ملکہ اور بادشاہ کا اقبال سلامت رہے

ملکہ الزیبتھ ماضی میں ہماری ملکہ تھیں ۔
پرنسس کیٹ میڈیلٹن اج سے ہمارے دلوں کی ملکہ ہونگی اور ولیم چارلس ہمارے بادشاہ ۔

ہم انکی غلامی سے آزادی نہیں چاہتے

تاج برطانیہ کے وارث شہزادہ ولیم اور شہزادی کیٹ مڈلٹن پاکستان کے دورے پر تشریف آئے ہوئے تھے ۔
اپنے سابقہ آقا کے بچوں کو دیکھ کر پوری قوم خوشی سے نہال تھی۔

پوری قوم اپنے سب غم بھول کر اس حسین جوڑے کی خاطر مدارات اور آو بھگت میں مصروف رہی۔
ان پر صدقے واری جارہی تھی ۔

صدر علوی سے لیکر عثمان بزدار تک سب ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بیقرار رہے ۔
بزدار تو شہزادی کو راجن پور کی بکری تحفے میں دینے کے خواہشمند تھے مگر گورنر سرور کے سامنے ان کے حلق سے آواز ہی نہ نکل سکی ۔

شہزادی کیٹ کی سادگی ،ان کے رکھ رکھاو اور اور پاکستانی لباس پہننے اوڑھنے کا سلیقہ دیکھ کر ہم نےبھی ایک اہم فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنے ہونہار بچے کے لیے دلہن انگینڈ سے لانی ہے۔
جب یہ صاحب زادے بڑے ہوجائیں گے تو انکو اجازت نامہ دے دیا جائے گا۔

مگر اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے رنگین معاملات کافی سنگین ہوجاتے ہیں ۔
پاکستانی ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاکھوں میں سے ایک کا انتخاب کرتے ہیں ۔جن کو دیکھ کر پھر کچھ اور دیکھنے کی تاب نہیں رہتی ۔
یہ جن غیر ملکی دوشیزاوں سے شادی کرتے ہیں انکی واحد خصوصیت خاتون یونا ہی ہوتی ہے۔
برسبیل تذکرہ ہمارے ایک دوست نے امریکہ میں شادی کر لی ۔
کچھ عرصے بعد دوست اپنی بیگم کو پاکستان اپنے عزیزوں سے ملوانے کیلئے لائے۔
ہم انتہائی اشتیاق اور پرتجسس جذبات لیے اپنی چھوٹی سی CHARADE CAR میں انکو لینے ایر پورٹ پہنچے
ہم کافی excited تھے کہ امریکن دوشیزہ کو live دیکھنے کا موقع ملے گا۔
کافی دیر انتظار کے بعد اپنے دوست کی جھلک دکھائی دی اس کے ساتھ ساتھ ایک مرد مار قسم کی سات فٹ لمبی اور چار فٹ چوڑی خاتون کو دیکھ کر ہم بے یوش ہوتے یوتے بچے۔
ان خاتون نے اپنا تعارف سارجنٹ سارا کہہ کر کروایا اور مصافحہ کیلئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا جوکہ ہم نے بادل ناخواستہ کرلیا مگر دو دن تک ہمارے بازو میں درد رہا اور انکے بڑے بڑے دانت یاد کرکے لرذہ طاری رہا۔۔
اس کے بعد اس دیو ہیکل خاتون کو کس طرح اپنی گاڑی میں فٹ کرکے انکے سسرال ٹک پہنچایا یہ الگ کہانی ہے۔

بہرحال شہزادی کیٹ اور ولیم کی پاکستان میں خوب آو بھگت ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے ان کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا۔
خان صاحب نے اس نوجوان جوڑے کو کامیاب ازواجی زندگی گزارنے کےلئے قیمتی مشورے بالکل مفت دیئے۔

شہزادی کیٹ خان صاحب کی سحر انگیز شخصیت کو دیکھ کر کافی متاثر تھیں مگر ایک سوال انکے ذہن میں گردش کررہا تھا کہ یہ تو ہمارے غلام رہے ہیں پھر یہ اتنی اچھی انگریزی کیسے بول سکتے ہیں ۔
انکو بتایا گیا کہ خان نے انگلینڈ میں کچھ عرصہ کرکٹ کھیلی ہے اور یہ ظاہری رنگ وروپ وہیں کی تربیت کا نتیجہ ہے ورنہ اندر سے تو خان بالکل پاکستانی ہے۔

اسکے علاوہ انکی ایک نمبر بیگم صاحبہ کا تعلق ایک متمول انگریز خاندان گولڈ اسمتھ فیملی سے تھا ۔
خان صاحب کی شخصیت سازی میں انکا اہم کردار ہے۔

