بابری مسجد کے فیصلہ پر ہندوستانی مسلمانوں کا صبر

مذہب اسلام ہمیشہ امن وامان قائم رکھنے کی تعلیمات دیتا ہے
ہندوستان کے موجودہ حالات میں اﷲ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرکے تعلیمی اداروں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے

بابری مسجد کی شہادت کے ۲۷ سال بعد بابری مسجد کے قضیہ سے متعلق ۱۱ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ مطابق ۹ دسمبر ۲۰۱۹ء صبح ۱۱ بجے ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ آتے ہی انصاف پسند لوگوں پر بجلی سی گرگئی کیونکہ اُ ن کو آج بھی یہ یقین ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو گراکر نہیں کی گئی جیسا کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلہ میں اس کو تسلیم کیا ہے۔ نیز مسلمان قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی سمجھتے ہیں کہ اﷲ کے گھر کو مندر بنانے کے لئے دینا تو درکنار کسی شخص کی رہائش کے لئے بھی دینا اُن کے اختیار میں نہیں ہے۔ اسی لئے مصالحت کی متعدد کوششیں بھی ہوئیں لیکن قائدین ملت ہم وطنوں کے ساتھ مکمل خیر سگالی رکھنے کے باوجود اسی بات پر مصر رہے کہ مسجد یعنی اﷲ کے گھر کو بت خانہ میں تبدیل کرنے کا انہیں حق حاصل نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے پر انہیں اﷲ تعالیٰ کے دربار میں جواب دینا ہوگا۔ ہاں مسجد کی حفاظت کے لئے تمام تر کوششوں کے باوجود اگر ہندوستان کی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہمارے خلاف بھی آتا ہے تو ہم اس کو تسلیم کریں گے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ میں ۵۰۰ سالہ بابری مسجد کی مکمل زمین رام مندر بنانے کے لئے دے دی گئی ہے جیسا کہ آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی دیرینہ خواہش تھی، امن پسند لوگ خاص کر مسلمانوں نے اس فیصلہ کو اپنی مرضی کے خلاف ہونے کے باوجود تسلیم کیا، اگرچہ ہندوستان کے ماہرین قانون اور مختلف وکلاء کے بیان کے مطابق اس فیصلہ میں متعدد خامیاں موجود ہیں اور ظاہر ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کا اہم قضیہ ہونے کی وجہ سے اس فیصلہ پر لمبے عرصہ تک بحث ومباحثہ ہوتا رہے گا۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت علماء ہند اور دیگر قومی وملی تنظیموں نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس کیس کو مکمل تیاری کے ساتھ اچھے وکلاء کی سرپرستی میں لڑا۔ امید کی جارہی تھی کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا کے بجائے دستاویزوں کی بنیاد پر آئے گا، مگر ججوں کی پانچ رکنی پینل نے آستھا کی بنیاد پر اپنا فیصلہ سنایا، جس پر سیکولر ذہن رکھنے والے طبقہ کو بہت افسوس وقلق ہوا کیونکہ ہندوستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قضیہ کا فیصلہ آستھا کے بجائے حقائق پر مبنی ہونا چاہئے تھا۔ مسلم تنظیمیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل پر غور وخوض کررہی ہیں، عام مسلمانوں کو اس وقت قائدین ملت پر تنقید کرنے کے بجائے اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرکے مسلم تنظیموں کے اگلے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہئے۔ بہت ممکن ہے کہ عدالت کی طرف سے ملے حق کا استعمال کرتے ہوئے قومی وملی تنظیموں کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کے لے عرضی (ریویو پٹیشن) داخل کی جائے، حالانکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو بدلنا اب بظاہر ممکن نہیں ہے، مگر مسلم فریق کو کم از کم اس فیصلہ کی خامیوں کو بیان کرنے کا ایک موقع ضرور مل جائے گا۔

