بسم اﷲ الرحمن الرحیم
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب ہندوستان میں تحریک خلافت جب اپنے عروج پر
تھی اور مسلمانوں کے علاوہ ہندو بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے تھے اور یہ
قومی آزادی کی مشترکہ تحریک کا روپ اختیار کرتی جارہی تھی تو انگریز سرکار
نے اِس کا توڑ کرنے کے لئے آریہ سماجی لیڈر شردھانند کو (جو سنگین مقدمات
میں گرفتار ہوکر جیل میں تھا) خصوصی انتظامات کے تحت قبل از وقت رہا کرکے
’’شدھی‘‘ کی تحریک شروع کرنے کی شہ دے دی۔ اپنے گرو سوامی دیانند سرسوتی کی
طرح یہ شخص بھی مسلمانوں کا بدترین دُشمن تھا۔ مسلمانوں کو غیر ملکی قرار
دے کر ہندوستان سے نکالنے کی باتیں کیا کرتا تھا۔ اور جو لوگ صدیوں پہلے
مسلمان ہوگئے تھے ، اُنہیں دوبارہ ہندو دھرم میں شامل کرنے کے لئے کام کرتا
تھا۔ اُس کا یہ مشن ’’شدھی تحریک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
شردھانند نے رہا ہوتے ہی انگریز سرکار کی آشیر باد سے مشرقی یوپی اور
راجھستان کا رُخ کیا اور وہاں کے بہت سے مسلمان خاندانوں کو (جن کی دینی
تربیت نہیں ہوئی تھی) دوبارہ ہندو بنالیا۔ اِس کی خبر ملنے پر پورے
ہندوستان کے مسلمانوں میں اضطراب پھیل گیا۔ اُس کا اگلا ہدف ریاست گوڑ گانو،
پھلت اور الور میں بسنے والے پچاس لاکھ میواتی مسلمانوں (جو پہلے سے بہت سے
ہندوانہ رسوم اپنائے ہوئے تھے، یہاں تک کہ ہندوانہ نام تک بھی رکھ لیتے تھے)
کو ’’شدھی‘‘ کرنا تھا۔(تحریکاتِ حریت)
’’میؤ قوم‘‘ دہلی کے آس پاس الور ، بھرت پور ، گوڑ گانواہ اور دوسرے متصل
علاقوں میں آباد تھی ، اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس کی مجموعی تعداد چھتیس
لاکھ سے کم نہیں تھی، اب سے صدیوں پہلے غالباً حضرت نظام الدین محبوب الٰہی
رحمۃ اﷲ علیہ اور اُن کے خلفاء و متبعین کی کوششوں سے اس قوم میں اسلام
پہنچا تھا ، مگر افسوس کہ بعد کے زمانوں میں مسلمان حکم رانوں اور جاگیر
داروں کی غفلت سے وہاں اسلامی تعلیم اور اسلامی تربیت کا کوئی انتظام نہیں
کیا گیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ حکومت کے مرکز سے اس قدر قریب آباد تھے
ان میں قدیم جاہلیت کی تمام خصوصیات باقی رہیں اور رفتہ رفتہ وہ اسلام سے
اس قدر بعید ہوتے چلے گئے کہ اُن میں بجز اس خیال کے کہ ’’ ہم مسلمان ہیں‘‘
اور کوئی چیز اسلام کی باقی نہ رہی ، ان کے نام تک مسلمانوں کے سے نہ رہے
تھے ، ناہر سنگھ ، بھوپ سنگھ اور ٹوٹرو اور اسی قسم کے ناموں سے وہ موسوم
ہوتے تھے ، ان کے سروں پر چوٹیاں تھیں ، ان کے ہاں مورتیاں پوجی جاتی تھیں
، اپنی حاجات کے لئے وہ انہی دیویوں کی طرف رجوع کرتے تھے جن کی پوجا قدیم
زمانہ میں ان کے اسلاف کیا کرتے تھے ، اسلام سے وہ اس قدر ناواقف تھے کہ
عام دیہاتی باشندوں کو کلمہ طیبہ تک یاد نہ تھا حتیّٰ کہ نماز کی صورت سے
وہ ناآشنا تھے ، کبھی کوئی مسلمان اتفاق سے اُن کے علاقہ میں پہنچ گیا اور
اُس نے نماز پڑھی تو گاؤں کے عورت ، مرد ،بچے سب اُس کے گرد یہ دیکھنے کے
لئے جمع ہوجاتے کہ یہ شخص کیا حرکتیں کر رہا ہے ،اس کے پیٹ میں درد ہے یا
اسے جنون ہوگیا ہے کہ بار بار اُٹھتا ، بیٹھتا اور جھکتا ہے ِ اس کے ساتھ
ہی اُن کے اندر جاہلیت کی تمام وحشیانہ عادات پائی جاتی تھیں ، گندی اور
ناصاف زندگی ،طہارت کے ابتدائی اُصولوں تک سے ناواقف ، عورت اور مرد سب نیم
برہنہ اور شرم و حیا سے عاری ، چوری ، رہزنی ،ڈکیتی اور دوسرے مجرمانہ
افعال کا ارتکاب عام طور پر پھیلا ہوا ، کسی مسافر کا بخیریت اُن کے علاقہ
سے گزرجانا مشکل ، پھر اُن کے قبائل اور بطون میں چھوٹی چھوٹی جاہلانہ
باتوں پر اُسی قسم کی لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں جیسے عرب جاہلیت کے حالات میں
آپ پڑھتے ہیں ، ان کی آبادی مختلف حلقوں میں بٹی ہوئی تھی اور بسا اوقات دو
