جب تم جان جاؤ کہ اللہ تعالی تمھارے ساتھ ہے۔۔۔

 جن حالات و واقعات کا ہم سامنا کررہے ہیں اُس کے دباؤ کا اکثر خود بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ میں زیادہ تر ملکی سیاسی حالات کے بجائے بین الاقوامی معاملات کو موضوع بناتا ہوں۔ گو کہ زیادہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ملکی حالات و واقعات کو ترجیح دی جائے اور اس پر اظہاریہ لکھا جائے، کوشش یہی رہتی ہے کہ غیر جانبدار رہوں کیونکہ صحافت ایک مقدس فریضہ ہے، جس کا جواب مجھے کسی انسان کے بجائے اپنے رب کو دینا ہوگا۔ ایسے موضوعات کا انتخاب میرے لئے بڑا کٹھن ہوتا ہے جب وہ خبر بن کر سامنے آتے ہیں، ایک سرجن کی رحم دلی سے زیادہ آپریشن میں ’بے رحم‘ بننا ہی دراصل اس کا فرض ہوتا ہے۔ اسی طرح صحافت میں لاکھ اختلافات ہوں لیکن صحافی کے نزدیک کسی قسم کی فروعی وابستگی اپنے پروفیشنل سے انصاف نہیں۔ایک خبر پر نظر گذری کہ ایک پروفیسر پر جنسی ہراسانی کا جھوٹا الزام لگا، الزام تحقیق کے بعد غلط ثابت ہوا اور اُس نے تعلیمی ادارے سے اپنے بے گناہی کا صداقت نامہ طلب کیا، بار بار تقاضے کے باوجود تعلیمی ادارے نے لیٹر جاری نہیں کیا۔ جس پر دل برداشتہ ہو کر اُس پروفیسر نے ذہنی دباؤ کے سبب خود کشی کرلی۔اس سے قبل معروف گلوکار کا عدالت میں معروف گلوکارہ کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزام میں بے گناہ ثابت ہونے کے بعد پھوٹ پھوٹ کر رو تے دیکھ کر دل کرچی کرچی ہوچکا تھا۔ پھر ایک خبر دیکھی کہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے جانے والے معصوم بچے کو بے دردی کے ساتھ اُس کے چچا نے تشدد کا نشانہ بنایا اور اُس بچے کا باپ اُس تشدد کی ویڈیو بناتا رہا۔ ان کے لئے کوئی الفاظ نہیں ہیں میرے پاس جو ضبط تحریر میں لا سکوں۔ بھارت سے ان گنت ایسی ویڈیو آتی رہتی ہیں جس میں انتہائی بھیانک و سفاکی کے ساتھ نہتے انسان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں بھارتی جارح فوجیوں کی ویڈیو دیکھی جس میں جنونیوں کی طرح وہ جاں بحق کشمیریوں کے جسد خاکی پر خنجر زنی کررہے تھے۔ انسان نما درندوں کی کئی ویڈیوز دیکھنے سے دل دہل جاتا ہے۔ بالخصوص داعش کے ہاتھوں جس طرح انسانوں کو ذبح ہوتے اور زندہ جلائے جانے کی ویڈیوز کو دیکھنے کے بعد پورا وجود ہی سُن ہوجاتا ہوں۔ بم دھماکوں کے بعد آہ و زاریاں، چیخ و پکار کو بیان نہیں کرسکتا لیکن ان ویڈیوز میں اُن کے پیغامات و دہمکیوں کو سننا اور دیکھناپڑتا ہے کہ اس سفاکیت کے کیا مقاصد تھے۔ وگر کبھی اسی ویڈیوز کو ہاتھ بھی نہ لگاؤں۔ لیکن جیسا کہ میں کہا کہ سرجن کی طرح ’بے رحم‘ بننا پڑتا ہے۔ گذشتہ دنوں ٹول پلازے پر ٹرانسپورٹرز و ایف ڈبلیو او،اہلکاروں کے درمیان تنازعے کے بعد فائرنگ میں جاں بحق اور شدید زخمی ہونے والوں کی ویڈیو دیکھی۔ کسی نے مجھے چمن بارڈر کی ایک برس پرانی ویڈیو بھی بھیج دی جس میں ٹرانسپورٹر ز سے زبانی تنازع کے بعد جس طرح مجمع پر فائرنگ ہوئی، میں خون میں لت پت لاشوں میں انسانیت ہی تلاش کرتا رہ گیا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے پرانی ویڈیوز دوبارہ وائرل ہو جاتی ہیں اور کسی تازہ واقعے سے جوڑ کرلاشو ں پر سیاست شروع ہوجاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں وائرل ہونے خبروں پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ جس قسم کا رویہ یہاں استعمال ہونے لگا ہے وہ اس قابل نہیں کہ ایک جملہ بھی لکھا جاسکے۔ روز ایسے کئی ویڈیوز ملتی رہتی ہیں، یمن ہو یا شام، عراق یا ترکی، افغانستان کہ پاکستان۔ شدت پسندی کے خلاف لکھتے لکھتے طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے۔افغانستان میں مسجد میں داعش کے دہشت گرد خود کش د ھماکے کے بعد جانی نقصانات نے شدید روحانی تکلیف دی۔ بہادروں کی سرزمین میں بزدل کہاں سے آگئے کہ رب کی عبادت کرنے والوں پر حملے کرکے خود کو بہادر سمجھتے ہیں۔ یہ اسلام و انسانیت کا درس ہی نہیں تواس کو درست کیسے مانا جا سکتا ہے۔ ایک مثبت خبر کی تلاش میں پچاس منفی خبریں ملتی ہے۔ پھر اس پر سیاست کا وتیرہ، رہی سہی کسر پوری کردیتا ہے۔یہ سیاست تقریباََ ہر ادارے میں موجود ہے۔ کسی ایک کا ذکر بے سود ہے۔ کیونکہ یہ سب سسٹم کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمیں اسی کے تحت چلنا ہے۔ دنتہا پسندی کی ہر شکل کے لئے اپنی گردن خنجر کی نوک پر خود دینی پڑتی ہے۔ جسم کو ایسی سازشوں سے بچنے کے لئے ہر وقت تیار رہناپڑتا ہے جو خود کش دھماکہ آور ایک لمحے میں سب کچھ بارود کے دھماکے میں اڑا سکتا ہے۔ کسی کے لب و لہجے کی زہر افشانیوں سے خود بچانا ہوتا ہے جو شہد میں زہر ملا کردیتے ہیں۔

مجھے ایک قریبی دوست نے ایک مشورہ بھیجا کہ استاد نے طلبا سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس 86،400 روپے ہوں اور کوئی ڈاکو ان میں سے 10 روپے چھین کر بھاگ جائے تو تم کیا کرو گے؟۔کیا تم اُس کے پیچھے بھاگ کر اپنی لوٹی ہوئی 10 روپے کی رقم واپس حاصل کرنے کی کوشش کرو گے؟؟ یا پھر اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،390 روپے کے حفاظت سے لیکر اپنے راستے پر چلتے رہو گے؟۔طلبا نے جواب دیا کہ ہم 10 روپے کی حقیر رقم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے باقی کے پیسوں کو حفاظت سے لیکر اپنے راستے پر چلتے رہیں گے۔استاد نے کہا تمھارا بیان اور مشاہدہ درست نہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ذیادہ تر لوگ اُن 10 روپے کو واپس لینے کے چکر میں ڈاکو کا پیچھا کرتے ہیں اور نتیجے کے طور پر اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،390 روپے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔طلباء نے حیرت سے استاد کو دیکھتے ہوئے پوچھا: سر، یہ ناممکن ہے، ایسا کون کرتا ہے؟۔استاد نے جواب دیا کہ یہ 86،400 اصل میں ہمارے ایک دن کے سیکنڈز ہیں۔کسی 10سیکنڈز کی بات کو لیکر، یا کسی 10 سیکنڈز کی ناراضگی اور غصے کو بنیاد بنا کر ہم باقی کا سارا دن سوچنے میں گزار کر اپنا باقی کا سارا دن برباد کرتے ہیں۔ یہ والے 10 سیکنڈز ہمارے باقی بچے ہوئے 86،390 سیکنڈز کو بھی کھا کر برباد کر دیتے ہیں۔باتوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کوکوئی وقتی اشتعال دلا کر آپ سے آپ کے سارے دن کی طاقت چھین کر لے جایئے۔بھول جائیں اور آگے بڑھیں،اور پھر میرے پاس لکھنے کے لئے ایک جملہ تھا کہ”جب تم جان جاؤ کہ اللہ تعالی تمھارے ساتھ ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ کون تمھارے خلاف ہے۔“
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744161 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.