علامہ اقبالؒ غلامی کے بعد جس عنصر کو خودی کے لیے زہرِ
قاتل سمجھتے ہیں وہ اندھی تقلید ہے۔ان کے یہاں ہمیں ایسے اشعار مل جاتے ہیں
جن میں وہ تقلید کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں۔مثلاً یہ شعر دیکھئے:
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
اور ضربِ کلیم میں کہتے ہیں:
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزمِ شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہء تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
تقلید کے علاوہ نسبت پرستی یعنی حسب و نسب کو وجہ فخر ٹھہرانا اور اسی کو
اپنی فضیلت کا معیار قرار دے لینا، علامہ کے نزدیک خودی کے ضعف کا باعث
ہے۔نسب کا تعلق محض جسم سے ہے اور جسم ایک عارضی شے ہے؛لہٰذا: (اِنَّ اکرَمَ
کُم عِندَ اللَّہِ اَ تقٰکُم
کے مطابق صحیح عزت اور حقیقی شرف وہ ہے جو روحانی رشتے سے حاصل ہو۔یہی وجہ
ہے کہ جب حضرت سلمان فارسیؓ سے ان کے حسب ونسب کے بارے میں پوچھا جاتا تو
وہ جواب دیتے، سلمان ابنِ اسلام۔ علامہ کہتے ہیں:
فارغ از باب و ام وعمام باش
ہمچو سلماں زادہ اسلام باش
اور طلوعِ اسلام میں کہتے ہیں:
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
حسب ونسب کے بعد جس عنصر کو علامہ اقبال ؒ ضعفِ خودی کا سبب تصور کرتے ہیں
وہ ضمیر فروشی ہے۔ ضمیر فروشی کے باعث انسان کا من اپنا رہتا ہے نہ
تن۔علامہ کہتے ہیں:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا،نہ تن
خودی کو استحکام بخشنے والے اور اس کے ضعف کا باعث بننے والے عناصر کی بابت
اظہارِ خیال کرنے کے بعد میں نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ مراحلِ تربیتِ خودی
کا بھی اجمالی سا جائزہ پیش کردیا جائے۔ کیونکہ علامہ اقبال ؒ کے نزدیک
خودی کا یہ مرحلہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے خودی کی تربیت کے تین
مراحل بیان کیے ہیں؛جو یہ ہیں:
۱۔ اطاعت
۲۔ ضبطِ نفس
۳۔ نیابتِ الٰہی
۱۔ اطاعت:اولین مرحلہ اطاعت ہے۔اس مرحلے میں خودی کو اس قانون ِ حیات کی
پابندی کا عادی بنایا جاتا ہے جو خالقِ کائنات نے اپنی مخلوقات کے لیے مقرر
کیاہے۔علامہ اقبال ؒ اسرارورموز میں اس کی بابت یوں گویا ہوتے ہیں:
در اطاعت کوش، اے غفلت شعار
می شود از جبر پید ا اختیار
ناکس از فرماں پذیری کس شود
آتش ار با شد زطغیاں خس شود
ہر کہ تسخیر ِ مہ و پرو یں کند
خویش را زنجیریء آئین کند
شکوہ سنج ِ سختیء آئیں مشو
از حدود مصطفی بیروں مرو
(اے غفلت کوش تو بھی اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری میں کوشاں ہو کیونکہ ضبطِ
ہی سے اختیار پیدا ہوتا ہے۔بے قدرو قیمت انسان بھی اطاعت(شریعت) سے گراں
قدر بن جاتا ہے۔اس کے برعکس آگ بھی سرکشی سے راکھ بن جاتی ہے۔جس کسی نے
چاند،ستاروں کو مسخر کیا، اس نے پہلے اپنے آپ کو کسی آئین کا پابند بنایا۔
قانون کی سختی کی شکایت نہ کر جنابِ رسول پاک ﷺ کی حدود سے باہر نہ جا۔)
دراصل علامہ اقبال ؒ کہتے ہیں کہ شریعت کی پابندی کوبوجھ نہیں سمجھنا چاہیے
اور اللہ اور اس کے رسولِ مقبولﷺ کی اطاعت کرنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کی
اطاعت درحقیقت رب تعالیٰ کی اطاعت ہے۔
|