کتاب اﷲ کا قانونی نظام - شریعت اسلامیہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

1۔مقدمہ
قانون سے مراد ضابطہ اور نظام ہے۔یہ سنت الہیہ ہے کہ اس کائنات ایک ایک ذرہ کسی ضابطہ اور نظام کا پابند ہے اور ایک قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے۔سورج ،چاند ستارے اور زمین سمیت کل اجسام سماوی ایک طے شدہ اندازے کے مطابق اپنے اپنے فاصلے طے کرتے چلے جارہے ہیں،سمندروں سے ابلنے والا پانی ایک ضابطے کے مطابق بادل بن کر برستا ہے اور ایک نظام کے تحت بارش سے دریا اور ندی نالوں سے ہوتا فصلوں کو سیراب کرتاچلاجاتاہے یاپھرمتنوع استعمالات سے بچتابچاتا باردیگرسمندرمیں آن گرتاہے۔چرند،پرند،شجر،حجر،جمادات و نباتات،حشرات الارض اور جانداروبے جان مخلوقات سمیت مظاہرقدرت کے کل اجزاایک قانون کے تحت ،ایک ضابطے میں جکڑے ہوئے اور ایک نظام کاحصہ بن کرکارخانہ قدرت میں موجود و متحرک ہیں۔حضرت انسان بھی اسی نظام اور قانون کا حصہ ہے اور چاہتے و نہ چاہتے ہوئے بھی اسی نظام کے تحت عرصہ حیات گزارنے پر مجبور محض ہے۔انسان چاہے بھی تو اپنے معدے سے سوچنے کاکام نہیں لے سکتا،اپنی آنکھ سے سننے کی صلاحیت کاحصول انسان کے بس سے باہر ہے اورچاہے بھی تو پاؤں اور ہاتھوں کی انگلیوں سے جگراور گردے کے کارمخوصہ اسکی بساط سے کہیں باہراور ناممکنات عالم میں سے ہیں۔تاہم ایک بہت ہی قلیل ومحدوداندازے میں اسے بااختیار بناکر آزادی عمل مرحمت کی گئی ہے کہ چاہے توانسانی قانون کے مطابق زندگی گزارے اورچاہے تو الہامی قانون کے مطابق اس آسمان کے نیچے اور زمین کے سینے پراپنی مہلت عمل تمام کر چکے۔

انسانی قوانین کے مصادرحواس خمسہ سے حاصل ہونے والی عقل،علم اور تجربہ ہیں۔حواس خمسہ بجائے خود انسان کی طرح کمزور اور ناقص ہیں،جبکہ حواس انسانی کو کائنات کے مشاہدے اور انسان خود کے مطالعے کے لیے آلات کامحتاج ہونا پڑتاہے تب بھی ان حواس سے حاصل ہونے والی معلومات قابل تجزیہ وتنقیدہوتی ہیں اور بے پناہ ظن و تخمین وقیاسات کے بعد بھی حاصل شدہ نتائج ایک محدود مدت کے بعد بعض اوقات ناقابل اعتماد ثابت ہو جاتے ہیں،اورپھریہ سب معاملات تومادی زندگی میں ہی مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں جبکہ حواس خمسہ اور ان کے ممدآلات آج تک کوئی ایسا پیمانہ تراش ہی نہیں سکے جس میںسے کسی انسان کے احساسات و جذبات اور غمی وآلام اور خوشی و سرفروشی کاوزن کیاجاسکے کہ یہ توانسان کی بساط سے ہی باہر رکھے گئے ہیں۔پھران سب پر مستزاد یہ کہ ہرہرانسان کا علم،تجربہ اور عقل اسے دوسرے انسان سے جداکرتے ہیں ،دنیابھر میں کوئی ایسے دوانسان عنقا ہیں جو عقل و فہم و فراست و تجربہ کی بنیاد پر معاملات کلی میں مجرد اتفاق کے حامل ہوں۔تب یہ کیونکر ممکن ہے کہ انسانی ساختہ قوانین بین الانسانی معیارات پر پورے اتریںاورقبیلہ بنی آدم میں محبت اخوت،امن و مساوات ،عدل و انصاف اوراتحادویگانگت وباہمی خیرخواہی کے ضامن ہو سکیں۔ماضی و حال شاہد ہیں کہ ہرانسانی قانون میں کسی ایک طبقے ،نسل،زبان یاعلاقے کو مراعات زائدہ سے نوازا گیاہے اور انسانوں پر انسانوں کی حکومت و اقتدارکوروارکھاگیاہے جس کے نتیجے میں ”زمانہ گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ نقصان میں رہاہے“اور بنیادی انسانی اخلاق کابوقت تخلیق قانون ہی گلاگھونٹ دیاجاتارہاہے۔

کتاب اﷲ کے قانون کی بنیاد وحی پر ہے جسے خالق کائنات نے برگزیدہ اور منتخب بندوں پر نازل کیاجنہیں ”انبیاءعلیھم السلام “کی اصطلاح سے یاد کیاجاتاہے۔کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعدادمیں یہ نفوس قدسیہ اس دنیائے انسانی میں وارد ہوئے جن کے شباب کی سپیدی سورج کی روشنی کو شرماتی ہے اور جن کی کردار کی روشنی چاندکی چمک پر سوا ہے اور جن کے اجلے کردارسے تھنوں سے نکلتا ہوا بے داغ دودھ مستعار ہے۔امانت و دیانت و صداقت وشرافت جیسے اعلیٰ ترین شعائراس گروہ انسانی پر ختم ہیں ۔عقل انگشت بدنداں ہے کہ قرنوں کابعد، صدیوں کا فاصلہ اور براعظموں کی دوریوں کے باوجود تمام انبیاءعلیھم السلام نے جو تعلیمات پیش کی ہیں وہ ایک ہی سوتے سے پھوٹنے والے چشمے کی مانند ہیں۔عقل کی یہی بے خودی ومعذری حقانیت تعلیمات الہیہ پر بہت بڑی دلیل ہے۔

انبیاءعلیھم السلام پر آسمان سے وحی کا نزول ہواکرتاتھاجبکہ حواس خمسہ کے لیے تحمیل وحی ممکن ہی نہیں۔جس طرح علم،عقل و تجربے کے فقدان یاقلت کے باوجود خواب،وجدان یاالہام کے ذریعے بعض حقائق عام انسان تک پہنچادیے جاتے ہیں جبکہ خواب،وجدان اور الہام تینوں کاادراک حواس خمسہ سے بالا تر ہے اسی طرح ان برگزیدہ ہستیوں پربحوش و حواس وحی کے نزول کا عمل دہرایاجاتا تھاجس کا کہ ادراک حواس خمسہ کی قلمرو سے بہت باہر ہے پس انسانی عقل اس بات کا احاطہ نہیں کر سکتی کہ وحی کا نزول کیونکر تکمیل پزیر ہوا،چنانچہ کتاب اﷲ تعالیٰٰ نے اپنے ابتدا میں ہی یہ شرط رکھ چھوڑی ہے کہ ”یومنون بالغیب“۔وحی کے معیارات عقل کے پیمانوں سے بہت بلند وبرتر ہیں،ممکن ہے عقل ارتقاءکے سفر کے بعد وہاں تک پہنچ پائے اورفی زمانہ کافی حد تک پہنچ بھی پائی ہے لیکن عقل ٹھوکریں کھاتی رہی ہے،کھارہی ہے اور کھاتی رہے گی جبکہ وحی ایک اٹل اور لاریب حقیقت ہے جس کی ابدیت کی انتہاانسانی عقل کی گرفت سے ماورا ہے۔وحی کانزول سات طریقوں سے ہواکرتاتھا:

