ایک دوست نے پوچھا کہ کیا موجودہ قیادت کے آنے کے بعد
پنجاب کی یونیورسٹیوں کے انتظامی امور اور سلیکشن کے معیار میں کوئی تبدیلی
آئی ہے۔میرا جواب تھا بہت زیادہ ۔ اتنی زیادہ کہ ہر آدمی محسوس کرتا ہے۔
پچھلی حکومت میں پہلے وزیر اعلیٰ کسی بھی شخص کو وائس چانسلر یا کوئی اہم
پوسٹ پر لگانے کے لئے سب سے پہلے اس کی اپنی جماعت کے ساتھ وفاداری دیکھتے
تھے۔ طریقہ یہ تھا کہ ان کی جماعت کا کوئی پرانا سیاسی ورکر یا کوئی ایم پی
اے،کوئی ایم این اے سفارش کرے اور اس بات کی ضمانت دے کہ سلیکٹ ہونے والا
شخص پارٹی اور اس کے ورکرز کے کام آتا رہے گا۔ پھر بہت سے لوگ ایک ڈمی
سلیکشن بورڈ کے سامنے پیش ہوتے ۔ اس سلیکشن بورڈ کے زیادہ تر ارکان انٹرویو
کے لئے پیش ہونے والے ماہر تعلیم سے تعلیمی ہی نہیں ہر معیار میں بہت پیچھے
ہوتے مگر کمیٹی میں نامزدگی کے بعد وہ خوامخواہ معزز ہو جاتے۔ اساتذہ بڑی
بے دلی سے مجبوری میں پیش ہوتے۔ مگر سب بیکار ۔ حکومت بندہ تو پہلے ہی
منتخب کر چکی ہوتی تھی ۔ یہی اس حکومت کا میرٹ تھا۔ ماشا اﷲاب بہت بڑی
تبدیلی آئی ہے۔ اب میرٹ سائیں اور گھرائیں ہونا ہے۔ آپ اگر ایک مخصوص علاقے
سے تعلق رکھتے ہیں اور اقتدار والے بڑے لوگوں کے گھر کے کسی قریبی قصبے سے
آپ کا تعلق ہے تو سائیں اپنے گھرائیں ہونے کے باعث سب میرٹ آپ کے غلام ۔ آپ
چاہے میرٹ پر ساتویں نمبر پر ہوں سلیکٹ آپ ہی ہونگے۔
پنجاب کے گورنر نے کہا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹیوں سے سیا ست ختم کر دی ہے۔
یہ وہ بات ہے جو پچھلی کئی دہائیوں سے ہر گورنر کرتا رہا ہے اور شاید ہر
آنے والا بھی کرتا رہے گا۔ملکی سیاست کا یہ کمال ہے کہ اس نے یونیورسٹیوں
میں بھی ایک ایسا گروہ تشکیل دے دیا ہے جو خود کو نئے آنے والے حکمرانوں کے
سانچے میں فوری ڈھالنے کا فن جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والے کو یوں
لگتا ہے کہ اب سب کچھ اس کی مرضی کا ہے۔ حکمران خوش ہو جاتے اور ایسے نعرے
لگانے لگتے ہیں کہ اب سب اچھا ہے مگر کچھ نہیں بدلتاسوائے سوچ کے یا افراد
کے۔تمام تر یونیورسٹیوں کی صورت حال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ ذمہ داروں
کو یہ بھی اندازہ نہیں کہ بی ایس کے طلبا کو کس طرح کے نصاب کی ضرورت ہے
اور ایم ایس اور ایم فل کے طلبا کی ضروریات کیا ہیں۔ خصوصاً جو نئے اساتذہ
آرہے ہیں انہیں پڑھانے اور ریسرچ کے مختلف تقاضوں کا بالکل بھی پتہ
نہیں۔اساتذہ کو پروموشن اور گریڈوں کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے۔وہ پڑھانے