چند حلقوں میں کسی عورت یا کسی جانور یا کسی اور چیز پر ایسی عداوتیں برپا
ہوجاتی تھیں جن کا سلسلہ مدتوں تک چلتا رہتا تھا ، یوں اِس جفا کش ، بہادر
اور طاقت ور قوم کی ساری پیدائشی قوتیں ضائع ہورہی تھیں اور وہ نہ صرف اپنے
لئے ترقی و فلاح کا کوئی راستہ نہ پاتی تھی بلکہ اپنے ہم سایوں کے لئے بھی
سببِ اضطراب بنی ہوئی تھی ، چنانچہ جن لوگوں کو اس علاقہ کے انتظام کا
تجربہ ہے وہ اعتراف کرتے ہیں کہ انگریزی حکومت اور ’’الور‘‘ اور ’’بھرت پور‘‘
کی ریاستیں وہاں امن قائم کرنے اور بہتر تمدنی حالات پیدا کرنے میں ناکام
رہی تھیں۔(ترجمان القرآن1939ء)
بہرحال شردھانندجب اِس مقصد کے لئے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ میوات پہنچا تو
اُس کے مقابلے کے لئے خواجہ حسن نظامی، نیرنگ البانوی، اور دیگر کئی حضرات
میدان میں آئے۔ اور جمعت علمائے ہند نے بھی اِس مقصد کی خاطر باقاعدہ ایک
شعبۂ تبلیغ قائم کرکے مبلغین بھیجے، تاہم اِس ضمن میں سب سے بڑا اور نمایاں
کام حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا۔ اُنہوں نے بستی
نظام الدین کو اپنا مرکز بناکر ’’دعوت و تبلیغ‘‘ کی محنت کا آغاز کردیا۔
میوات کا علاقہ اِس تحریک کا بڑا مرکز تھا۔ مختلف اسلامی انجمنوں نے مبلغین
ملازم رکھے۔ تحریک کے سرد پڑنے کے بعد اپنا بوریا بستر لپیٹ لی۔ امام الہند
حضرت گنگوہی رحمہ اﷲ کے شاگردِ خاص اور مسترشد کے ذہن میں مستقل بنیادوں پر
تبلیغ کا تصور آیا۔ اُس زمانے کے اکابر اور دردمندانِ ملت سے مشورے ہوتے
رہے۔ پھر اُس کو میوات کی تجربہ گاہ میں عمل کی کسوٹی پر رکھا گیا۔ آخر کار
وہ مسلمانوں کی پستی اور دین سے دُوری کا ایک نسخۂ کیمیا ثابت ہوا۔
چناں چہ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اﷲ کے قلب پر اﷲ تعالیٰ نے
ایک کیفیت کے طور پر داعیہ تبلیغ کو وارد کیااور اُس کو اُن کا حال
بنادیا۔حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اﷲ کے انتقال کے بعد اُن کے
فرزند عظیم یعنی حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اﷲ کے دور میں علم و
عمل، اخلاص و ﷲیت اور اسلام کے سارے اُصولوں کی یہ تحریک وسیع ہوئی، عجم سے
نکل کر عرب گئی، اِس طرح پوری دنیا اِس کی لپیٹ میں آگئی۔ آج چین ،جاپان،
روس، ہنگری، برطانیہ، فرانس، امریکہ، ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے
مختلف شہروں میں کروڑوں اربوں آدمی دین اور اُس کی سربلندی کے لئے متحرک
ہیں۔ لاکھوں آدمی ایمان و یقین اور اخلاص و عمل کی دولت سے اپنے دامن بھر
رہے ہیں ۔ مخالفتیں بھی ہوئیں اور ہوں گی ۔ اپنے پرائے سب ہی اس میں حصہ
لیتے ہیں۔ لیکن اِس سیل بے کراں کے سامنے ان کی مخالفتیں پاش پاش ہوجاتی
ہیں ۔ ایمان و یقین، اخلاص و عمل کا یہ کارواں ٗ رواں دواں ہے۔
پہلی جماعت دہلی سے لاہور تک:
چناں چہ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں سے بے شمار مسلمان
پاکستان منتقل ہوگئے تھے، خصوصاً دہلی اور میوات سے (جو اِس دعوتی کام اور
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی اور حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
رحمہما اﷲ کے معتقدین اور مُحِبِّیْن کے مرکز تھے ) بہت سے پرانے کام کرنے
والے اور ان اکابر سے ذاتی اور دینی تعلق رکھنے والے اپنے وطن عزیز کو
چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے اور ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور
پھریہیں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگئے تھے، اس لئے مولانا محمدیوسف
کاندھلوی رحمہ اﷲ کو سخت فکر اور تشویش لاحق ہوئی کہ جو ہندوستانی باشندے
یہاں سے ہجرت کرکے پاکستان جارہے ہیں اور انہوں نے آئندہ وہیں مستقل قیام
پذیر ہونا ہے تو وہاں ان کے دین کی فکر کون کرے گا اور ان میں دین کے کام
