ہمارا پیارا شہر کراچی جو کہ ہمیشہ سے روشنیوں کا شہر
کہلاتا تھا اس کی رونق دنیا کو حیران و پریشان کر دیتی تھی مگر پھر اس طرح
زوال پذیر ہوا کہ گزشتہ ایک دہاٸی سے اس کی پہچان گٹر کا گندا پانی اور
کوڑا کرکٹ کا ڈھیر بنتی جا رہی ہے گٹر کا گندہ پانی شہر کی سڑکوں پر ایسے
دندناتا پھرتا ہے گویا زیر ِزمین موجود اپنی ہی پائپ لائنوں کی بندش سے تنگ
آ گیا ہواور بھلا آتا بھی کیوں نہ یہ نظام بھی تو بہت پرانا اور بوسیدہ ہو
گیا ہے جگہ جگہ سے سڑکیں بیٹھ گئی ہیں اور بارش کا پانی اپنے ساتھ شہر بھر
کا کوڑا کرکٹ لیے کھلے گٹروں میں بھر جانے کی وجہ سے اسے مزید ناکارہ بنا
چکا ہے-
اور قارئین کراچی کا گوشہ گوشہ گندگی اور کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے۔لوکل
گورنمنٹ کو بھی اس سلسلے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ اگر ہوتی بھی
ہے تو ایک جگہ سے کچرا اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیا جاتا ہے کچروں کے ڈھیر
میں پیدا ہونے والی مکھیاں اور ان سے خطرناک بیماریاں ایسے حملہ کر رہی ہیں
جیسے ان کا کراچی پر کوئی قرض ہو۔
نکاسی آب کا مٶثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے بارش اور گٹر کا مشترکہ پانی
مچھروں کی افزائش کی وجہ بن رہی ہے جن میں ملیریا ٹائیفائیڈ اور چکن گونیا
جیسی مہلک بیماریاں سرِفہرست ہیں.
نیویارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں ماہرین موسمیات کا اس حوالے سے کہنا ہے”
ایک دو بار بارشیں اور ہوئی تو شہر مکمل طور پر مفلوج ہو جاۓ گا"-
کراچی شہر کو کچرا اٹھانے سے زیادہ ایک انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ جہاں کچرے
کو پراپر طریقے سے ٹھکانے لگایا جاٸے اور ری ساٸیکل کی فیکٹریوں کی بڑھتی
ہوٸی ضرورت کی طرف اربابِ اختیار توجہ دیں تاکہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر
کی یہ بنیادی ضرورت پوری کی جاسکے۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیں ایک یتیم بچے کی طرح یہ شہر آج بھی اپنے مسیحا
کا منتظر ہے-
|