیں۔طریقہ کار جو بھی ہو لیکن کسی بھی جگہ مجموعی تنخواہ 15ہزار
سے زیادہ نہیں بنتی۔ ان محنت کشوں کو اپائنمنٹ لیٹر دیاجاتا ہے اور نہ ہی
سروس کارڈ ۔ سوشل سیکورٹی انسٹیٹیوشن اور نہ ہی اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن
میں ان کا انداراج ہوتا ہے۔ انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل ہے نہ علاج
معالجے کی،بونس سے بھی یہ لوگ محروم ہیں۔ کسی بھی پٹرول پمپ پرہفتہ وار،
اتفاقی، طبی، گزیٹڈ اورسالانہ چھٹیوں کا کوئی تصور نہیں، عیدین پر بھی چھٹی
کی صورت میں تنخواہ سے کٹوتی ہوتی ہے۔ پمپس کے شیڈمیں پنکے ہوتے ہیں اور نہ
ہی سردی وگرمی سے بچاؤ کا کوئی اور نظام، اس طرح کام کے دوران ورکرز مکمل
طورپر موسم کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں، گرمیوں میں لو اور گرم ہوائیں اور
سردیوں کی طویل راتوں میں سرد ہوائیں ان کا مقدر ہوتی ہیں۔
زیادہ تر پٹرول پمپس ڈیلرز کے زیر انتظام ہیں جبکہ ایک محدود تعداد کا
انتظام خود آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس ہے، تاہم دونوں جگہ بندہ مزدور کے
اوقات بہت تلخ ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ کے وکیل اور لیبر قوانین کے ماہر باچا
منان کے مطابق کسی ڈیلر یا کنٹریکٹر کے زیر انتظام چلنے والے پٹرول پمپس
پرکام کرنے والے مزدور بھی قانون کی رو سے اس ڈیلر یا کنٹریکٹر کے ملازم
نہیں بلکہ متعلقہ آئل کمپنی ہی کے ملازم ہیں کیوں کہ ایک ڈیلر جس کو عام
زبان میں پٹرول پمپ کا مالک بھی کہاجاتا ہے کمپنی کیلئے ایک کنٹریکٹر یا
سہولت کار کے طور پر خدمات انجام دیتا ہے اور قانون کی رو سے کوئی کنٹریکٹر
یا سہولت کار آجر نہیں ہوسکتا بلکہ آجر دراصل کمپنی ہی ہے۔اس لئے کمپنی اس
بات کی پابندہے کہ ملازمین کو لیبر قوانین کے مطابق معاوضہ اور دیکر مراعات
کی فراہمی یقینی بنائے۔
اس وقت پاکستان میں 8ہزار کے لگ بھگ پٹرول پمپس ہیں، ان میں سے زیادہ تعداد
پاکستان اسٹیٹ آئل ( پی ایس او) کے پاس ہے تاہم کمپنی کے اپنے زیر انتظام
چلنے والے پمپس کی تعداد انتہائی کم ہے ، باقی ڈیلرز کے زیر انتظام ہیں،
دیگر کمپنیوں کے زیادہ تر پٹرول پمپس بھی ڈیلرز ہی کے پاس ہیں۔ ایک پٹرول
پمپس پر اگر اوسطاً پانچ فلرز اور کیشئرز کام کرتے ہیں تو اس طرح 8ہزار
پمپس پر کام کرنیو الے محنت کشوں کی تعداد 40ہزار بنتی ہے۔حکومت کی مقرر
کردہ کم ازکم تنخواہ کے مطابق ان محنت کشوں کو ماہانہ 35ہزار روپے تنخواہ
ملنی چاہئے تاہم جیسا کی اوپر بتایا گیا ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ 15ہزار
روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح فی محنت کش 20ہزار روپے ہڑپ کرلئے جاتے
ہیں اور یہ رقم مجموعی طورپر ماہانہ 80کروڑ روپے بنتی ہے جو سرمایہ داروں
کی جیبوں میں چلی جاتی ہے۔
یہ 40ہزار محنت کش گویا 40ہزار خاندان ہیں جن کے افراد کی تعداد لاکھوں میں
ہوگی، ان کو ان کا حق دیکر لاکھوں افراد کی زندگی میں بہتری اورخوشحالی
لائی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹرول پمپس کا کاروبار انتہائی
منافع بخش کاروبار ہے، آئل کمپنیوں یا ڈیلرز کیلئے یہ مشکل نہیں کہ اپنے
ملازمین کو لیبر قوانین کے مطابق تنخواہیں ، مراعات اور سہولتیں فراہم کریں،
تاہم زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس اور قوانین کے موثر نفاذ میں
حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ سرمایہ دار محنت کشوں کا بہیمانہ استحصال
کررہے ہیں۔
ملک کے دیگر شعبوں خصوصاً نجی اداروں میں بھی ملازمین کے استحصال کی یہی
صورتحال ہے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں
مکمل طورپر ناکام ہے۔ ٹریڈ یونینزبھی اب اتنی طاقتور نہیں کہ کوئی موثر کر
دار اداکرسکے۔ استحصال کرنے والے بلاخوف وخطر اپنے کام میں مصروف ہیں۔ اب
تواس نظام کیخلاف آوازیں بھی اٹھنا بند ہوگئی ہیں، ہر طرف مایوسی ہی مایوسی
ہے،امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی۔ ۔۔ بس انقلاب کی دہائی ہے۔ |