کون اُجاگر کرے گا؟ اس لئے آپ نے تمام احباب کو ایک جگہ جمع کیا اور ان سے
دریافت فرمایا کہ پاکستان میں دعوت و تبلیغ کے کام کو کون اُٹھائے گا؟ تو
سب سے پہلے حاجی صاحبؒ نے اپنے آپؒ کو دین کی اس خدمت کے لئے پیش کیا اور
عرض کیا کہ پاکستان میں دین کی محنت کا کام میں جاکر کروں گا، حالاں کہ اس
وقت حاجی صاحبؒ کا پاکستان میں آنے کا ارادہ بالکل نہیں تھا، اب بھی ان کا
اکثر و بیشتر خاندان وہیں ہندوستان میں آبادہے۔ حاجی صاحبؒ کے بعد پانچ
احباب اور بھی تیار ہوئے اور انہوں نے بھی سر زمین پاکستان پر دعوت و تبلیغ
کی محنت کے لئے اپنے اپنے نام پیش کردیئے۔ مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ
اﷲ نے چھ افراد پر مشتمل اس مختصر سی جماعت کی تشکیل دہلی سے لاہور کردی
اور فرمایا کہ اب پاکستان جاکر دعوت و تبلیغ کے کام کو اُٹھانا آپؒ کے ذمہ
ہے ۔
چناں چہ تقسیم کے فوراً بعد سب سے پہلی پاکستان آنے والی تبلیغی جماعت کی
رودادِ سفر بڑی عبرت ناک ہے۔ اس جماعت کے ایک رکن نے لاہور پہنچ کر حضرت
مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کو اپنے عجیب اور خطرناک سفر کے
تاثرات لکھے تھے، جس کو پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی خدا پر
یقین رکھتے ہوئے اور احکام شرعیہ کا خیال کرتے ہوئے سخت سے سخت حالات کا
مقابلہ کرتا ہے تو خدا اس کی کھلی مدد کرتا ہے۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ جب عقل
و ہوش مندی یہ کہتی تھی کہ جو جہاں ہے وہ وہیں بکا رہے یا پناہ گزینوں کے
کیمپ میں حکومت و طاقت کی حفاظت میں چلا جائے، لیکن تعلق مع اﷲ اور ایمان
باﷲ کہتا تھا کہ مارنے اور جِلانے والی صرف ایک خدا کی طاقت ہے مخلوق سے
ڈرنا کیسااس تبلیغی جماعت نے خدا پر بھروسہ کرکے علیٰ الاعلان یہ سفر کیا
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
تاثرات کا یہ مکتوب ہم کو خطوط کے ایک نادر ذخیرہ سے میسر آگیاہے، اس لئے
ہم اس کو یہاں نقل کرتے ہیں:
از لاہور۔ ۲۴؍اگست ۱۹۴۷ ء
’’محترم المقام مخدومنا جناب مولانا محمد یوسف صاحب!’’سلام مسنون! ہماری
لاہور جانے والی جماعت جوکہ چھ افراد پر مشتمل تھی آپ سے اجازت لے کر جب
اسٹیشن پہنچی تو ہمیں مختلف ذرائع سے یہ پتہ چلا کہ بہ راستہ بھٹنڈا جانا
انتہائی خطرناک ہے۔ ہم نے امیر جماعت سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا تو انہوں
نے ٹکا سا جواب یوں دیا:’’ فاذا عزمت فتوکل علي اﷲ ‘‘ اور یوں کہا کہ: ’’
ہمیں فضاؤں اور ظاہری حالات اور مشاہدہ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہی
حق ہے کہ ہم ایسے میں اپنے آپ کو اﷲ پر چھوڑدیں، اس سے زیادہ اور کون سا
وقت ہوگا جب کہ ہم اﷲ کے دین کے لئے نکلے ہوئے ہیں‘‘ غرضے کہ ہم نے امیر کے
حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے آپ کو اﷲ کے حوالے کیا۔ وضوء کیا
، نمازیں پڑھیں اور تعلیم میں مشغول ہوگئے۔ اب تک تو چند مسافر ہمارے ڈبے
میں ہم سفر رہے، لیکن اس کے بعد سوائے ہمارے اور بھٹنڈا اُترنے والے قلی کے
اور کوئی نہ تھا۔جنید کے اسٹیشن پر جب ہماری گاڑی پہنچی تو فسادی گروہ در
گروہ بلّموں( نیزوں)خنجروں اور چھریوں سے مسلح تھے، آپس میں کانا پھوسی ہم
کو دیکھ کر کر رہے تھے۔ گاڑی کو جب جی چاہتا کھڑا کرلیتے تھے اور جہاں جی
چاہتا تھا چلنے کا حکم دیتے تھے۔ غرضے کہ ریل کا تمام اسٹاف من و عن اُنہیں
میں کا تھا۔ جب موڑ کا اسٹیشن آیا تو ہم نے ایک لاش چادر میں لپٹی ہوئی خون
سے لت پت اور دوسری پندرہ سالہ مسلمان بچے کی لاش تلواروں سے کٹی ہوئی ریل
کی پٹری پر پڑی ہوئی دیکھی۔ فسادی بہ دستور سرگوشیاں کرتے اور ہماری طرف
دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ بھٹنڈا سے آگے جب گیانہ اسٹیشن پر ہم پہنچے تو اُس
وقت تعداد میں فسادی ایک ہزار کے قریب تھے، اُنہوں نے وہاں گاڑی کھڑی کرلی