1۔براہ راست گفتگو: جیسے اﷲ تعالیٰٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کوبراہ راست تعلیم دی اور معراج کے موقع پر محسن انسانیت ﷺ سے براہ راست بغیر کسی واسطے یا ذریعے کے بات چیت کی
2۔پو پردہ گفتگو:جیسے اﷲ تعالیٰٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور پر گفتگوفرمائی جبکہ حضرت موسی علیہ السلام درخت سے اﷲ کی صرف آواز ہی سن سکتے تھے۔
3۔فرشتہ کے ذریعے:جملہ انبیاءعلیھم السلام تک یہ وسیلہ اختیارکیاگیااور ایک مخصوص فرشتہ جس کا نام ”جبریل علیہ السلام“ہے وہ صرف اسی کام پر مامور تھا کہ اﷲ تعالیٰٰ کاپیغام بذریعہ وحی انبیاءعلیھم السلام تک پہنچائے۔
4۔خواب:انبیاءعلیھم السلام کے خواب نہ صرف یہ کہ سچے ہوتے تھے بلکہ وحی الہی ہونے کے باعث ا ﷲ تعالیٰٰ کی طرف سے حکم کادرجہ رکھتے تھے جن کو کہ پورا کرنا انبیاءعلیھم السلام کے لیے ضروری تھا۔
5۔فرشتہ انسانی شکل میں:حضرت ابراہیم علیہ السلام اورحضرت لوط علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے اسی طرح کبھی کبھی جبریل علیہ السلام بھی محسن انسانیت ﷺ کے پاس انسانی شکل میں حاضر ہوتے تھے اوروحی کا پیغام لاتے۔
6۔گھنٹی کی آواز:اس طرح کی وحی کو سلسلة الجرس کہتے ہیں،آپ ﷺ فرماتے تھے کہ مجھے گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور میں سمجھ جاتا ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔
7۔القا:انبیاءعلیھم السلام کے دلوں میں ڈالی گئی بات بھی وحی الہی ہوتی ہے۔

اس طرح سے آفاقی و حقانی قانون آسمان سے زمین پراترااور انسانوں کے لیے مشعل راہ بنا۔علم عقل اور تجربے سے حاصل ہونے والاقانون مخلوق کابنایاہوقانون ہے جو اس نے اپنے ہی جیسی مخلوق کے لیے بنایاہے،جبکہ وحی سے حاصل ہونے والاقانون خالق کا بنایا ہوا قانون ہے جو اس نے اپنی مخلوق کے لیے بنایاہے۔جس طرح خالق اپنی مخلوق کا جانتاہے اس طرح کوئی مخلوق کافرد نہیں جان سکتا ، جس طرح خالق اپنی مخلوق سے محبت کرتاہے اس طرح کوئی مخلوق کا فردمحبت نہیں کرسکتااور جس طرح خالق اپنی مخلوق کی ضروریات و حاجات کو جانتاہے اس طرح مخلوق کا کوئی فرد قطعاََ بھی نہیں جان سکتاپس خود عقل اس بات پر دال ہے کہ مخلوق کا کوئی قانون خالق کے بنائے ہوئے قانون کے برابرتو کیااس کے عشر عشیرجتنا بھی نہیں ہو سکتا۔

علم ،عقل اورتجربہ بھی بلآخراپنا طویل ترین سفر طے کرنے کے بعد وحی کی گود میں ہی آن گریں گے ،کہ انبیاءعلیھم السلام کا لایا ہوا قانون اس کائنات کے ابدی حقائق کا ترجمان اورانسانیت کی فلاح کا دائمی ضامن ہے۔جس طرح یہ ساری کائنات اپنے بڑے سے بڑے نظاموں سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے ذرات تک خدائی قانون اور قائدے کی پابند ہونے کے باعث امن و آشتی اور توازن و عدیم المثال عمدہ انتظام کا نمونہ ہے اسی طرح انسانی زندگی میں بھی اگرخدائی قانون کی پابندی وارد ہو جائے تو انسانی معاشرتی حیات بھی کل کائنات کی طرح امن و آشتی اور توازن و عمدہ انتظام کا نمونہ بن سکتی ہے ۔اور اگرانسان خدائی قانون سے فرارحاصل کرتارہااورپیٹ اور پیٹ کی نیچے کی خواہش کا بندہ بن کراپنی نسلوں کومحض علم،عقل اور تجربہ کی بھینٹ چڑھاتارہاتواس کاانجام ”ان الانسان لفی خسر “کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

2۔ قرآنی قانون کے ماخذ
جس طرح روشنی کاماخذسقرج ہے،جس طرح پانی کے ماخذدریا،ندی نالے اور سمندر وغیرہ ہیں اور جس طرح خوشبو کے ماخذپھول ہیں اسی طرح دنیاکا ہر قانون اپنے ماخذمتعین کرتاہے ۔جہاں خاندانی یاشخصی نظام ہوتاہے وہاں سربراہ خاندان یاوہ فرد ماخذ قانون ہوتاہے ،جہاں دنیابھرمیں آجکل جمہوریت قائم ہے وہاں اکثریت کی رائے ماخذقانون ہے اور اکثریت کے نمائندے قانون سازی کرتے ہیں۔بعض ممالک میں روایات کی روشنی سے بھی قانون اخذ کیاجاتاہے۔قرآنی قانون کے چار بڑے ماخذہیں اور اس سے کچھ زیادہ ضمنی ماخذبھی ہیں۔

1۔ کتاب اﷲ:
اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر روانہ کیاتو وعدہ فرمایا کہ میری طرف سے تمہیں ہدایت ملتی رہے گی،اس وعدے کی تکمیل میں اﷲ تعالیٰ نے تین سوسے زائد کتب نازل فرمائیں۔یہ سب کی سب کتاب اﷲ تعالیٰ کہلاتی ہیں۔ان میں سے اکثریت کی زبان اس دنیاسے متروک ہو چکی ہے اور جن زبانوں میں وہ کتب نازل ہوئی تھیں انکے بولنے والے قبائل اس دنیاسے نابود ہو چکے ہیں،ان زبانوں کے رسم الخط اب ناقابل فہم ہیں چنانچہ ان کتب میں سے بیشتر تو پتھروں میں دفن ہو چکیںاورکچھ ناموں کی حد تک ہی زندہ ہیں اور اگر کچھ کے متون باقی بھی ہیں تو قدیم زبانوں سے ترجمہ در ترجمہ ہوتے ہوتے اب وہ آسمانی کتب اپنی اصلیت وحقیقت کھو چکی ہیں،کچھ میں انسانی عنصر داخل ہو چکاہے اور کچھ کاتو تاریخی تواتر ہی مجروح ہے اور تاریخ میں متعدد مواقع پر ان کتب کی گمشدگی کے بعد انہیں حافظے کی بنیاد پر کئی بار تحریر کیاگیا۔پس انسان کے ناتواں کندھے ان کتب کی حفاظت کا بوجھ نہ سہارسکے اور ان میں بہت زیادہ تحریف کے مرتکب ہوئے۔ان کتب میں اب توحید کی جگہ شرک در آیا ہے،مساوات انسانی کی جگہ طبقاتی تفوقات نے لی ہے اور آسمان سے جو قوانین اور انکی ذیلی دفعات نازل ہوئی تھیں ان کو تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں نے اپنے انفرادی و اجتماعی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانے کی خاطر اصل سے بدل دیاہے،نتیجة وہ کتب اب اپنی اصلیت کھو چکی ہیں اگر چہ ان کے مطالعے سے اب بھی ان میں ایک الوہی رنگ کو محسوس کیا جاسکتاہے۔