میں کچھ دلچسپی نہیں لیتے۔ انہیں پتہ ہے کہ پروموشن کا تعلق اب کاسہ لیسی
اور جی حٰضوری سے ہے یا پھر سائیں اور گھرائیں فارمولے سے مستفید ہوا جا
سکتا ہے۔ اس لئے یونیورسٹی میں نئے اساتذہ کا یہ عالم ہے کہ وہ استاد کم
اور فنکار زیادہ ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی کے چند ریٹائرڈ اساتذہ سے بات ہو رہی تھی۔ ایک نے گلہ کیا
کہ مختلف شعبوں میں ایسے انچارج لگا دئیے گئے ہیں جو وقتی انچارج ہونے کے
سبب شعبے کے معاملات میں کچھ کم دلچسپی لیتے ہیں یا جن کے خلاف پہلے بھی
بہت شکایات رہی ہیں اور آج بھی ان کا طرز عمل ایسا ہے کہ کسی وقت کوئی
سکینڈل جنم لے سکتا ہے مگر لگانے والوں نے ان باتوں کا کبھی سوچا ہی نہیں۔
ہمیشہ سینارٹی کم فٹنس کا اصول کار فرما رہا ہے۔ سینئر کا حق ہے مگر سینئر
کے بارے اگر شکایات ہوں تو دوسرے نمبر والا بہترین چوائس ہے۔ مگر یہاں کوئی
نہیں دیکھتا۔ طلبا عملاً روتے ہیں مگر ان کی بات کوئی سننے کو تیار ہی نہیں
ہوتا۔مگر یہ زبوں حالی ملکی سطح پر ہے کسی مخصوص یونیورسٹی انتظامیہ کا
کوئی قصور نہیں۔وائس چانسلر کی سلیکشن کے طریقہ کار کو دیکھ لیں ۔ دو دو سو
سے زیادہ لوگ اپلائی کرتے ہیں۔ سینئر تریں لوگ چھ چھ دفعہ انٹریو کے
جھمیلوں سے گزرنے کے بعد اس قدر مایوس ہیں کہ انٹریو کے لئے جاتے ہی نہیں۔
امسال بھی ریسرچ کمیٹی نے اپنی ساکھ کے لئے انہیں وٹس اپ، ای میل اور ٹیلی
فون کرکے زبردستی بلایا مگر سلیکشن پھر فرشتوں کی ہوئی۔ سلیکٹ ہونے والے
بہت سے لوگ ایسوسی ایٹ اور کچھ اسسٹنٹ پروفیسر بھی تھے مگر ان کے ہاتھ میں
کاغذ کا پی ایچ ڈی نامی نسخہ اور پشت پر کوئی بااثر آدمی تھا۔جب نئے
پاکستان کے معیار نئے ہیں تو پھر کوئی گلہ تو بنتا ہی نہیں۔ کچھ لوگ کہہ
رہے تھے کہ ریسرچ کمیٹی کے ارکان مجبور ہیں۔ اوپر سے آنے والا حکم ٹالا
نہیں جا سکتا۔ مگر میں مانتا ان کا ضمیر تو قید نہیں ، ان کا احساس تو فوت
نہیں ہوا۔ مرضی سے سلیکشن نہیں کر سکتے تو کمیٹی چھوڑنے میں کون سا امر
مانع ہے۔
حکومت کے ماہرین تعلیم بھی وہی لوگ ہیں جو کئی دہائیوں سے ہر حکومت کی خدمت
اپنا نصب العین جانتے اور کاغذوں کی حد تک تعلیم کو بہت اچھی طرح جانتے ہی
نہیں بلکہ حکمرانوں کے مزاج کو پڑھنے کا فن بھی انہیں آتا ہے۔ ہر آنے والا
ان کی اہلیت اور وفاداری کا معترف ہو جاتا ہے وہ بنیادی ڈھانچہ چھیڑے بغیر
حکمرانوں کی مرضی کی ایسی خوبصورت عمارت کی تصویر بنا دیتے ہیں کہ سیاستدان