اور پہلے کچھ دیر مشورہ کیا، بعد میں اُنہوں نے چارگروپ میں تمام فسادیوں
کو اس طرح تقسیم کیا ایک گروہ ڈبہ کے آگے( جن کے پاس تلواریں، بلّم اور
چھبیاں تھیں )کھڑا کیا، اور دوسرا گروہ مسلح ڈبہ کے اندر دو حصوں میں تقسیم
کرکے بھجوادیا۔ ایک حصہ کا کام صرف یہ تھا کہ مال و اسباب، عورتیں اور
بچیاں لوٹ کر لے جائیں ، اور دوسرا گروہ مسلمان مردوں کو باہر نکال کر ڈے
کے آگے کھڑے ہوئے گروہ کے حوالے کرتا جائے جنہیں وہ منٹوں میں کاٹ کر ٹکڑے
ٹکڑے کردیا کرتے تھ۔تیسرا گروہ گاڑی کے دوسرے رُخ پر صرف پستولوں سے مسلح
تھاکہ جو مسلمان اِدھر سے نکل بھاگنے کی کوشش کرے اُسے گولی ماردی جائے۔
اور چوتھا گروہ ساتھ ہی بیلچوں اور زمین کھود اوزار کے ساتھ اس لئے زمین
کھود رہا تھا تاکہ لاشوں کو ساتھ ساتھ جوڑ کر اِن گڑھوں اور خندقوں میں ڈال
دیا جاسکے۔ اب اُنہوں نے قتال کا کام یوں شروع کیا کہ گاڑی کھڑی کرلی اور
گاڑی ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلمان مردوں، عورتوں کو ایک ایک ڈبے سے نکال
نکال کر ڈبے کے آگے والے گروہ کے حوالے کردیا جاتا اور چوتھا گروہ لاشوں کو
گڈھوں اورخندقوں میں دباتا جاتا اور گاڑی کے دوسرے رُخ سے نکلنے والوں کو
گولیوں سے بھونا جارہا تھا۔ ہم نے جب ہیبت ناک منظر دیکھا تو اﷲ میاں سے
دُعائیں مانگنی شروع کیں اور آہستہ سے ریل کے ڈبے کی سیٹوں کے نیچے پڑ رہے
اور بھائی رحمت علی صاحب کو جن کی ڈاڑھی مونچھ نہیں تھیباہر ہی رہنے دیا۔
اتفاق سے ایک ہندو نیم پاگل جیسا جس کے سر پر چوٹی ، جنبیو اور ہندوانہ وضع
قطع بھی صاف دکھ رہی تھی ٗ ہم اسے پہلے ہی اپنالیا تھا اور ایک چودہ سالہ
بچہ جو بھائی رحمت علی کا رشتہ دار تھا اسے بہاول پور جانا تھا وہ بھی
بیٹھا ہوا تھا، ایک اصلی ہندو اور دو نقلی ہندو بن بیٹھے تھے ٗجب قتال کرنے
والے نوبت بہ نوبت ہمارے ڈبے تک پہنچے (ہاں! اس دوران میں ایک اور بات قابل
ذکر یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک لاش فسادی ہمارے ڈبے میں پھینک گئے تھے) قتال
والوں کو رحمت علی نے کہا یہاں تو کوئی مسلمان نہیں ہے پہلے یہاں سے ہوگئے
ہیں، تم بھی اپنی تسلی کرلو! اور یہ لاش ہمارے حوالے اِس لئے کرگئے ہیں کہ
چلتی گاڑی سے ہم اسے پھینک دیں۔ قتا ل کرنے والا گروہ ہمارے ڈبے میں چڑھا،
دیکھا اور کمرہ خالی پاکر ساتھ والے کمرہ پر حملہ کردیا۔ اس طرح یہ تمام
ٹرین میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے دوسرے سرے تک پہنچے۔ ہم نے یہ خیال کیا
کہ چلو ’’رسیدہ بود بلائے ولے بہ خیر گزشت‘‘ لیکن اگلے اسٹیشن پر ہوبہو یہی
انتظام اسی فعل کے ساتھ عمل میں لایا گیا۔ آمکھوں دیکھے اور سننے میں زمین
آسمان کا فرق ہے ٗہم جو دیکھ رہے تھے حیطۂ امکان سے باہر ہے کہ وہ صفحۂ
قرطاس پر اپنے احساسات و کیفیات کے ساتھ رقم کرسکیں ٗاُن کے قتال کا ڈھنگ
اوّلاً جو عرض کیا گیا آکر تک یہی رہا اور اِس دوران میں چھتیس میل کیرقبے
میں گاڑی کو تیرہ مرتبہ کھڑا کیا گیااور نذکورہ طے شدہ طریق قتال سے فسادی
ہولی کھیلتے رہے۔ ہماری طرف سے اُنہیں یقین ہوچکاتھا کہ یہاں کوئی مسلمان
نہیں۔ آخرش ہم پانچ آدمی ٗ سید رسول شاہ، مولوی (حاجی) عبد الوہاب صاحب،
مولوی صدیق صاحب، اکرام صاحب، محمود صاحب ٗ یکے بعد دیگرے آہستہ آہستہ اِس
ڈبے کے بیت الخلاء میں گھس گئے، جہاں ہمیں ساڑھے چار گھنٹے تک محصور رہنا
پڑا ۔ ہمارا اندازہ ہے کہ فسادی اِس ڈبہ میں تیرہ (۱۳) بار آئے، لیکن حق
تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے ہم بال بال بچ گئے، لیکن معصوم بچوں کی
چیخیں، عورتوں کا واویلا اور مردوں کا کراہنا قتال کے وقت کی ایسی چیزیں
ہیں جن کے نقوش زندگی بھر تک ہمارے دل سے نہیں مٹ سکتے۔ اور مقتولین
مسلمانوں کی تعداد کم از کم دوسو(۲۰۰) سے زیادہ ہوگی، جن میں بوڑے، بچے ،
