ہم انا کو غرور کہتے ہیں جو ایک ایسی بیماری ہے جس میں ہر
انسان مبتلا ہے...مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں آنا زیادہ پائی جاتی ہے
اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے عورت کبھی بھی اپنی آنا کو ختم
نہیں کرتی برقرار رکھتی ہے یہ انا کو سامنے رکھتے ہوئے خیالی دنیا میں جاکر
اپنے ہی سوالات کا جواب خود بناتی رہتی ہے اور خود کو ہی پریشان کرتی رہتی
ہے اور جہاں تک دیکھا جائے اس سے زیادہ بےوقوف عورت نہیں ہوگی جو مرد کے
ساتھ آنا کا مسئلہ بنائے. حالانکہ اس میں مرد کا تا کچھ نہیں جاتا مگر عورت
اپنی عزت، وقار، محبت سب کچھ گنوا دیتی ہے. کبھی بھی آنا کے معاملے میں اس
بات کا انتظار کا انتظار مت کریں کے اگر وہ میرا ہوا تو واپس آئے گا اور جب
وہ نہ آئے تو اس پر بےوفائی کے تانے، گھروالوں نے پڑھایا، تعویذ پلا دیئے
گے جیسے الزامات تھوپ دئے جائیں حالانکہ وہ یہ بات بھول جاتی ہیں کہ مرد
انا کا پیکر ہے اور اس پر آنا جچتی ہے اور جب بات مرد کی انا تک آجائے تو
وہ محبت تک کو اندھے کنویں میں ڈال کر بھول جاتا ہے ..پر عورت مرد کی بے
وفائی کا رونا تو سارے جہاں میں روتی ہے پر اپنی غلطیوں کو کبھی مان کر
ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی. اور مرد کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کر دیتی ہے
ضد کرنا، روٹھ جانا، نخرے دکھانا عورت کو جچتا ہے پر اسی کو انا کا مسئلہ
بناتے ہوئے بار بار روٹھ جانے سے مرد تنگ اجاتا ہے وہ اکتا جاتا ہے اور وہ
تنگ آکر ایک ہی بات کو سوچنا شروع کردیتا ہے کہ اس آفت سے چھٹکارہ کیسے
پایا جائے اور آخر اسکا ایک دن یہی نتیجہ آتا کہ مرد اس سے چھٹکارہ لے لیتا
ہے... یاد رہے یہ حقیت ہے طلاق یا ترک تعلق کے بعد عورت اس سفید کپڑے پر
لگے داغ جیسی ہوتی ہے جو دور سے نمایاں ہوتا ہے مگر مرد اس کالے کپڑے پر
لگے داغ جیسا ہوتا ہے جو روشنی میں قریب سے بھی فرق نہیں پڑتا.. یہ کو
فلسفہ کہانی نصیت نہیں آج کے دور کی تلخ حقیقت ہے....
والسلام..
فیضی ڈار
|