ہندوستان کے بیس کروڑ سے زیادہ مسلمان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اس اہم اور حساس قضیہ کا فیصلہ اُن کی توقعات کے خلاف آنے کے باوجود انہوں نے ملک میں امن وسکون اور شانتی قائم رکھی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر کا بہترین نمونہ پیش کیا۔ جب ۱۹۹۲ء میں ہندوستانی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کچھ شر پسند لوگوں نے ۵۰۰ سالہ پرانی بابری مسجد کو شہید کیا تھا تو پورے ملک میں فسادات برپا ہوئے تھے، جس کی وجہ سے ہزاروں خواتین اور بچے بے سہارہ ہوگئے تھے۔ مگر اِس وقت مسلمانوں نے اپنے قائدین کی بات پر عمل کرتے ہوئے اپنے جذبات پر قابو رکھا اور ملک کے حالات کو بگڑنے سے بچانے کے لئے انتظامیہ کا مکمل تعاون کیا۔ سپریم کورٹ نے بابری مسجد مسمار کرنے کے واقعہ کو غلط تو قرار دیا مگر بابری مسجد گرانے والوں کے خلاف کوئی فیصلہ ابھی تک نہیں سنایا، حالانکہ یہ معاملہ بھی عدالت میں طویل عرصہ سے زیر بحث ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں نے اس موقع پر ملک میں امن وامان باقی رکھنے کے لئے جو صبر وتحمل کی مثال پیش کی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جس نبی کا نام لیتے ہیں ان کو سارے جہاں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہے، اس نبی کی تعلیمات میں دہشت گردی کے بجائے رواداری اور بھائی چارہ کا پیغام ملتا ہے۔ انسانیت کے نبی ﷺ نے ہمیشہ امن وامان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔ چنانچہ اس دنیا پر ایک ہزار سال سے زیادہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اور مشرق سے مغرب تک توحید کا جھنڈا لہراتا رہا ہے، ہندوستان پر بھی کئی سو سال مسلمانوں نے حکومت کی ہے، لیکن اس دوران کوئی مذہبی انتہا پسندی پروان نہیں چڑھی، کسی دہشت گردی نے جنم نہیں لیا، بلکہ مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کی عزت اور ان کے سازوسامان کو مکمل حفاظت دی گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں ایک شخص نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے حکم دیا کہ قصاص کے لیے قاتل کو مقتول کے ورثہ کے حوالہ کیا جائے۔ چنانچہ قاتل کو قتل کیا گیا۔ دین اسلام میں انسانوں کے حقوق کا جتنا خیال رکھا ہے اس کی کوئی نظیر کسی مذہب میں نہیں ملتی۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کسی نے کسی مُعاہَد پر ظلم کیا یا اس پر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالاتو قیامت کے روز میں اس غیر مسلم کے حقوق کے لیے اس سے لڑوں گا۔ (ابوداود) اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار! میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام کرتا ہوں۔ (طبرانی)

انسانیت کے ناطے دین اسلام نے ہر شخص کو عزت سے نوازا ہے، مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کی بھی عزت اور ان کے ساز وسامان کی حفاظت ہر وقت مطلوب ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔ (سورۃ بنی اسرائیل: ۷۰) دین اسلام نے اپنے متبعین کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کے احترام کے ساتھ ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی شخصیات کا احترام کریں۔ حضور اکرمﷺ نے اپنے مواثیق، معاہدات اور فرامین کے ذریعہ اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرمادی تھی۔ دین اسلام میں کسی شخص کو گالی دینے یا اس پر ظلم کرنے یا اُس کا مال ناحق لینے یا اس کو ناحق قتل کرنے سے بہت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے خواہ وہ شخص کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔

رواداری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ شریعت اسلامیہ نے کسی بھی غیر مسلم کو مذہب اسلام قبول کرنے پر کوئی زبردستی نہیں کی، بلکہ صرف اور صرف ترغیب اور تعلیم پر انحصار کیا۔ فرمان الٰہی ہے: دین میں کسی پر جبر نہیں۔ (سورۃ البقرۃ: ۲۵۶) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: آپ کہہ دیجیے کہ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔ (سورۃ الکہف : ۲۹) غرضیکہ اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ دین اسلام کی دعوت دے کر کسی کو قبول کرنے پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ اسے اپنی منزل طے کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندوستان میں لاکھوں انسانوں کا دین اسلام قبول کرنا صرف اور صرف اُن کادین اسلام کو پسند کرنے کی وجہ سے تھا، کوئی زور زبردستی اُن کے ساتھ نہیں تھی۔ ہندوستان میں اسلام قبول کرنے والوں کی بڑی تعداد ہمارے اسلاف کے قول وعمل اور اُن کے اخلاق سے متأثر ہوکر ہی دائرۂ اسلام میں داخل ہوئی تھی۔ دین اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کی درخشاں روایات قائم کی ہیں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺکے سامنے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپﷺ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ صحابۂ کرام نے پوچھا کہ غیر مسلم کے لیے ایسا احترام کیوں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا وہ انسان نہیں ہے؟ (بخاری)کسی بھی خلیفہ یا مسلم حکمران کی جانب سے غیر مسلموں کو مذہب اسلام قبول کرنے کے لیے جبر وزبردستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