عورتیں شامل ہیں۔ فسادیوں نے اپنی طرف سے کوئی لاش بھی گاڑی میں نہیں
چھوڑی۔ لاہور کے اسٹیشن پر آٹھ لاشیں اُن لوگوں کی ملیں جو گھائل تھے،
جنہوں نے فیروز پور اور لاہور کے درمیان دَم توڑدیا۔ ایک قافلہ جو بیس (۲۰)
یا تیس (۳۰) افراد پر مشتمل تھا اور ان مین سے ایک آدمی جب ہم دُعاء کر رہے
تھے آکر شامل دُعاء ہوا اور تھوڑی دیر بعد اپنے گروہ میں چلا گیا۔ یہ
ابتداء کا واقعہ ہے …… اﷲ تعالیٰ کے راستے پر پڑنے اور نکلنے میں جو برکات
تھے ٗ ہم نے بہ درجۂ اتم اس سفر میں دیکھے اور ہم ہی سے ہر ایک اُس وقت یہی
کہتا تھا کہ اﷲ اس وقت اِن ظالموں سے اگر نجات دے دے تو ساری عمر ہم تبلیغ
کے کاموں میں گزار دیں گے۔ہم محفوظ و مامون طریقے سے اپنی منزلِ مقصود کو
پہنچ گئے، اس لئے یہ خیریت نامہ تحریر کر رہے ہیں۔ ہم آتے ہی اپنے کام میں
لگ گئے ہیں اور ان شاء اﷲ تعالی! زندگی بھر لگے رہیں گے۔اور لوگوں کے اِس
نوع پر پڑنے اورکام یابیٔ کار کے نمایاں طور پر اثرات نظر آرہے ہیں، خصوصی
طور پر دُعاء فرمائیں۔‘‘
مندرجہ بالا مکتوب سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ پورا مشرقی پنجاب مسلمانوں
کے لئے آگ کی بھٹی بن چکا تھا، نہ مال و زر محفوظ، نہ جان و ایمان کی خیر
تھی۔ بغض و عداوت،نفرت، غیظ و غضب کا دور دورہ تھا اور مسلمان کُشی کی وباء
پھیل چکی تھی۔ اُن علاقوں میں جو مسلمان بچے کھچے رہ گئے تھے وہ اتنے سہمے
ہوئے تھے کہ ایک قدم چلنا بھی موت کو دعوت دینے کے مرادف سمجھتے تھے
چال ہے مجھ نیم جاں کی مرغِ بسمل کی تڑپ
ہر قدم پر ہے گماں یاں رہ گیا واں رہ گیا!
مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی تمنا اور آرزو تھی کہ خدا کا
نام لینے والے اسلام کے اِس اُجڑے ہوئے دیار اور ویرانہ میں پھر سے جائیں
اور خدا کا نام بلند کریں اور ان مسلمانوں کو ڈھارس بندھائیں جو دراز
علاقوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان غیر مسلم حضرات کے سامنے صحیح اسلام کی
تصویر پیش کریں جو اُنہوں نے اپنے ہم سایہ مسلمانوں غلط طریقوں اور خلافِ
اسلام اعمال سے غلط سمجھا ہے اور وہ معصوم انسانوں کے پیاسے ہوگئے ہیں۔ اس
لئے کہ ان غیر مسلموں میں کثرت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے لاعلمی اور صرف
بھڑکانے سے فساد کیا ہے۔ لیکن اس پُر آشوب دور میں یہ کام تھا بہت مشکل۔
اوّل تو راستہ ہی نہ تھا۔ دوم وہ داخل ہی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کا راستہ ہم
وار کرنے کے لئے کئی سال چاہیے تھے۔ اس آگ کے الاؤ میں کودنا ہر ایک کے بس
کی بات نہ تھی۔ بڑے سے بڑا اہل عزیمت بھی اس پر عمل کرنا ناممکن سمجھتا
تھا۔‘‘
پاکستان پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ تبلیغ سے وابستہ چند چیدہ چیدہ آدمی
ہیں، جو کراچی، لاہور اور راولپنڈی میں آباد ہیں، اس لئے حاجی صاحبؒ ان
احباب سے ملنے کبھی کراچی، کبھی لاہور اور کبھی راولپنڈی ملاقات کے لئے
جاتے تاکہ یہاں پاکستان میں دعوت و تبلیغ کا کچھ کام شروع ہوجائے۔چنانچہ
احباب نے بار بار آپس میں ملاقاتیں کیں اور باہم اکٹھے ہوئے توپھر سوچنے
لگے کہ ہماری جماعت کا یہاں کوئی مرکز ہونا چاہیے کوئی ٹھکانا ہونا چاہیے
تاکہ ہم خوب دل جمعی اور اطمینانِ خاطر کے ساتھ دین کی محنت کرسکیں۔
چنانچہ مولانامحمد یوسف کاندھلوی رحمہ اﷲ سے اِس بارے میں جب دریافت کیا
گیا تو اُنہوں نے ایک جماعت تشکیل کی ، جس کا امیر میاں جی عبد اﷲ رحمہ اﷲ
کو بنایا اور اُن سے فرمایا کہ تم لوگ ایک چلہ لگاؤ! دس دن مشرق کی جانب،
دس دن مغرب کی جانب، دس دن شمال کی جانب، دس دن جنوب کی جانب۔ اور فرمایا
کہ: ’’ چلے کے بعد ساری جماعت آپس میں مل بیٹھ کر استخارہ کرے اور مشورہ
کرے کہ ہمیں کہاں اپنا مرکز اور ٹھکانا بنانا چاہیے؟ ‘‘چنانچہ جماعت نے
حسبِ ارشاد دس دن مشرق کی جانب، دس دن مغرب کی جانب، دس دن شمال کی جانب