ہوا کا رخ دیکھنا انہوں نے اپنی دو نمر بیگم سے سیکھا جو BBC پر موسم کی خبریں سناتی تھیں ۔
تیسری بیگم ان کے ارد گرد سے آسیب اور بھوت پریت بھگانے کا کام سر انجام دے رہی ہیں ۔

دوسری طرف پرنس ولیم شروع میں کچھ جھینپے جھینپے سے دکھائی دیئے ۔انکو خدشہ تھا کہ کہیں کوئی ان سے انکی دادی جان کے متعلق سوال نہ کرلے کہ آپکی دادی queen Elizabeth جب ہندوستان کو آزادی کا پروانہ عطا کررہی تھیں تو انکو مسلمانوں سے ایسی کیا عداوت تھی کہ جاتے جاتے انکے دلوں میں خنجر چبھو گئیں۔
جس سے آج تک لہو ٹپک رہا ہے۔
وہ دل کشمیر ہے۔
کشمیر آج بھی سلگ رہا ہے ۔
زخم آلود ہے ۔ مسلمان اج تک سسک رہے ہیں ۔
ملکہ معظمہ اس وقت اگر تعصب کا شکار نہ ہوتیں تو آج یہ خطہ سرزمین جنت نظیر ہوتا۔

مگر شہزادے کو اپنے ارد گرد منڈلاتے ،خوشامدانہ و عامیانہ انداز میں سلامی دیتے وزرا افسران بالا اور پاکستان کے اعلی طبقے کے لوگوں کے لباس انکے انداز اور طرز گفتار کو دیکھ کرقدرے اطمینان اندازہ ہوا کہ وہ شہزادے کے زہن میں اٹھنے والے خیالات سے یکسر غافل ہیں اور آج بھی انکی ایک نظر کرم کے متمنی ہیں انکی خوشامد اور
چاپلوسی کے وہی انداز ہیں جوکہ انکے باپ دادا کے تھے ۔

وہ ابھی تک غلامی کے خیال کے کھونٹے سے بندھے ہیں حالانکہ ازادی ملے بہتر سال ہوگئے ہیں۔

خوئے غلامی اب تک باقی ہے۔

ذہنی اور فکری لحاظ سے اب تک غلام ہیں۔

برٹش کونسل کی طرف سے بھی ایک پرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔
اس کی مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ مہمانوں کو پارکنگ سے ریسیپشن تک رکشہ میں بٹھا کر لایا گیا۔
رکشہ میں بیٹھنا ہمارے بیشتر وزرا کی طبیعت نازک پر سخت گراں گزرا۔
یہ سواری ان دو نمبر آقاوں کے شایان شان نہ تھی۔

ویسے رکشہ ہماری ثقافت کا حصہ بھی نہیں ہے۔

ماضی میں معزز مہمانوں کو شاندار بگھیوں میں بٹھا کر لایا جاتا تھا جو کہ واقعی قابل دید منظر ہوتا تھا۔

یہ تبدیلی کوئی خوش کن نہ لگی۔شکر کریں کسی دانا کو چبگچی کا خیال نہیں آیا۔

کالے انگریزوں نے تو اپنی اصلیت دکھا دی مگر آفرین ہے
ہے شہزادی کیٹ اور شہزادے ولیم پر جنہوں نے کمال انکساری کا مظاہرہ کیا۔
وہ اپنے قیمتی لباس اور مرتبے کو پس پشت ڈال کر رکشہ میں بیٹھ گئے۔اور رکشے کو شاہی سواری کا اسٹیٹس عطا کردیا۔

بلاشبہ انکے اعلی اخلاق و محاسن اور تعلیم و تربیت انکے یر عمل سےعیاں تھی۔
انکی شان دلربائی نے ہماری قوم کے دل جیت لیئے۔
ہمارے سب غم دور ہوچکے ہیں پانچ دن میں کشمیر جیسے لڑائی جھگڑوں والی باتیں پس پشت چلی گئیں ہیں ۔

ملکہ الزیبتھ ماضی میں ہماری ملکہ تھیں ۔
پرنسس کیٹ میڈیلٹن اج سے ہمارے دلوں کی ملکہ ہونگی اور ولیم چارلس ہمارے بادشاہ ۔

ہم انکی غلامی سے آزادی نہیں چاہتے ۔

دو صدیوں تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنے کے بعد آزاد ہونا کوئی اسان کام نہیں اس کیلئے ہمیں خیال کے کھونٹے سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔

(محمد منورسعید )

 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50221 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.