دین اسلام کا یہ پیغام ہے کہ تمام انسان برابر ہیں، خواہ ان کے درمیان دنیاوی اعتبار سے تفاوت ہی کیوں نہ نظر آئے۔ اصل برتری وفوقیت اﷲ تعالیٰ کے خوف اور نیک عمل کی بنیاد پر ہے، جیساکہ فرمان الٰہی ہے کہ تم میں سے معزز آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہے۔ (سورۃالحجرات: ۱۳) حجۃ الوداع کے موقعہ پر حضوراکرم ﷺ کا آخری خطبہ مساوات کی واضح تعلیم دیتا ہے اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں، تم میں سے اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سے زیاد متقی ہو یعنی اﷲ سے ڈرنے والا ہو، کسی عربی کو عجمی پر یا سفید کو سرخ وسیاہ رنگت والے پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ (مسند احمد) معلوم ہوا کہ اسلام میں نہ نسل کا اختلاف ہے نہ رنگ وزبان کا، بلکہ دین اسلام کی بنیاد اﷲ تعالیٰ کی رضا پر رکھی گئی ہے، اس راہ میں جو شخص جس قدر تیز گام ہوگا وہ اسی قدر دنیا وآخرت میں سرفراز ہوگا، اس منزل کے لیے کسی نسلی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تقویٰ، پرہیزگاری اور اخوت ومحبت ہی اس راستے کے مسافروں کا زاد راہ ہے۔

دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ شریعت اسلامیہ نے اخلاق کو بہتر سے بہتر بنانے کی خصوصی تعلیمات دی ہیں ، چنانچہ اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبر کے متعلق فرماتا ہے: اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ (سورۃ القلم: ۴) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے جب آپﷺ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپ ﷺ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرمﷺ نہ تو طبعاً فحش گو تھے نہ بتکلف فحش بات فرماتے تھے، نہ بازاروں میں خلافِ وقار باتیں کرتے تھے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیتے تھے اور اس کا تذکرہ بھی نہیں فرماتے تھے۔ (ترمذی)

یقینا چند سالوں سے ہندوستانی مسلمانوں پر ایسے حالات آئے ہوئے ہیں جو اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئے، لیکن ہمیں ان حالات کا مقابلہ اپنے نبی اکرم ﷺ کی سیرت کو سامنے رکھ کر کرنا چاہئے کہ نبی بنائے جانے سے لے کر وفات تک آپ ﷺکو بے شمار تکلیفیں دی گئیں۔ آپﷺ کا تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ ﷺ پر پتھر برسائے گئے۔ آپﷺ کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ آپ ﷺ غزوۂ احد کے موقع پر زخمی کئے گئے۔ آپ ﷺ کوزہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ آپ ﷺ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے۔ آپ ﷺ کے گھر میں دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلا۔ آپ ﷺ کے اوپر پتھر کی چٹان گراکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے سوا آپ ﷺ کی ساری اولاد کی آپﷺ کے سامنے وفات ہوئی۔ غرضیکہ سید الانبیاء وسید البشر کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ہمیں اپنے نبی کی زندگی کے احوال سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اﷲ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔ ہندوستانی قوانین کے مطابق ہمیں پرامن مظاہروں کا حق ضرور حاصل ہے مگر قومی وملی تنظیموں کی سرپرستی میں ہی ہمیں کوئی قدم اٹھانا چاہئے۔

آخر میں مسلم بھائیوں سے درخواست ہے کہ خود آگے بڑھ کر زیادہ سے زیادہ اپنے تعلیمی ادارے قائم کریں جس میں عصری علوم کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ بچوں کی بہترین دینی تربیت کا معقول انتظام ہو تاکہ ہماری نسلیں مرتد ہونے سے بچ سکیں اور اپنے قول وعمل کے ذریعہ اسلامی تعلیمات کو غیر مسلم بھائیوں تک پہنچائیں تاکہ مذہب اسلام کے متعلق صحیح معلومات اُن کو پہنچ سکے۔
 

Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 145047 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.