اوردس دن جنوب کی جانب لگائے۔ دورانِ چلہ انہیں ایک میواتی نوجوان ملے، جن
کا نام میاں جی سلیمان رحمہ اﷲ تھا اور وہ قرآنِ مجید کے حافظ تھے۔ میاں جی
عبد اﷲ رحمہ اﷲ نے اُن سے فرمایا کہ ہم دین کا بڑا مرکز بنا رہے ہیں تم بھی
آجاؤ ،ہم تمہیں اپنا امام بنائیں گے۔ تو وہ بھی ساتھ ہوگئے اور وہ بعد میں
1953ء سے لے کر1994ء تک رائے ونڈ مرکز کے امیر رہے ۔
الغرض چلہ لگانے کے بعد تمام احباب ایک جگہ جمع ہوگئے ۔ پہلے سب نے استخارہ
کیا اور اس کے بعد استشارہ کیا اورخوب غور وفکر کی کہ اب ہمیں کہاں بیٹھنا
چاہیے؟ تو مشورہ میں طے ہوا کہ رائے ونڈ میں بیٹھنا چاہیے! چنانچہ رائے ونڈ
ریلوے اسٹیشن سے آگے’’ کوٹ رادھا کشن‘‘ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم سے متصل
ایک مسجد میں انہوں نے اپنا ڈیرہ ڈال دیا اور وہاں قیام پذیر ہوگئے ۔ جماعت
کے امیرمیاں جی عبد اﷲ رحمہ اﷲ رات کو اتنا روتے اور تڑپتے کہ محلے والے
صبح آکر خیریت دریافت کرتے اور پوچھتے کہ رات کو کون بیمار تھا ؟آپؒ کے
ساتھیوں میں رونے کی بڑی آوازیں آرہی تھیں۔ حافظ محمدسلیمان رحمہ اﷲ فرماتے
تھے کہ میاں جی عبد اﷲ رحمہ اﷲ تہجد کے بعد زمین پر ایسے لوٹ پوٹ ہوتے جیسے
چھوٹا بچہ ضد کرتے ہوئے لوٹ پوٹ ہوتا ہے۔ اور آپؒ اﷲ تعالیٰ سے یہ دعاء
مانگتے کہ : ’’ اے اﷲ! ہدایت دے دے! اے اﷲ ہدایت دے دے! اے اﷲ ہدایت دے
دے!‘‘لیکن کچھ عرصہ بعد بستی والوں نے جب جماعت والوں کو مسجد سے نکال دیا
توجماعت والواں نے ریلوے اسٹیشن کے دوسری طرف قبرستان میں ایک چھپر کے
نیچے(جہاں پہلے کوئی ملنگ رہتا تھا) ڈیرے ڈال دیئے اور تقریباًچھ مہینوں تک
وہاں تبلیغ کا کام کرتے رہے ، لیکن پھر بستی والوں نے وہاں سے بھی اُن کو
نکال دیا ، تویہ ایک اور مسجد میں جاکر بیٹھ گئے اور تقریباًچھ مہینوں تک
وہاں تبلیغ کا کام کرتے رہے ، لیکن پھروہاں سے بھی بستی والوں نے نکال دیا
۔ آخر چاروں طرف سے تھک ہار کر پھر یہ لوگ موجودہ رائے ونڈ مرکز والی جگہ
میں آکربیٹھ گئے، جہاں اُس وقت ہندوؤں کا شمشان (مرگھٹ) تھا اور وہاں آکر
ہندو اپنے مردے جلاتے تھے۔تبلیغی جماعت کے پہلے امیر بھائی الحاج محمد شفیع
قریشی صاحب رحمہ اﷲ کے ایک ساتھی دین محمد صاحب تھے (جو قائد اعظم کے بعد
کرنل جرنل بننے والے غلام محمد صاحب کے قریبی رشتہ دار وں میں سے
تھے)اُنہوں نے کرنل جرنل جناب غلام محمدصاحب سے موجودہ پرانے رائے ونڈ مرکز
کا ٹکڑا میاں جی عبد اﷲ رحمہ اﷲ کے نام الاٹ کرایا جسے بعد میں اُنہوں نے
رائے ونڈ مرکز کے نام کرادیا تھا۔
بہرحال1951ء میں یہ تمام پرانے احباب( جو تقریباًپندرہ بیس کے لگ بھگ تھے)
مؤرخہ 15 شعبان کو ایک جگہ جمع ہوئے،دن بھر روزہ رکھا اور شام کو آپس میں
مشورہ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہ رائے ونڈ ریلوے
اسٹیشن کے سامنے اپنا ایک مرکز بنائیں اور یہاں بیٹھ کر دعوت و تبلیغ کا
کام شروع کریں۔ چنانچہ تمام احباب نے مل کر یہاں ایک چھپر بنایا اور اس میں
بیٹھ کر دین کی محنت و فکر میں مشغول ہو گئے ۔9جولائی 1953ء کو پہلا تبلیغی
اجتماع پاکستان میں طے ہوا۔ کھانے پینے کا یہ عالم ہوتا تھا کہ حافظ
محمدسلیمان صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں کبھی روکھی آدھی
روٹی ملتی، کبھی چوتھائی روٹی ملتی اور ہم نمک کے ساتھ کھاتے اور کبھی تین
تین دن تک ملتا ہی کچھ نہ تھا ، تو میاں جی عبد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ
فرماتے کہ لوٹ لو بھوک کے مژے لوٹ لو! رائے ونڈ میں ایک وقت آئے گا جب یہاں
کبھی فقرو فاقہ نہ ہوگا ۔
تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے کچھ میواتی تو پاکستان کے دوسرے
علاقوں میں بسنا شروع ہوگئے تھے لیکن زیادہ ترمیواتیوں نے رائے ونڈ کے
چاروں طرف اپنے ڈیرے ڈال دیئے تھے اور وہیں آباد ہوگئے تھے اب بھی سب سے
