لفظ "معجزہ"کے معنی کسی چیز پر قادر نہ ہونا، کسی کام کی
طاقت نہ رکھنا یا کسی امر سے عاجز أّجانا وغیرہ ہیں۔ عجز کے اصلی معنی کسی
چیز سے پیچھے رہ جانے یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونے کے ہیں جبکہ اس کا
وقت نکل چکا ہو۔ عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر
بولا جاتا ہے۔
قاضی عیاض اپنی کتاب "الشفاء" میں معجزہ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں: "یہ بات بخوبی جان لینی چائیے کہ جو کچھ انبیاء اپنے ساتھ لے کر آتے
ہیں اسے ہم معجزے کا نام اس لئے دیتے ہیں کہ مخلوق اس کی مثل لانے سے عاجز
ہوتی ہے۔"
امام خازن معجزہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "معجزہ اللہ کے بنی اور
رسول کی طرف سے (جملہ انسانوں کے لئے) ایک چیلنج ہوتا ہے اور باری تعالٰی
کے اس فرمان کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ: میرے بندے نے سچ کہا، پس تم اس کی
کامل اطاعت ہو، اس لئے کہ نبی اور رسول کا معجزہ جو کچھ اس نے فرمایا ہوتا
ہے اس کی حقانیت اور صداقت پر دلیل ناطق ہوتا ہے۔"
علامہ شبلی نعمانی سیرۃ النبیﷺ جلد سوئم میں معجزہ کی تعریف یوں بیان کرتے
ہیں: "معجزہ اس خارق عادت چیز کو کہتے ہیں جو خدا کی طرف سے پیغمبر کی
تصدیق کے لئے صادر ہو۔"
معجزہ نبی یا رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہے اوریہ عطا اللہ رب العزت
کی طرف سے ہوتی ہے۔معجزہ من جانب اللہ ہوتا ہے لیکن اس کا صدور اللہ تعالیٰ
کے برگزیدہ نبی کے ذریعے ہوتا ہے۔معجزے کا ظہور چونکہ رحمانی ہوتا ہے اس
لئے عقل انسانی اس کے سامنے ماند پڑجاتی اور حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتی۔
انبیاء کرام پر ایمان لانے والوں کے حالات پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ
معجزات کی طلب نیکوکاروں نے نہیں کی جیسا کہ آنحضرتﷺ سے حضرت ابوبکر و
حضرت عمر نے معجزات طلب نہیں کئے بلکہ سرداران قریش و کفار قریش ابوجہل و
ابو لہب نے طلب کئے۔
قرآن کریم نے اس حقیقت کو پوری طرح تصریح کی ہے اور طلب معجزہ کے سوال کو
ہمیشہ کفار کی طرف منسوب کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: " اور ( جن کو کتاب الہیٰ کا) علم نہیں(کفار قریش) کہتے ہیں کہ کیوں
خدا ہم سے خود بات نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں
آتی۔"(سورہ بقر:۱۱۸)
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو اپنی قدرت کاملہ سے معجزات عطا فرمائے۔ نبی
آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت کی دلیل کے طور
پر بے شمار معجزات سے نوازا۔ہم ان معجزات میں سے چند کا ذکر کرتے ہیں۔
معراج: "معراج" عروج سے نکلا ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں۔
" پاک ہے وہ خدا جو رات کے وقت اپنے بندے کو لے گیا۔"(بنی اسرائیل:۱)
معراج حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد اور بیعت عقبہ سے پہلے ہوئی۔ضیاء النبی ﷺ
کے مصنف پیر کرم شاہ الازہری نے اپنی کتاب میں اس مبارک سفر کو دو حصوں میں
تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ حرم مکہ سے بیت المقدس تک اور دوسرا حصہ بیت المقدس
سے سدرۃالمنتہیٰ اور ماورا تک۔ اور اس ماورا کی حقیقت کو اللہ جانتا ہے یا
اس کا رسولﷺ۔ پہلے حصہ کو اسراء اور دوسرے کو معراج کہتے ہیں۔
شق صدر : آنحضرت کا ایک اور معجزہ جس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے۔
ترجمہ: " کیا اے پیغمبر! ہم نے تیرے سینے کو کھول نہیں دیا۔"(الانشراح:۱)
شق صدر سے مراد یہ ہے کہ سینہ مبارک کو چاک کرکے اس کو ایمان و حکمت کے نور
سے منور کیا گیا۔ صحیح مسلم کے مطابق حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ، "آنحضرت
لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھےکہ حضرت جبرئیل آئے اور آپ ﷺ کو زمین پر لٹایا،
قلب مبارک کو چاک کیا اور اس کو نکال کر اس میں سے ذرا سا جما ہوا خون
نکالا اور کہا کہ یہ شیطان کا حصہ آپﷺ میں تھا پھر اس کو سونے کے طشت میں