آخر میں اﷲ تعالیٰ نے ایک کتاب”قرآن مجید“نازل فرمائی اور اسکی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیا،کم و بیش ڈیڑھ ہزارسالوں کے بعد کے باوجود اس کتاب کی زبان زندہ ہے ،اس کے اولین نسخے اور رائج الوقت نسخوں میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوا،تاریخ میں اس کتاب کا تواتر بھی کبھی مجروح نہیں ہوا،یہ دنیاکی واحد کتاب ہے جو من و عن حفظ کرلی جاتی ہے اسے وہ لوگ بھی پڑھتے،سنتے اور یادرکھتے ہیں جو اس کی زبان تک سے واقف نہیں ہوتے اوراس کتاب کے نزول سے آج دن تک اسکی تاثیروترویج میں اضافہ ہی ہوتاچلاجارہاہے۔یہ کتاب قرآنی قانون کا سب سے اولین منبہ و ماخذ ہے،اسکے قوانین کو تبدیل نہیں کیاجاسکتا،اسکے احکام اٹل ہیں اور انہیں فرامین خداوندی کا مقام حاصل ہے۔یہ کتاب گزشتہ تمام کتب کی تعلیمات کا تتمہ ہے اور وہ تمام عقائدو تصورات جنہیں حاملین کتب گزشتہ نے گہنا دیاتھا اس کتاب نے انہیں ایک بار پھر نہایت اخلاص و تمیزکے ساتھ انسانوں کے سامنے پیش کردیاہے۔اب تاقیامت اس کتاب میں نازل ہونے والے قوانین کے مطابق افراد سے اقوام اور امم کی قسمت کے فیصلے چکائے جائیں گے اورروز حشر بھی یہی کتاب اتمام حجت کاواحد ذریعہ ووسیلہ ہو گی کیونکہ اس کتاب میں قوانین خداوندی کو تفصیل و تشریح سے بیان کردیاگیاہے اور اس میں اب کسی اضافہ یا کمی کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن مجید کے چند اصول قانون سازی یہ ہیں:

حاکمیت اعلیٰ:
قرّنی قانون کاسب بڑااصول یہ ہے اس دنیاپر حکومت و اقتدارصرف اﷲ تعالیٰ کا ہی حق ہے اور اس نے خلافت کے عنوان سے یہ حق عارضی طور پر انسانوں کو ودیعت کیاہے چنانچہ دنیاوی حکومت و اقتدار کی حیثیت امانت کے علاوہ کچھ نہیں کہ جس کے بارے میں عنداﷲ تعالیٰ جوابدہی کے سخت مرحلے سے گزرناہوگا۔پس جس انسان کو بھی اس زمین کے کسی قطعے پر یاانسانوں کے کسی گروہ پراختیارواقتدارحاصل ہوگاوہ پابند ہے کہ ان پر اﷲ تعالیٰ کی کتاب کاقانون نافذ کرے اور انہیں اپنی ملکیت یاغلام بنانے کی بجائے اﷲ تعالیٰ کی ملکیت اور اسکی عبادت و اطاعت کی طرف مدعوکرے۔

عدم حرج:
عدم حرج سے مرادانسانوں پر سے تنگی اور سختی کو دور کرناہے۔قرآن مجید نے کہا کہ لااکراہ فی الدین کہ دین میں کچھ تنگی نہیں۔فی زمانہ کوئی ریاست غیرشہری کو برداشت نہیں کرتی اور اپنی مملکت سے نکال باہر کرتی ہے لیکن قرآن نے اپنی ریاست میں ان لوگوں کو بھی برداشت کیاہے جو اس کتاب کوماننے کے لیے تیار نہیں ہیں ،اس کی یہی وجہ ہے کہ قرآن کے قانون میں سختی اور تنگی نہیں ہے اور اس میں غیروں کے لیے بھی بہت کشادگی اور وسعت ہے ۔سورہ کہف میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”فمن شاءفلیومن ومن شاءفلیکفر“جو چاہے مسلمان ہو جائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے،کم از کم اس دنیاکی حد تک یہ آزادی ضرور دی گئی ہے تاہم آخرت کاانجام اس موضوع گفتگوسے خارج ہے۔پس قرآن مجید کی قانون سازی کاپہلااصول یہی ہے کہ کسی پر سختی نہ ہواور ہر فرد اپنے نظریے اور اپنی فکر کے مطابق ریاست کی انتظامی حدود وقیودمیں اپنی زندگی گزارسکے۔اس لحاظ سے اکیسویں صدی کی دہلیزپر بھی یہ دنیاکاواحد قانون ہے جو کل انسانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتاہے۔

قلت تکلیف:
قرآن مجید نے جو احکامات دیے ہیں ان میں کم سے کم تکلیف کے اصول کو مدنظر رکھاگیاہے چنانچہ نماز فرض کی لیکن سفر میں کم کر دی،روزہ فرض کیالیکن بیمار و مسافرپراسکی فرضیت موخرکردی،وضو لازم قرار دیالیکن پانی کی عدم دستیابی پرتیمم کی رخصت عنایت کر دی۔عبادات کے ساتھ معاشرتی معاملات میں بھی جہیز،بارات اورغمی خوشی کے دیگرمواقع کو آسان تر کر دیا۔

تد ریج:
قرآن مجید کی قانون سازی میں تدریج کو خاص طور پرپیش نظر رکھاگیاہے،جیسے شراب کوتدریجاََحرام کیا گیا،پردے کے احکامات آہستہ آہستہ نازل ہوئے ،پوری مکی زندگی جہاد کے حکم سے خالی رہی بلآخرمدنی زندگی میں جہاد کے احکامات نازل ہوئے اسی طرح سودیاربا کو عمرمبارک کے آخری ایام میں حرام کیاگیاجب کہ مومنین کے اذہان ان پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔فی زمانہ بھی کوئی اسلامی حکومت رائج الوقت بے شمار خرافات کو بیک جنبش قلم ختم نہ کرپائے گی اور اسے قرآن مجید کی منشائے تدریج کو سامنے رکھ کر قانون سازی کرنی ہو گی۔تاہم اس سلسلے میں دو امور قابل ذکر ہیں ایک تو یہ کہ عقائد میں کوئی تدریج نہیں یعنی کسی نو مسلم کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ نماز بھی پڑھ لے اور کچھ دنوں تک اپنی مورتی کی بھی پوجا کر لے اور دوسراقابل ذکر امر یہ ہے کہ جن چیزوں کوقرآن حرام قرار دے چکاہے ان میں بھی کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی جیسے کسی نومسلم کو اس بات کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ذہن سازی تک یاعادت کے اختتام تک شراب پیتارہے۔تاہم میدان ہائے طب و معاش و معاشرت وسیاست کے بے شمار ایسے پہلوہیں جنہیں آہستہ آہستہ اور بڑی دانش وحکمت کے ساتھ اس طرح پٹڑی پر لانا ہوگا کہ ایمان و عمل میں مطابقت برقراررہے،بصورت دیگر ماضی قریب کی اسلامی ریاست کاتجربہ ہمارے سامنے ہے۔