جو شعور اور فہم میں درمیانے درجے کے لوگ ہوتے ہیں ان کی باتوں کا شکار
ہوجاتے ہیں۔ کلاس روم ٹیچر، جو حقائق جانتا ہے اور صحیح بتا سکتا ہے، کو
کوئی بھی نہیں پوچھتا۔پرانی پالیسیاں بڑی خوبصورتی سے پالش کرنے کے بعد نئے
حکمرانوں کو تھما دی جاتی ہیں۔حکمران بھی خوش اور پالیسی میکر بھی قائم اور
دائم۔ یہی تسلسل سال ہا سال سے جاری و ساری ہے۔
حکومت نے کچھ سال پہلے بغیر سوچے اور سمجھے یونیورسٹیوں میں بی ایس کی
کلاسز شروع کر دی ہیں۔ بی ایس اور ایم ایس کے مزاج میں زمین آسمان جیسا فرق
ہے۔ بی ایس کے طلبا کو علم سے شناسا ہی نہیں ، مالا مال کرنا ہوتا ہے۔
ریسرچ ان کے لیول پر نہیں ہوتی اور نہ ہی ہونی چائیے۔ آٹھ سیمسٹروں میں بی
ایس کرنے والوں کو ذہنی طور پر ریسرچ کی طرف مائل کرنے کے لئے ابتدائی طور
پر ساتویں اور آٹھویں سیمسٹر میں ریسرچ کا تعارف کرایا جاتا ہے تاکہ جو
طلبا ایم ایس میں داخلہ لیں انہیں ریسرچ سے کچھ واقفیت اور شنا سی پہلے سے
ہو۔ایم ایس اور ایم فل میں علم اور ریسرچ بین بین چلتے ہیں،پی ایچ ڈی
خالصتاً ریسرچ کی ڈگری ہے مگر وہاں بھی جس موضوع پر ریسرچ کرنی ہو ، وہ
پہلے پڑھا اورپڑھایا جاتا ہے۔ ہمارے پالیسی میکروں نے بی ایس کی کلاسیں
یونیورسٹیوں میں شروع کروا تودی ہیں۔ مگرپی ایچ ڈی مافیہ گریڈوں کے لالچ
میں یونیورسٹیوں کے مخلص اور محنتی اساتذہ کو نکال باہر کر چکا ہے۔ اب صرف
ریسرچرہیں جو زیادہ تر پڑھانے کے قابل ہی نہیں ، ان میں زیادہ کی ڈگریاں کٹ
اور پیسٹ کی مرہون منت ہیں۔ یہ پہلے سیمسٹر میں پہلے دن ہی سے نئے آنے
والوں ریسرچ کے چکر میں ڈال دیتے ہیں ان کو دو دن پڑھاتے ہیں، دس دن
پریزنٹیشن پر خرچ کرتے ہیں ۔ کچھ وقت اسائنمنٹ اور کچھ دوسرے اللے تللوں
میں ، پھر امتحان شروع۔ علم کیا حاصل کیا۔یہ کوئی نہیں جانتا۔ بس ریسرچ ہو
رہی ہے۔
میرے خیال میں یونیورسٹیوں میں ایک احتساب کا ادارہ ہونا بڑا ضروری ہے۔ جو
طلبہ کی شکایات پر مثبت رد عمل دے ۔ اس ادارے کے لوگ پولیس سے نہیں اساتذہ
سے لئے جائیں۔ ایسے اساتذہ جو تعلیم اور تعلیمی ماحول سے بخوبی واقف
ہوں۔طلبا اور اساتذہ کے جائز مسائل اور کسی بھی شکایت کی صورت میں وہ اس پر
ہمدردانہ غور کریں ۔ اس کا بہتریں حل نکالیں اور اس پر عملدرآمد کو یقینی
بنائیں ۔ہماری نئی نسل کے مستقبل کے لئے ایسی اصلاحات بہت ضروری ہیں۔ ہمیں
احساس ہونا چائیے کہ ہمارا وجود طلبا کی موجودگی کا مرہون منت ہے ۔ طلبا اس
ملک کا مستقبل ہیں اور اس مستقبل کو سنوارنا ہماری بنیادی ذمہ داری۔ |