کبھی ڈاک اور ڈاکیا کی بڑی اہمیت ہوتی تھی خاکی وردی میں
ملبوس ڈاکیئے کو دیکھتے ہیں بہت سے دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوجاتی تھی
کوئی خط ہاتھ میں لیتے ہی ہونٹوں سے چوم لیتا تھا تو کوئی آنکھوں کو لگاتا
اور کوئی دل سےـ
ڈاکیا بہت سے ان پڑھ گھرانوں کا رازداں بھی ہوتا تھا، جن خواتین کے شوہر
روٹی روزی کے لئے دوسرے شہروں میں ملازمت کرتے اور وہاں سے خطوط ارسال کرتے
تھے تو ڈاکیا خط پڑھتے ہوئے محبت کی ایسی چاسنی بھی اس خط میں شامل کردیتا
تھا کہ بیوی اپنی تمام محرومیاں بھول کر شوہر کی محبت کے سپنوں میں کھو
جاتی تھی اور ظاہر ہے خط کا جواب بھی ڈاکیئے ہی نے لکھنا ہوتا تھا سو وہاں
بھی وہ الفاظ کا ایسا جادو جگاتا کہ شوہر خط پڑھ کر عش عش کر اٹھتا تھا ـ
اور جن گھرانوں میں کچھ مسائل ہوتے وہاں
"سب راضی خوشی ہے "
لکھ کر گھر سے دور بیٹھوں کو اطمینان دِلا دیتا تھا،
خط کا کونا پھٹا ہونا کسی پیارے کی فوت ہونے کی اطلاع ہوتی تھی جسے دیکھتے
ہی بغیر پڑھے رونا شروع کر دیتے تھے ـ
ڈاک خانے کے باہر ریٹائرڈ ڈاکیے کان پر قلم جمائے بیٹھے ہوتے تھے جو معمولی
معاوضہ پر لوگوں کو خط لکھ کر اور منی آڈر فارم پر کر کے دیتے تھے، لوگ
انہی کو ترجیح دیتے کہ یہ تجربه کار لوگ ہوتے ہیں ـ
آج کے دور میں الیکڑونکس ڈیوائسز، ای میل، ٹیکسٹ میسج، وٹس ایپ جیسی سروسز
نے اب انکی جگہ سنبھال لی
کورئیر کمپنیوں کے اس دور میں سائیکل پر سوار خاکی وردی والے اس ڈاکیے کی
بیشک وہ اہمیت نہیں رہی ....... لیکن آج بھی ڈاک کی اہمیت سے انکار ناممکن
ہے ـ
بتانے والے بتاتے ہیں کہ انگلینڈ میں آج بھی ڈاک کی وہی اہمیت ہے آج بھی
ڈاکیا کاندھے پر بیگ لٹکائے خط تقسیم کرتا ہے ـ |