نسخ:
نسخ سے مراد ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم لے آنا ہے۔ نئے حکم کوناسخ اورپرانے احکامات کو منسوخ کہتے ہیں،مثلاََ حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح ہوتا تھا بعدمیں یہ حکم منسوخ ہوگیا،حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں چور جس کی چوری کرتاتھا پھر اسکی غلامی کرتاتھابعدکی شریعتوں میں یہ حکم منسوخ ہو گیا،بنی اسرائیل پر پانچ نمازیں فرض تھیں،25%زکوة فرض تھی اور مال غنیمت کو نذرآتش کردینے کا حکم تھا ،ہماری شریعت میں یہ تمام احکامات کلی یا جزوی طور پر منسوخ ہو گئے۔شریعت محمدی ﷺمیں بھی پہلے شراب جائز تھی پھر حرام ٹہرگئی وغیرہ۔نسخ کا قانون قیامت تک جاری رہے گا جیسے سفر سے احکامات میں نسخ واقع ہو جاتا ہے اور نماز کی رکعات میں تخفیف کردی جاتی ہے وغیرہ۔یہاں ایک بات پھرقابل توجہ ہے کہ نسخ کاقانون صرف عبادات ومعاملات میں ہے روا ہے جبکہ عقائد میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا۔جو عقیدہ پہلے نبی اور اس کی امت کا تھا وہی عقیدہ کل انبیاءعلیھم السلام نے اپنی اپنی قوام کو پیش کیااور عقائد کا وہی مجموعہ خاتم الانبیاءﷺنے پیش کیا۔

3۔سنت رسول اﷲﷺ:
قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے متعدد بار حکم دیاہے کہ سنت رسول اﷲ ﷺ کو مضبوطی سے تھامو۔جس طرح اﷲ تعالیٰ کی عبادت ممکن ہی نہیں جب تک کہ نبی ﷺکی اطاعت نہ کی جائے اسی طرح قرآن مجید کی قانون سازی ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ سنت رسول اﷲ ﷺ کے طرق اختیار نہ کیے جائیں اطاعت کے لحاظ سے نبی ﷺکی دو حیثیتیں ہیں،ایک ذاتی حیثیت جس میں وہ محمد ﷺبن عبداﷲ العربی ہیں ،اس حیثیت کی اطاعت باعث ثواب واجرتوہے لیکن لازمی نہیں مثلاََ آپ ﷺ اپنامقامی لباس پہنتے تھے مسلمانوں کے لیے ویسا ہی لباس پہنناضروری نہیں،آپ ﷺ اپنے مقامی کھانے تناول فرماتے تھے وہی کھانے امت کے لیے فرض یا واجب یا سنت موکدہ نہیں ٹہرائے گئے وغیرہ۔دوسری حیثیت نبوی حیثیت ہے ،اس حیثیت کے پھر دو حصے ہیں پہلا حصہ خصوصی حیثیت کا ہے جس میں آپ ﷺ کی عدم اطاعت لازم ہے اور جواس حیثیت کی اطاعت کرے گاوہ گنہگار ہوگا،اس حیثیت میں آپ ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی مراعات دی گئی تھیں جو امتی کو حاصل نہیں مثلاََ آپ ﷺ نے چار سے زائد نکاح کیے جس کی کسی امتی کو اجازت نہیں،آپ ﷺ غوروفکر کی خاطر غاروں اور تنہائیوں میں طویل مدت تک جاکر بیٹھے جبکہ امت کواس سے منع کردیاگیاہے وغیرہ جب کہ اس نبوی حیثیت کا دوسرا حصہ قانونی حیثیت کا ہے اور یہ وہ حیثیت ہے جس کا کلمہ پڑھ کر ہر مسلمان نے نبی ﷺ کی اطاعت کا قلاوہ اپنی گردن میں باندھاہے جس کے کہ انکار سے وہ دائرہ اسلام سے مطلقاََ خارج ہو جائے گا،اس حیثیت کوماننے کے لیے لازم ہے کہ نبیﷺ کا ادب و احترام کیاجائے ،ان کے ہر حکم کوبلاچوں و چراقانون مان لیاجائے اور قول و فعل و سکوت نبوی ﷺکو اپنی عقل و خرداور علم و تجربہ اورظن و تخمین و قیاس کے میزان ناقص پر پرکھ کر رد کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

کتاب اﷲ تعالیٰ اور سنت رسول اﷲﷺ کے درمیان قانونی طور پر تین تعلق ہیں:
متوازی قانون سازی:
یہ کتاب اﷲ تعالیٰ اورسنت رسول اﷲ ﷺکا پہلا تعلق ہے جس میں جو کتاب اﷲ تعالیٰ کہتی ہے وہی سنت رسول اﷲﷺ بھی کہتی ہے،جیسے نماز کی فرضیت،والدین کی اطاعت اورجہادکے بنیادی احکامات وغیرہ۔

تشریحی قانون سازی:
یہ کتاب اﷲ تعالیٰ اورسنت رسول اﷲ ﷺکے درمیان دوسراتعلق ہے جس میں کتاب اﷲتعالیٰ ایک حکم دیتی ہے لیکن وضاحت نہیں کرتی جبکہ سنت رسول اﷲ ﷺاس حکم کی وضاحت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔مثلاََ قرآن مجید نے سات سے زائد مرتبہ نماز کاحکم دیالیکن نماز کی رکعات،مندرجات اور دیگر تفصیلات نہیں بتائیں یا بہت ہی اجمالاََ بیان کیں ،کتاب اﷲ تعالیٰ کے اس حکم کو سنت رسول اﷲ ﷺ نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔اسی طرح زکوة اور وراثت کی تفصیلات وغیرہ ہیں۔

تشریعی قانون سازی:
کتاب اﷲ تعالیٰ اور سنت رسول اﷲ ﷺکے اس تیسرے تعلق میں میں سنت رسول اﷲ ﷺ وہاں پر قانون سازی کرتی نظر آتی ہے جہاں کتاب اﷲ خاموشی اختیار کرتی ہیں۔مثلاََ قرآنی قانون میں تین افراد بموجب قتل ہیں،قاتل یاڈاکو،محصن زانی اور مرتد،ان میں سے مرتد کی سزا کے بارے میں کتاب اﷲ خاموش ہے جب کہ سنت رسول اﷲ ﷺ اس بارے میں مکمل قانون سازی فراہم کرتی ہے۔اسی طرح بعض محرمات نکاح کے بارے میں بھی کتاب اﷲ تعالیٰ مطلقاََ خاموش ہے اورسنت رسول اﷲ ﷺ مکمل اور تفصیلی مجموعہ قوانین فراہم کرتی ہے۔

