ریسکیو،ٹریفک پولیس ،نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹرویز اتھارٹی
سمیت ٹریفک کنٹرول سے متعلقہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق ہمارے ملک میں
روزانہ 3سے 4سوٹریفک حادثات ہوتے ہیں ۔جس میں تقریباً ایک سے150افراد زندگی
کی بازی ہار جاتے ہیں ۔2سے 3سوزخمی ہوجاتے ہیں ۔ٹریفک حادثات کے متاثرین کی
طبی امداد کے لئے روزانہ سرکاری ونجی ہسپتالوں میں کم ازکم 10سے 12لاکھ
روپے خرچ ہوتے ہیں۔پاکستان جیسا امیر لوگوں کا غر یب ملک ٹریفک حادثات میں
سالانہ 50ہزارسے زائد لوگوں کی زندگی چھین سکتا ہے اور تقریباً ایک لاکھ
نفوس زخمی کرواسکتا ہے 4کروڑروپے سے زائدرقم طبی امداد پر خر چ کرسکتا ہے
اربوں روپے عطیات کرسکتاہے لیکن ٹریفک قانون پر عملدرآمد نہیں کرواسکتا ،
کیونکہ کہا جاتا ہے کہ ٹریفک قوانین پر 90فیصد عمل عوام نے خود کرنا ہوتا
ہے ،10فیصد ٹریفک کنٹرول اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔دنیا کے تمام مہذب
ممالک میں ٹریفک قوانین پر ہر صورت عمل کروایا جاتا ہے تاکہ حادثات کم سے
کم ہوں۔ سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں تاکہ قیمتی جانوں کو ضائع ہونے سے
بچایا جا سکے۔
باقی مہذب ممالک جیسے امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور جرمنی وغیرہ میں تقریبا
اسی طرح کے ٹریفک قوانین لاگو ہیں جن پر پوری طرح عملدرآمد کرایا جاتا ہے
اس طرح وہ لوگ بہت حد تک ان حادثات پرقابو پا چکے ہیں مگر ہمارے ہاں صبح
اٹھتے ہی ٹی وی آن کریں تو اس طرح کی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں بس نہر میں
گر گئی، ٹرک نے وین کو ٹکر ماردی، گاڑی نے موٹر سائکل سوار کوکچل دیا،
ریلوے پھاٹک پر رکشہ ٹرین کی زد میں آگیا، ٹرالر الٹ گیا، ریس لگاتے ہوئے
دو گاڑیاں سڑک کنارے کھڑے لوگوں پر چڑھ دوڑیں،گاڑی درخت سے ٹکراکر الٹ گئی،
بس کھائی میں گر گئی، وین بے قابو ہو کر نہر میں جا گری، کوئلے سے بھرا ٹرک
وین پر الٹ گیا اور وین میں سوار تمام افراد جاں بحق وغیرہ وغیرہ ہمارے
اخبارات بھی اسی قسم کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی افسوسناک خبریں
سارا دن ملتی رہتی ہیں اور یہی روزانہ کی روٹین ہے۔ ان حادثات میں بہت سے
معصوم لوگ دوسروں کی غلطی کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے اور بہت سے زندگی بھر
کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ ان حادثات کی وجوہات کچھ اس طرح سے ہیں۔ روڈ
انفراسٹرکچر کا پراپرنہ ہونا، ڈرائیورزکی پراپر ٹریننگ کا بندوبست نہ ہونا،
ڈرائیورز کا ٹریفک/ سیفٹی قوانین کا خیال نہ رکھنا۔
ویسے تو دنیا کے ہر ملک میں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں مگر جتنے حادثات ہمارے
ملک میں ہوتے ہیں شائد ہی کسی اور ملک میں ہوتے ہوں اور میں یقین سے کہہ
سکتا ہوں کہ جتنی ہلاکتیں ہمارے ہاں ٹریفک حادثات میں ہوتی ہیں کہیں نہیں
ہوتیں بلکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی ہلاکتیں، دہشت
گردی کے باعث ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ صرف ٹریفک حادثات کی
حالت ہے اس کے علاوہ ٹرین/جہاز کے حادثات، آگ لگنے کے واقعات، ڈوبنے سے
ہلاکتیں، عمارتیں گرنے سے، فیکٹریوں وغیرہ میں ہونے والے حادثات کا شمار
نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں انسان کی بالکل قدر ہی نہیں۔ ہم سمجھتے
ہیں کہ ہمارے ملک میں سب سے فالتو چیز انسان ہیں اگر کچھ ہلاک بھی ہوجائیں
تو کوئی بات نہیں۔ آبادی بہت ہے اورآ جائیں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا
بھر میں جان لیوا حادثات کی تحقیقات کے لئے ایک مستقل ادارہ بنتا ہے جس کا
مقصد نہ صرف ذمہ داروں کا تعین کرنا ہے بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے
بچنے کے لئے سفارشات بھی مرتب کرنا ہوتا ہے، پاکستان میں ہر روز ہونے والے
حادثات کو اﷲ کی رضا سمجھ لی جاتی ہے، یہ طرز عمل درست نہیں، ملک میں فوری
طور پر انڈیپنڈنٹ سیفٹی بورڈ قائم کیا جائے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دوسرے ممالک کی طرح ٹریفک قوانین عمل درآمد
کروائے ،قانون توڑنے والوں کو سخت سزائیں دے ۔ تاکہ بہت سے لوگوں کی قیمتی
جانیں بچ سکیں۔پاکستان کے ہر شہر ی کی ذمہ داری ہے کہ قانون پر
عملدرآمدیقینی بنائیں ، سالانہ50ہزارنفوس کی اموات ، تقریباً ایک لاکھ نفوس
زخمی ہونے پر صدر،وزیراعظم ،وزیراعلیٰ ، وزراء اظہارِ افسوس اور امداد کے
اعلان کے ساتھ ساتھ ذمہ داروں کے خلاف سخت ترین سزاکا حکم دیں تاکہ ٹریفک
حادثات میں کمی واقعہ ہوسکے ۔ورنہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر کیڑے مکوڑوں کی
طرح مرتے رہیں گے یا زندگی بھر معذوری برداشت کرتے رہیں گے۔
|