زیادہ میواتی رائے ونڈ ہی آباد ہیں، لیکن اُس وقت کسی کا بھی دل پاکستان
میں نہیں لگ رہا تھا۔چنانچہ مؤرخہ 6شعبان المعظم1373 ہجری بمطابق 10
اپریل1954ء بروز ہفتہ کو جب رائے ونڈ کا پہلا اجتماع منعقد ہوا ،اور مولانا
محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اﷲ اسی دن صبح ساڑھے نو بجے دہلی سے روانہ ہوکر دن
کو بارہ بجے لاہور پہنچے اور عصر کی نماز کے بعد رائے ونڈ اجتماع میں تشریف
لے گئے، تومیواتیوں نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ
اﷲ یہاں ہم سب کو واپس ہندوستان لے جانے کے لئے تشریف لارہے ہیں، اِس لئے
مرکز میں بڑا رش ہوگیا،مرکز کے احباب نے مہمانوں کے لئے جو کھانا وغیرہ
تیار کررکھا تھا، میواتی آئے اور وہ سارے کا سارا پکاپکایا کھانادیگوں سمیت
اُٹھاکر لے گئے اور بڑی بدنظمی اور افراتفری ہوئی ۔مولانا محمد یوسف
کاندھلوی رحمہ اﷲ نے عام خطابات کے علاوہ مختلف اوقات میں مجلسی گفتگوئیں
بھی فرمائیں۔ تین دن آپؒ نے رائے ونڈ مرکز میں قیام فرمایا۔
جب اجتماع ختم ہوا تو مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اﷲ نے تمام احباب کو
ایک جمع کیا اور اُن سے فرمایا کہ:’’ دیکھو بھائی !آج کے بعد یہ جگہ تمہاری
جماعت کامرکز ہے، تم نے اسے سرسبز و شاداب بنانا ہے اور اِس جگہ کو دین کی
محنت سے آباد کرنا ہے ، اس لئے تنگی آئے یا وسعت، بھوک آئے یا پیاس ،
بیماری آئے یا موت ٗ تم نے دُنیا کے کسی کام میں نہیں لگنا، بلکہ اسی کمائی
کے کام میں لگنا ہے اور اپنے آپ کو یہاں مٹا دینا ہے ، توجو تیار ہو وہ
اُٹھے اور میرے ہاتھ پرموت کی بیعت کرے ۔ اور پھر فرمایا کہ کوئی کسی کو
ترغیب بھی نہ دے، جس نے کھڑا ہونا ہے اپنی ذمہ داری پر کھڑا ہو ۔‘‘
چنانچہ سب سے پہلے جو شخص کھڑا ہوا اس کا نام(حاجی) عبد الوہاب(صاحب رحمہ
اﷲ) تھا۔ اُس کے بعد حافظ سلیمان رحمہ اﷲ کھڑے ہوئے ۔ اُس کے بعد میاں جی
عبد اﷲ رحمہ اﷲ کھڑے ہوئے۔ اُس کے بعد میاں جی عبد الرحمن رحمہ اﷲ کھڑے
ہوئے۔ اُس کے بعد میاں جی نور محمد رحمہ اﷲ کھڑے ہوئے اوراُس کے بعد میاں
جی محمد اسماعیل رحمہ اﷲ کھڑے ہوئے ۔ جو کھڑا ہوتا مولانا محمدیوسف
کاندھلوی رحمہ اﷲ اُس کو آگے اپنے پاس بلالیتے اور اُس سے یہ اقرار لیتے کہ
لگوں گا ۔
ابھی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمہ اﷲ یہ دہرواکر ایک ایک کو علیحدہ
علیحدہ باہر بٹھا رہے تھے کہ اسی اثناء میں آپ کی نظر میاں جی محراب رحمہ
اﷲ پر پڑگئی ،جو حاجی محمد مشتاق رحمہ اﷲ کو تیار کر رہے تھے تو آپؒ نے
میاں جی محراب رحمہ اﷲ کو انتہائی زُور سے ڈانٹا اور فرمایا کہ : ’’میں نے
پہلے نہیں کہا تھا کہ کوئی کسی کو تیار نہ کرے! ورنہ کل جب بھوک و پیاس آئے
گی تو پھر یہ تمہیں گالیاں دے گا کہ مجھے اس نے پھنسایا تھا! اِس لئے کوئی
کسی کو تیار نہ کرے!‘‘الغرض کل اٹھارہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنیسویں آدمی
بھائی مشتاق صاحب رحمہ اﷲ تھے جو سب سے آخر میں کھڑے ہوئے تھے۔
یہ کل اُنیس آدمی تھے جنہوں نے اس ڈاں والا ڈول کشتی کو بھنور سے نکالا اور
اُسے کھینچ کر ساحل پر لائے۔ ان میں سے جو احباب موت تک یہیں رائے ونڈ مرکز
پڑے رہے وہ چھ تھے: 1حضرت میاں جی نور محمد صاحب رحمہ اﷲ۔2 حضرت میاں جی
محمد اسماعیل صاحب رحمہ اﷲ۔3حضرت حافظ محمدسلیمان صاحب رحمہ اﷲ۔4 حضرت میاں
جی محمد عبد اﷲ صاحب رحمہ اﷲ۔5حضرت حاجی محمد مشتاق صاحب رحمہ اﷲ6حضرت حاجی
عبد الوہاب صاحب رحمہ اﷲ ۔
بلا شبہ دعوت و تبلیغ مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور قرآن و سنت میں
اس کے مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، اسلام شخصی ، علاقائی یا
نسلی دین نہیں ہے بلکہ عالم گیر دین ہے ، جس کی دعوت اور خطاب کا جائزہ
پوری نسلِ انسانی کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری قرار دی