محسن انسانیت ﷺنے کم و بیش تریسٹھ برس کی عمرمبارک پائی،جن میں سے اگرچہ چالیس سال قبل از نبوت کے ہیں لیکن یہ عرصہ بھی اسی طرح ماخذ قانون کی حیثیت رکھتاہے جس طرح بعداز نزول وحی کاعرصہ،جیسے آپ ﷺ نے پچیس برس کی عمر مبارک میں عقد نکاح فرمایاتو اگرچہ یہ عمل نزول وحی سے قبل کا ہے لیکن بحیثیت سنت یہ عمل مستندسنت و واجب الاتباع ہے۔ اسی لیے کہ نبی ہمیشہ سے پیدائشی طور پرہی نبی ہوتاہے اور اسلامی قانون کی اصطلاح میں نبی کو”مطاع“کہاجاتاہے ،یہ لفظ ”مطیع“کا متضاد ہے ،”مطاع“کامطلب ہے جس کی اطاعت کی جائے اور ”مطیع“اطاعت وفرمانبرداری کرنے والے کو کہتے ہیں۔سو ختمی المرتبت نبی علیہ السلام کی حیات طیبہ کاایک ایک لمحہ جسے مشیعت ایزدی نے محفوظ و مامون کر کے ”سراجاََ مینرا“چمکتاہواسورج بنادیاہے ،قرآنی قانون واسلامی شریعت کے ماخذو منبہ کی حیثیت رکھتاہے۔حتیٰ کہ آپ ﷺ نے جس عمل کو دیکھ کر خاموشی اختیار کی اسے بھی قرآنی قانون میں سند کا درجہ حاصل ہے ۔

اسوة حسنہ ﷺ کے دوران قانون سازی کے چند طرق یہ ہیں:
وحی کاانتظار:
آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ ظن و تخمین سے اورقیاس آرائیوں سے رائے نہیں دیاکرتے تھے بلکہ جب کسی بات کاعلم نہ ہوتا تو فرمادیتے تھے کہ وحی کی آمدپر جواب ملے گا۔چنانچہ ایک بار جب ایک یہودی عالم مکہ آیا تو اہل مکہ نے اس سے کہا ہمارے ہاں ایک شخص نے نبوت کادعوی کیا ہے تم آسمانی کتب کے عالم ہو بتاؤ تواس سے کیاپوچھیں ؟؟اس یہودی عالم نے کہاکہ اس سے پوچھو حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیاکیا بیتا تھا۔اس سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے وحی کے انتظار کا عندیہ دیا جس کے نتیجے میں سورہ یوسف یک بارگی نازل ہوئی۔

مشاورت:
آپ چاہتے تو ہر فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکتے تھے اور وہ فیصلہ باالیقین مستندہی ہوتالیکن اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیاتھا ”وامرہم شوری بینھم“چنانچہ متعدد مواقع پر آپ ﷺ نے اپنے مقدس ساتھیوں سے مشورہ کیااور بعض مواقع پر تواپنے رائے کی قربانی دیتے ہوئے اکثریت کی رائے کو قبول فرمایا۔متعدد غزوات کے دوران مشاورت کی امثال مطالعہ کی جا سکتی ہیں۔

اختلاف رائے:
محسن انسانیت ﷺکو اندازہ تھا کہ اس امت میں قانون سازی کے دوران اختلافات کا ظہور ہوگاچنانچہ حیات طیبہ کے دوران ہی اختلاف کا طریقہ سمجھا دیا۔یہاں تک کہ خود سے بھی اختلاف کرنا سکھایاجیسے غزوہ بدر کے موقع ہر ایک جگہ پڑاؤ فرمایاتوایک انصاری سردارصحابی نے عرض کی کہ اس جگہ حکم ربی سے پڑاؤ کیا ہے یا آنجناب ﷺکی اپنے رائے سے؟؟فرمایا اپنی رائے سے،اس پر اس انصاری سردار صحابی نے اس سے بہتر جگہ کی نشاندہی کی جسے رحمة اللعالمینﷺ نے بخوشی قبول فرمالیااور بعد کے نتائج نے ثابت کیا کہ دوسری رائے صائب واقع ہوئی۔غزوہ احزاب کے اختتام پر حکم دیا کہ عصر کی نماز بنی قریظہ کی گڑھی میں پہنچ کراداکرو،اصحاب رسول ﷺ پروانہ وار چل دیے اوردوران سفرجب عصرفوت ہونے لگی توایک گروہ نے راستے میں ہی پڑھ لی کہ منشاءنبوی یہ تھا کہ پہنچ کربروقت اداکرواب تاخیر کے باعث نماز قضا نہیں کی جاسکتی جبکہ دوسرے گروہ نے مغرب تو راستے میں اداکی اور عصر بنی قریظہ پہنچ کر اداکی ۔یہ اختلاف جب خدمت اقدسﷺ میں پیش کیاگیاتو آپ ﷺ نے دونوں گروہوں کے عمل کو قبول فرمالیا۔

مجموعہ کتب احادیث:
امت کے درمیان احادیث کی دس کتب رائج ہیں،صحاح ستہ اور اصول اربعہ جنہیں کتب اربعہ بھی کہاجاتاہے۔یہ کتب قرآنی قانون سازی کے اصول ہائے نبوی کا مجموعہ ہیں جو امت کو تاقیامت راہنمائی فراہم کرتی رہیں گی۔ان کتب کی تدوین ہوئے ہزار سال سے زائد کاعرصہ بیت چکاہے لیکن عمائدین امت میںان کتب کے استناد پراجماع پایا جاتاہے۔ان کتب میں موجود مندرجات کو”وحی غیرمتلو“کی اصطلاح سے یاد کیاجاتاہے کیونکہ نبی علیہ السلام کے بارے میں قرآن نے گواہی دی کہ آپ ﷺ اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے بلکہ جو بھی فرماتے ہیں وہ من جانب اﷲ ہی ہوتاہے۔کم و بیش پانچ لاکھ راویان احادیث نبوی کے حالات زندگی کتب میں موجود ہیں جنہیں فن حدیث کی اصطلاح میں ”اسماءالرجال“کہاجاتاہے اور اب ان تفصیلات کو کمپیوٹر کی ڈیٹا بیس میں ڈال دیاگیاہے ،اسلامی تاریخ کے اتنے بڑے کارنامے سے دوسری دنیاو ¿ں کا دامن کلیة خالی ہے،انہوں نے اپنی بنیادی آسمانی کتب کی حفاظت بھی اس طرح نہیں کی جس طرح امت مسلمہ کے سپوتوں نے فرامین نبویﷺ کی حفاظت کا حق ادا کیا۔

4۔اجماع امت وقیاس شرعی
اجماع امت تیسرابڑامصدر قانون قرآنی ہے۔اگر کتاب اﷲ تعالیٰ اور سنت رسول اﷲﷺ دونوں کسی جگہ سکوت اختیار کریں توامت کے علمائے حق جس طرف راغب ہوں گے اس مسلک کوگویا قرآن و سنت کی حمایت وآشیربادحاصل ہوگی،اس کو اجماع امت کہتے ہیں۔اس کی مثال خود قرآن مجید ہے کہ قرآن مجید اور سنت رسول اﷲ ﷺ نے کہیں بھی قرآن کو جمع کرنے کا حکم نہیں دیاتھا لیکن امت کی سہولت کے لیے اورقرآن مجید کو ضائع ہونے سے بچانے لیے اصحاب رسول ﷺنے جمع وتدوین قرآن کاتاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیااور اس کی ایک قرات پر اجماع فرمایا۔اجماع کا مقام چونکہ قرآن و سنت کے بعد ہے اس لیے قرآن و سنت کے کسی فیصلے کے خلاف اجماع نہیں ہو سکتااورتاریخ اسلامی میں ایسا کبھی ہوا بھی نہیں ہے۔

