اے مسلمان بھائی !! اپنے آپ کو غیبت کے گناہ سے بچا!!
آج ، سب سے بڑی الجھن اور المیہ یہ ہے کہ لوگ جمہوری آزادی سے میڈیا بیانات
، ویڈیوز اور آڈیو کے ذریعہ دوسروں کا نام لے لے کر غیبت کے پہاڑ نما
گناہوں کو اپنے سر لے رہے ہیں جو انکو اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں پتا
لگے گا.
لہذا جب آپ لوگوں سے یہ پوچھیں کہ بھائی آپ کیا کر رہے ہیں آپ تو غیبت کے
سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں تو اپنے آپ کو اس طرح کے گناہوں سے بچائیں ، ان کا
جواب یہ ہے کہ میں لوگوں میں شعور لا رہا ہوں اور میں دوسروں کو بے نقاب
کررہا ہوں (ہاں لیکن قرآن اور سنت کے ثبوت کے بغیر بس اپنی منشا کے مطابق
دوسروں کے اقوال کو توڑ مروڑ کر پھیلانا جھوٹ، بہتان اور غیبت کے درجہ پر
آتا ہے افسوس تو یہ ہے کہ اس کام میں سیاسی افراد، کئ ملکوں کے حکام اور
عام عوام سب ہی پیش پیش ہیں)
سوال: تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ شعور ہے نہ کہ غیبت تو پھر آخر غیبت
کیا ہے؟
آئیے قرآن سے ایک آیت اور اس پر مستند و صحیح حدیث دیکھتے ہیں۔
اللہ تعالی قران میں ارشاد فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ
بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم
بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا
فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
ترجمه: اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں
گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹوﻻ کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔
کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو
اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے واﻻ
مہربان ہے
(سورة الحجرات: 49 آيت: 12)
اللہ تعالٰی ہمیں بتا رہا ہے کہ کسی کی غیبت نہ کرو۔ مطلب دوسرے لوگوں کو
قرآن و سنت کے ثبوت کے بغیر کسی کے اعمال / گناہ کے بارے میں بتانا۔
مزید مستند حدیث اس کی وضاحت کرتی ہے:
" أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ " . قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ
أَعْلَمُ . قَالَ " ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ " . قِيلَ
أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ قَالَ " إِنْ كَانَ فِيهِ
مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ
" .
ترجمه: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جانتے ہو غیبت کیا
ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: ”غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر کرے اس طرح پر کہ
(اگر وہ سامنے ہو تو) اس کو ناگوار ہو۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! اگر
ہمارے بھائی میں وہ عیب موجود ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ہی
تو غیبت ہوئی نہیں تو بہتان اور افترا ہے۔“
(صحيح مسلم، ترقیم فوادعبدالباقی: 2589)
تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی بھائی کے بارے میں اس طرح بات کرنا کہ وہ اس کے
بارے میں بات کرنا پسند نہیں کرے گا اسے غیبت کہا جاتا ہے۔
لہذا اب حکمرانوں، حکومت وقت یا سیاسی لوگوں کے لئے یا عام عوام کے لئے
ایسی بات کرنا جو وہ دوسروں کے سامنے پسند نہ کریں اور اپنی بےعزتی محسوس
کریں ایسے عمل کو یقینی طور پر غیبت کے طور پر ہی سمجھا جائے گا ۔
اللہ تعالی ہمیں غیبت جیسے مرض سے بچائے اور اپنا مدعہ قرآن والسنتہ اور
دليل سے بیان کرنے کی توفیق دے، اللھم آمین
|