گئی ہے کہ وہ نجات و فلاح کے حوالے سے صرف اپنی ذات کی فکر تک محدود نہ رہے
بلکہ اپنے اِرد گرد کے ماحول اور درجہ بہ درجہ پوری نسلِ انسانی کی فکر کرے
۔‘‘
خاندان کے بعد سوسائٹی اور اِرد گرد کا ماحول ایک مسلمان کی ذمہ داریوں میں
شامل ہوجاتا ہے اور قرآن و سنت میں تمام مسلمانوں کو اِس امر کا ذمہ دار
قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کریں اور منکر سے باز
رکھنے کی کوشش کریں ، جناب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں
فرمایا کہ: ’’جب معاشرے کی یہ کیفیت ہوجائے کہ اس میں گناہوں کا ارتکاب تو
ہورہا ہو مگر رُوک ٹوک کا کوئی سسٹم باقی نہ رہے تو وہ سوسائٹی مجموعی طور
پر عذاب خداوندی کی مستحق ہوجاتی ہے۔‘‘
تبلیغی جماعت کی یہ محنت اسی ماحول کو زندہ کرنے کے لئے ہے اور حضرت مولانا
محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اﷲ نے اسی جذبۂ صادقہ کے ساتھ اِس عمل خیر کا
آغاز کیا تھا جس کا دائرہ پوری دُنیا میں پھیلتا جارہا ہے اور رائے ونڈ کا
یہ عالمی تبلیغی اجتماع اسی جذبۂ صادقہ ومحنت شاقہ اور اس کی وسعت کی
نمائندگی کرتا ہے ۔
دین کی محنت و خدمت ،رواج و ترویج اور اس کی اشاعت و فروغ کے مختلف شعبے
ہیں جس کے وسیع ترین دائرے میں رہتے ہوئے مختلف قسم کے لوگ مختلف قسم کی
محنتیں کر رہے ہیں ۔مساجد و مدارس کا نظام ہے ، دینی جماعتیں ہیں ، روحانی
مراکز اور خانقاہیں ٗہیں ، رفاہِ عامہ کے لئے دینی جذبہ سے کام کرنے والی
سماجی تنظیمیں ہیں ، اپنے اپنے شعبہ رہتے ہوئے میں ان تمام کی خدمات اور جد
و جہد کی ضرورت و اہمیت مسلم ہے ، اِن میں کسی کی افادیت و ضرورت سے انکار
نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب لوگ کام کے مختلف دائروں میں تقسیم ہونے کے
باوجود ایک ہی مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں ، انہی میں سے دین اسلام کی خدمت
کے حوالے سے ایک اہم ترین شعبہ دعوت و تبلیغ کا بھی ہے جو اپنے خلوص و محنت
اور ایثار کے باعث دُنیا بھر میں مسلسل پھلتا پھولتا جارہا ہے ۔
آپ اندازہ لگائیں کہ ِاس وقت برصغیر میں حج کے بعد مسلم دُنیا کاسب سے بڑا
اجتماع ’’تبلیغی جماعت‘‘ کا ہوتا ہے ، لیکن اس کے لئے موجودہ دور کی پبلسٹی
کے رائج ذرائع میں سے ایک بھی اختیار نہیں کیا جاتا ، اشتہارات لگائے جاتے
ہیں نہ ٹی وی چینلوں پر سلائیڈیں چلتی ہے ، بینرز لگائے جاتے ہیں نہ
دیواریں رنگین کی جاتی ہیں ، بلکہ مقدور بھر حدودِ شرعیہ کی رعایت کے ساتھ
، گلی گلی، نگر نگر،محلہ محلہ، قریہ قریہ ایک آواز لگائی جاتی ہے اور حقیقی
معنوں میں مسلمانوں کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوجاتا ہے، جہاں دل کی
دھڑکن و تڑپ اور جگر کے سوز و ساز کے ساتھ بالکل سادہ اُسلوب میں اسلام کی
طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے ، اُس میں نہ کوئی اسٹیج سیکٹری ہوتا ہے اور نہ
کسی کو القابات سے پکارا جاتا ہے ،بلکہ اجتماعی مشورہ سے تشکیل شدہ حضرات
وقت مقررہ پر منبر پر تشریف لاتے ہیں اور عام اور سادہ اُسلوب میں اﷲ اور
اُس کے رسول کی بات کرکے اجتماع میں آنے والے مہمانوں کی اﷲ کے راستے میں
نکلنے کی تشکیل کردیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تبلیغی جماعت کے اس خاموش انقلاب نے آج کروڑوں لوگوں کی
زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا ہے اور لاکھوں بھٹکے ہوئے قافلوں کا رُخ سوئے
حرم پھیرکر وہ عظیم کارنامہ سر انجام دیا جس کی نظیر گزشتہ صدیوں میں نہیں
ملتی۔حاجی عبد الوہاب صاحبؒ سے لے کر مولانا عبد الرحمن صاحب تک اور مولانا
جمشید علی خان صاحب سے لے کر حاجی مشتاق صاحب تک اور مولانا طارق جمیل صاحب
سے لے کر جنید جمشید اور سعید انور تک سب اسی جماعت کے تربیت یافتہ اور
مرہونِ منت ہیں۔ |