زم زم سے دھویا پھر شگاف کو جوڑ دیا پھر اس کو جگہ پر رکھ دیا۔ لڑکے دوڑتے
ہوئے آپﷺ کی ماں(دائی حلیمہ) کے پاس گئے اور جا کر پورا حال سنایا۔ لوگ
آپﷺ کے پاس پہنچے دیکھا تو چہرے کا رنگ متغیر تھا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ
آپﷺ کے سینے مبارک میں زخم کے سینے کے نشان یعنی ٹانکے مجھ کو نظر آ رہے
تھے۔
معجزہ شق القمر: آغاز نبوت میں چونکہ انبیاء صرف عقائد کی تعلیم دیتے تھے
اور کفار کی طرف سے ان ہی عقائد کا انکار کیا جاتا ہے، ان ہی کے اثبات پر
دلیل طلب کی جاتی اورکفار قریش آنحضرتﷺ سے معجزوں کے طالب ہوئے۔ ان کی ہی
طلب معجزات میں سے ایک معجزہ شق القمر بھی ہے۔
قرآن مجید میں سورہ القمر کی ابتدائی آیات میں اس جانب اشارہ ہے۔ ترجمہ:
"قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔ یہ خواہ کوئی نشانی دیکھ
لیں، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ چلتا ہوا جادو ہے۔"(سورہ القمر:۱۔۲)
شق القمر سے متعلق حدیث بہت سے صحابہ کرام نے روایت کی ہے جن میں حضرت علی،
حضرت عبداللہ ابن مسعود، حذیفہ بن یمان اور انس بن مالک وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود کی روایت ہے کہ "قسم اللہ کی میں نے چاند کو دو
ٹکروں میں پھٹا ہوا دیکھا"۔سائنسدانوں کے بقول ایک دن چاند کے دو ٹکڑے ہوئے
اور یہ پھر دوبارہ آپس میں مل گئے تھے۔ناسا نے چاند کی جو تصویر لی ہے اس
صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہواتھا۔
یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تا حال تحقیق کا موضوع
بنی ہوئی ہے۔قرآن کریم نے جس واقعہ کا ذکر آج سے چودہ سو سال پہلے کیا
تھا وہ بالکل برحق ہے ۔ یہ نا صرف قرآن مجید کی سچائی کی ایک عظیم الشان
دلیل ہے بلکہ یہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی رسالت کی بھی لاریب گواہی ہے۔
معجزہ قرآن: نبیﷺ کوجو معجزات عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا معجزہ خود قرآن
مجید ہے۔چنانچہ جب کفار نے آپ ﷺ سے معجزہ طلب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا: ترجمہ: "اور انہوں نے کہا کہ پیغمبر پر اس کے اللہ کی طرف سے
نشانیاں کیوں نہ اتریں۔ کہہ دیجئے کہ نشانیاں اللہ کی قدرت میں ہیں۔ میں تو
صاف صاف اللہ کے عذاب سے ڈرانے والا ہوں۔ کیا ان کو یہ نشانی کافی نہیں کہ
ہم نے کتاب اتاری جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔" (العنکبوت:۵۰۔۵۱)
آنحضرت ﷺ نے بھی دیگر انبیاء کے معجزات کے مقابلے میں اپنی اسی وحی
آسمانی کو سب سے بڑا معجزہ قرار دیا۔ چنانچہ گویا اسی آیت پاک کی تفسیر
میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: " پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کو اللہ
تعالیٰ نے اس قدر معجزات عطا کیے جن کو دیکھ کر لوگ ایمان لائے۔ لیکن جو
معجزہ مجھے مرحمت ہوا وہ وحی (قرآن) ہے جس کو اللہ نے مجھ پر اتارا۔ اس
لئے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے پیرووں کی تعداد سب سے زیادہ
ہوگی۔"(بخاری باب العتصام)
ان معجزات کے علاوہ اور بھی بے شمار معجزات ہیں جو پیشن گوئیوں کی صورت میں
ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں اجمالی طور پر موجود ہے جبکہ ان کی تفصیل
احادیث میں ملتی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو نبوت
کی دلیل کے طور پر معجزات عطا کیے۔ موجودہ دور مادہ پرستی کا دورہے۔ ہر چیز
کو سائنٹیفک بنیادوں پر جانچا اور پرکھا جاتا ہے۔ لہذا جب ہم حضورﷺ کی ذات
سے وابستہ معجزات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آج حضورﷺ کے بہت
سے معجزے سائنسی بنیادوں پر درست ثابت ہورہے ہیں جو اسلام کی حقانیت کی
واضح دلیل ہے۔
حوالہ جات:
۱۔المفردات از امام راغب اصفہانی
۲۔الشفاء از قاضی عیاض
۳۔سیرۃ النبی، جلد سوئم از علامہ شبلی نعمانی
۴۔ ضیاء البنی، جلد دوم از پیر کرم شاہ الازہری
۵۔تاریخ ابن کثیر از عمادالدین ابن کثیر
۶۔معجزات محمد عربیﷺ۔ ایک جائزہ از سمیرہ چشتی
۷۔معجزات رسول اکرمﷺ از مفتی عنایت احمد
|