اجماع میں سب سے پہلا مقام اجماع صحابہ کا ہے جس کی حیثیت قرآن کے برابر ہے ،اس لیے کہ اگر ایک گروہ حضرت ابوبکر صدیق کو خلیفة الرسول بنانے کے اپنے اجماعی فیصلے میں غلطی کر سکتاہے تووہی گروہ قرآن مجید کی جمع و تدوین کے اجماعی فیصلے میں بھی تو غلطی کرسکتاہے؟؟۔چنانچہ اجماع صحابہ کو چیلنج کرنے سے قرآن مجید کااستناد مشکوک ہوتا ہے پس قرآن مجیدکی ”لاریب“حیثیت پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس گروہ کی حیثیت کو مسلم وثابت وثقہ جانا جائے جس کے مقدس ہاتھوں سے بتائیدایزدی جمع و تدوین واجماع قرات کا کارنامہ وقوع پزیر ہوا۔

اجماع امت میں دوسرا درجہ کسی صحابی کے قول پر بعد والوں کا اجماع ہے۔جیسے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے بیس تراویح کا فتوی دیالیکن صحابہ کرام نے اس پر اجماع نہیں کیاتھاجبکہ دو صدیوں بعد کے علمائے امت نے اس پر اجماع کیاجس پر تواتر عمل آج تک رائج ہے۔اجماع امت کاتیسرا درجہ سلف صالحین کااجماع ہے جیسے امت کے اندر کم و بیش بارہ مسالک فقہ رائج رہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پانچ کے عمل پر امت نے اجماع کیا اور باقی رفتہ رفتہ متروک ہو گئے۔اب صدیوں سے ان پانچ مسالک فقہ جعفری،فقہ حنفی،فقہ مالکی،فقہ حنبلی اور فقہ شافعی پر عمل واقع ہورہاہے جس پر کل امت کا اجماع ہے۔اور اجماع کا چوتھااور آخری درجہ وقت کے علماءحق کا اجماع ہے،اسے اجماع سکوتی بھی کہاجاسکتاہے جیسے کوئی ایک عالم اپنی اجتہادی رائے دے اور دوسرے تمام علماءاس کی مخالفت سے ہاتھ کھینچ لیں اور سکوت اختیار کریں،کچھ مدت کے بعداس رائے کوگویااجماع سکوتی کا مقام حاصل ہو جائے گاجیسے ایک صدی قبل تک مرزائیت کے کفر پر اجماع سکوتی تھالیکن قیام پاکستان کے بعد یہ اجماع سکوتی قانون کی شکل اختیار کرگیا۔1924ءمیںخلافت عثمانیہ جب کچھ دنوں کے لیے باردیگر بحال ہوئی تھی توپوری دنیا کے علما نے آنے والے جمعہ میں خلیفہ عثمانی کانام لے کر خطبہ پڑھاتھااور خلافت کی بحالی پر اجماع قولی کیا تھا۔ اسی طرح رائج الوقت سیاسی نظام جمہوریت پر علمائے حق کا اجماع سکوتی واقع ہواہے یعنی اس نظام کے حق میں اگرچہ کوئی دلائل و کتب و تقاریرتو نہیں کی گئیں لیکن جو علماءحق اس نظام کا حصہ بنے دوسروں نے ان کی مخالفت نہیں کی بلکہ خاموش رہ ان کے اس عمل کی حمایت کی۔

4:قیاس یااجتہاد
قیاس یا اجتہاد ان مسائل میں کیا جاتاہے جن میں کتاب اﷲتعالیٰ ،سنت رسول اﷲ ﷺاور اجماع امت خاموش ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس کااجتہاد درست ہوااس کو دو نیکیاں ملیں گی اور جس کا اجتہاد غلط ہوااس کو ایک نیکی ملے گی۔اجماع کے برعکس قیاس کسی ایک شخص کی کاوش کانتیجہ ہوتاہے ،ہاں بعد میں اس سے اختلاف بھی کیاجاسکتاہے اور اتفاق کی صورت میں وہی قیاس اجماع کی شکل اختیار کر لیتاہے۔قیاس کے لیے ضروری ہے کہ ماضی میں کسی حل شدہ مسئلہ کے مطابق نو پیش آمدہ مسئلہ کوحل کیاجائے،اس صورت میں دونوں مسائل کے درمیان کسی مشترکہ وجہ کوجواز بناکر حل شدہ مسئلے کے مطابق نئے مسئلہ کے حل کو پیش کر دیاجاتاہے۔اس کے لیے بنیادی شرط وہی ہے کہ مسئلے کاحل کسی مسلمہ اصول شرعی سے ٹکراتانہ ہو،بصورت دیگر اس حل کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہو گی۔

جب ماضی میں بھی کسی حل شدہ مسئلے کی نظیرمیسر نہ آئے تو پھر کتاب اﷲ تعالیٰ اور سنت رسول اﷲ ﷺ کی روشنی میں عقل سلیم سے کام لیاجاتاہے اور اس عمل کو اجتہاد کانام دیاجاتاہے۔اجتہاداگرچہ آسان کام نہیں ہے لیکن شجر ممنوعہ بھی نہیں ہے۔ایک اجتہاد بہت چھوٹی اورفوری سطح کاہے ،مثلاََنماز کے لیے ایک فرد کوقبلے کے تعین کی ضرورت ہے،اگر کوئی واضع قرینہ موجود نہ ہو تو اسے اجتہادسے کام لینا ہوگاعلماءسے رجوع کرنے کے نتیجے میں نماز کے فوت ہوجانے سے بہتر ہے کہ وہ صحیح یاغلط اجتہاد کرے اور فریضہ کی اادائگی سے سبکدوش ہو،اجتہاد کے صحیح یا غلط دونوں صورتوں میں وہ عنداﷲ ماجور ہوگا۔جبکہ ایک وہ اجتہاد ہے جس کے نتیجے میں اجتماعیت کے مجموعی کردار کی ذمہ داری مجتہد کے کاندھوں پر آن پڑتی ہے،اس صورت میں ہر شخص کی رائے کو قبول نہیں کیاجاسکتااور نہ ہی شریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو اس کامکلف کیاہے،اس قبیل کے اجتہاد کے لیے مجتہد میں کچھ شرائط کاہوناضروری ہے۔

اجتہادکے لیے ضروری شرائط:
۱۔اجتہاد قرآن و سنت کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتا نہ ہو۔
۲۔اجتہاد محض خیالی وعقلی مسائل پر مبنی نہ ہو۔
۳۔اجتہاد کرنے والا درج ذیل علوم کا ماہر ہو
عربی زبان و ادب تفسیر و اصول تفسیر
حدیث و اصول حدیث فقہ و اصول فقہ
ادیان سابقہ تاریخ اسلام و مسلمین
حالات حاضرہ متعلقہ مسئلہ کے بارے میں مروجہ علوم وغیرہ
۴۔اجتہاد کا عمل ذاتی،گروہی،علاقائی ےا مسلکی مفادات سے پاک اور بالاترہو۔
۵۔اجتہاد کرنے والا(مجتہد) تقوی کے اعلیٰ معیار پر فائز ہو۔
۶۔اجتہاد کرنے والا مجتہد ہی ہو۔
۷۔اجتہادصرف شرعی احکامات کے حصول کے لیے ہی کیاجاسکتاہے۔

قرآن و حدیث کے محض تراجم پڑھ کر اوردیگرزبانوں کے چند مروجہ علوم میں دسترس حاصل کرکے اپنے ظن و تخمین و قیاس آرائیوں پر مبنی اجتہادی آراءدیناگویاجہالت کا بین ثبوت دینا ہے،جس طرح بیماریوں کے بارے میں کسی مستبد طبیب کی رائے ہی قبول کی جاتی ہے،جس طرح عدالتی و قانونی معاملات میں کسی سکہ بند ماہر قانون کی رائے سے ہی اتفاق کیاجا تاہے حتی کہ گاڑی سے آنے والی آوازوں کے بارے میں بھی کسی ماہر مستری سے ہی رجوع کیا جاتا ہے تب لازم ہے کہ دین و شریعت کے معاملات میں بھی انہیں کے علوم کے قابل علماءکی رائے ہی لی جائے ۔دورغلامی سے مستعار یہ رویہ آج بھی معاشرے میں موجود ہے کہ علوم شریعہ کے ماہرین کو برے برے القابات سے نواز کرتوبیک جنبش زبان مستردکردیاجاتاہے جس کے نتیجے میں آج تک ہمارامعاشرہ صالح ،مخلص اور دیندارقیادت سے محروم ہے اور وہ لوگ مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط ہیں جنہیں اپنی ناک کے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔

اجتہاد کے باب میں بہت ساکام ہوناابھی باقی ہے ،علامہ محمداقبال ؒنے اپنے خطبات میں بہت سے گوشہ ہائے گم گشتہ سے گرد صاف کی ہے ۔بلاشبہ تین سو سال کی طویل غلامی کے نتیجے میں اجتہاد کے سوتے خشک سے ہو گئے ہیں اورآفاقی وعالمی و بین الانسانی فکرامروزوفرداکی بجائے مسلمان انتہائی نجی و فروعی مباحث میں الجھ کر رہ گیاہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ڈیڑھ ہزارسالہ مروجہ اصول ہائے دین و شریعت کوجڑ سے ہی اکھیڑ دیاجائے اور ان کتب ماضی کے ذخیرے کو دریابرد کرنے کے قابل سمجھ کران سے بے اعتنائی برت لی جائے۔ایک طرف قدامت پرستوں کی نام نہاد سیکولرتہذیب نوی کے پروردہ وہ اذہان ہیں جنہیں اپنے ماضی سے منہ چھپائے نہیں بنتی تو دوسری طرف طرزکہن پراڑے رہنے والے ناقابل فہم رویے ہیں ۔اﷲ کرے کہ امت مسلمہ کو قرون اولی و قرون وسطی جیسی بالغ ذہن و تعلیم یافتہ ایسی قیادت میسر آئے تو تقوی ودینداری کے ساتھ ساتھ اجتہاد کے عنوان سے معاملہ فہمی و بیدار مغزی کاجیتاجاگتا نمونہ ہو۔

5۔ عناصر قانون (بنیادی ڈھانچہ)
کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں مرکزیت و اقتداراعلی صرف اﷲ تعالیٰ کو حاصل ہے۔اس کائنات کااول وآخر حکمران اور مالک الملک وہی ذات الہ ہے جس کاکوئی ساجھی و شریک نہیں۔قانون سازی کے کل اختیارات کا منبہ وذریعہ وہی ذات واحد ہی ہے جس کے قوانین اٹل اور ناقابل ترمیم وناقابل اصلاح و ناقابل تنقید ہیں۔قرآنی قانون کی دوسری اہم اساس ذات نبوی ﷺ ہے جن کے متبرک وسیلہ سے کتاب اﷲ کاقانونی نظام عالم انسانیت کو میسر آیا،اس نظام میں نبی علیہ السلام کی ذات امامت کے منصب بالاپر فائزہے اورعقیدتوں واطاعتوں و فرمانبرداریوں کا کل مجموعہ اسی ایک ذات کی اقتداکے ساتھ مشروط محض ہے۔
کتاب اﷲ کے قانون کی عملی شکل کچھ اس طرح سے امکان پزیر ہو سکتی ہے:

خلافت :
اس الہامی قانون میںبادشاہت،اقتداراور حکومت کے مفہوم کوامانت الہی کے تصورکے ساتھ ”خلافت“کہاجاتاہے۔”خلافت“کے تصورکاخلاصہ خود قرآن نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کردیاہے کہ اقتدارخالصتاََاﷲ تعالیٰ کی عطا ہے جسے چاہے دے دے اور جس سے چاہے چھین لے،روزمحشراس امانت کی جوابدہی اس پر مستزادہے۔انفرادی معاملات میںایک فرد بھی خلیفہ ہے جسے اس کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پراقتدار بخشاگیاہے اورانسانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار بھی خلیفہ ہے خواہ وہ معاملات ایک گھر کے ہوں،خاندان یاقبیلہ کے ہوں یاپھر ریاست و عالمی سیاست کے ہی کیوں نہ ہوں،یہ مفہوم ایک حدیث نبوی ﷺ سے اخذ کردہ ہے جس کے مطابق ”ہر شخص حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔“

خلیفہ کس طرح چناجائے گا؟؟اس کے تین طریقے خلافت راشدہ سے ثابت ہیں،ؑخواص کے انتخاب پر عوام کی تائید،خلیفہ اول کا انتخاب اس طریقے سے ہوا،مشاورت سے نامزدگی،خلیفہ دوم اس طریقے سے اقتدار کے ایوان میں داخل ہوئے اورعمائدین ریاست کی ایک مختصر ترین کمیٹی کی سفارشات کے نتیجے میں جوترجیحات طے ہوئیں ان کے مطابق خلیفہ سوم و چہارم نے اپنی اپنی باری پرزمام اقتدار سنبھالی۔خود خلافت راشدہ کانظام ہی بتاتاہے کہ کوئی طریقہ حرف آخر نہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ اجتہاد کی تازہ ہوا انتخاب دان میں درس تازگی کی تجدید کرتی رہے گی۔فی زمانہ جمہوریت کو علماءکااجماع سکوتی حاصل ہے۔ایران کے اسلامی انقلاب کے بعدوہاں کی مذہبی قیادت نے چند اصلاحات کے ساتھ اس نظام کو قبول کر سند اعتماد عطا کی ہے تاہم چند مزید ترمیمات سے یہ نظام کتاب اﷲ کے قانونی نظام سے قریب تر ہو سکتاہے۔

1۔رائے دہندہ کی عمر چالیس سال کردی جائے کیونکہ بعثت نبوی سے قبل مکہ کی دارالندوہ میں یہی واحد معیار رکنیت تھا۔چالیس سال کی عمر مبارک میں وحی کے نزول نے اس فیصلہ پر مہر تصدیق ثبت کی اور قرآن مجید کی سورة احقاف کی پندرویں آیت میں اﷲ تعالیٰ نے چالیس سالہ انسان سے یہ توقع کی ہے کہ وہ شکرگزاراور اطاعت گزار بندہ بنے۔عمر کی اس حد سے انتخابات پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات بہت حد تک تخفیف پزیر ہو جائیں گے کیونکہ ایک گھر کے سب ہی رائے دہندگان ایک طرف ہی رائے دیتے ہیںاور اب ان کے ایک نمائندہ کے پاؤں میں سب کا پاؤں داخل ہوجائےگا۔

2۔افراد کی بجائے سیاسی جماعتوں کورائے دی جائے اور قرطاس رائے پر جماعتوں کے نام تحریر ہوں اور ہررائے دہندہ اپنی مرضی کی جماعت کو نشان زد کرے پس جو جماعت جس شرح سے رائے حاصل کرے اتنی شرح سے اسے پارلیمان میں نمائندگی فراہم کر دی جائے،جبکہ سیاسی جماعت اس بات کی پابند رہے کہ اس کی بھیجی ہوئی فہرست نامزدگان میں شامل ہونے والے افرادقومی و دینی شعور کے مالک اورملک و ملت کی راہنمائی کے اہل ہوں۔اس طرح سے جاگیرداری وسرمایاداری نظام کی قباحتوں سے سیاسی نظام پاک ہو سکے گا۔

3۔جو جماعت ملک کے تمام اضلاع سے کم از کم طے کی گئی حدتک رائے دہندگان کی حمائت حاصل نہ کر سکے اسے قومی دھارے سے خارج کر دیاجائے۔اس طرح علاقائی و لسانی امتیازات کے دعوے داروں کی بیخ کنی ہو جائے گی۔

یہ اوراس طرح کے دیگراقدامات جہاںسیاسی نظام کوقرآنی قانون شریعت کے مطابق تر کر سکیں گے وہاں قوم کی سیاسی تربیت کا باعث ہوں گے اور ایک صالح ،نیک اور محب وطن و غم خوار ملت قیادت کی برآمدگی کاباعث بھی ثابت ہوں گے۔

شورائیت(مقننہ):
نظام خلافت راشدہ سے عیاں ہے کہ شوری کاادارہ امیرالمومنین کی خلافت سے زیادہ طاقتور ثابت ہواہے۔انتخابات کے نتیجے میں ابھرنے والے نمائندے اپنے میں سے چنے جانے والے میرکارواں کے وزیرومشیر ہوں گے اور دستورکے مطابق انہیں اختیارہوگا کہ وہ کسی شرعی عذرکی بناپرایک امیرکو برخواست کر کے دوسرے کو اختیارات سونپ سکیں۔علامہ محمد اقبال کے نزدیک اس نوعیت کی پارلیمان کو اجتہاد کے اختیارات بھی حاصل ہو ں گے ،اس رائے سے اختلاف سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گاتاہم یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب اراکین شوری مجتہدکی مذکورہ صفات کے حامل ہوں ۔

عدلیہ:
کتاب اﷲکے قانونی نظام میں عدلیہ کی طاقت کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وقت کا حکمران عدلیہ کے سامنے ذاتی و منصبی دونوں حیثیتوں میںجوابدہ ہے ،قاضی وقت ریاست کا سب سے طاقتورترین فردہے ۔تاریخ اسلام میں قاضی عساکر کانام بھی ملتاہے جو افواج کے ساتھ متحرک رہتاتھااورمیدان جنگ میں اور مفتوحہ علاقوں میں افواج کا بھرپوراحتساب کرتاتھاتاکہ کسی غیرمسلم پر دست ناجائز دراز نہ ہو سکے۔کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں صیغہ قضا کے ذمہ دو اہم امورریاست ہیں ،ایک تو قرآن و سنت کی روشنی میںنزاعات کا فیصلہ جس کا نگران ”قاضی“کہلاتاہے اور دوسرے فوری نوعیت کے معاملات کا فیصلہ اور ان کی نگرانی جس کا ذمہ دار”محتسب“کہلاتاہے۔محتسب عموماََ بازار میں گشت کرتاہے،لین دین کے فیصلے اور ناپ تول کے اوزان و پیمانوں کی نگرانی کرتاہے اور فیصلوں کی فوری نفاذکا ذمہ دار ہوتا ہے جس کے لیے اس کے ساتھ مختصرعساکرکی قوت بھی موجود رہتی ہے۔عدلیہ اس بات کی ذمہ دار ہے کہ حکمرانوں نے عوام کے جائز حقوق تو غصب نہیں کر رکھے۔

مالیہ:
ریاست کے جملہ اخراجات اس محکمے سے پورے کیے جائیں گے،کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں ان تمام مدات کی تفصیل موجود ہے جن میں آمدن جمع ہو گی اور ریاست اس آمدن کو خرچ کر سکے گی۔حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں کم و بیش بائیس مدات ایسی تھیں جن میں ریاست کی آمدن جمع کی جاتی تھی۔کتاب اﷲ کے قانون کے مطابق مالیہ کی آمدن حکمران کے پاس خالصتاََامانت کی حیثیت میںہوگی اور وہ ایک ضابطے کے تحت ہی اسے خرچ کرنے کا پابند ہوگا۔

عساکر اسلامیہ:
کتاب اﷲ کے قانونی نظام میں عساکر اسلامیہ کی دو اہم ذمہ داریاں ہیں،شہروں میں امن و امان کا قیام اور ریاست کی سرحدوں کی حفاظت۔حضرت عمررضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور سے آج تک شہروں میں اپنی ذمہ داریاں اداکرنے والی عساکر کو ”شرطہ“(پولیس)کہاجاتاہے جبکہ بقیہ افواج سرحدوں پر دشمن سے نبردآاما رہتی ہیں اور جب بھی کوئی نیاعلاقہ فتح ہوتواس کے نظم و نسق اورانتظامی و عدالتی فیصلوں کی تنفیذکے لیے شرطہ کو تعینات کیاجاتاہے۔

کتاب اﷲ کے اس قانونی نظام پر چندبہت دقیق امورکے علاوہ کل امت کا صدیوں سے اجماع و اتفاق رہاہے،ائمہ اربعہ ہوں یا ائمہ اثنا عشریہ اسی نظام کی ترویج واشاعت وتنفیذپرمتفق ہیں۔یہی نظام جہاں امت مسلمہ کو متحد و یک جان کرسکتاہے وہاں کل انسانیت کی فلاح کی ضمانت بھی اسی نظام میں ہے۔اس نظام پر عمل کے نتیجے میں جہاں اس دنیا کی تاریکیاں دور ہو سکیں گی اور گھرگھر،قریہ قریہ اور بستی بستی خوشحالی کا دوردورہ ہوگا وہاں دارآخرت میں بھی کامیابی کاتیقن اسی نظام میں ہی پنہاں ہے۔اﷲ کرے وہ دن قریب آ لگیں جب انسان پر انسان کی غلامی کادور ختم ہو اور مخلوق اپنے خالق کے دائرہ عبادت و اطاعت میں آسودگی و راحت کے دیکھ پائے،آمین۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 571907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.