چند روز قبل راقم کے رہائشی علاقے میں صبح سویرے مدرسے
سے واپس آتی دس سالہ شازیہ کا پراسرار قتل ہو ا ہے۔ ابتدائی رپورٹ اور ایف
آئی آر کے مطابق دس سالہ شازیہ روزانہ صبح فجر کی نماز کے بعد قریبی مدرسے
قمرالاسلام میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے جاتی تھی۔ اٹھارہ نومبر
کی صبح شازیہ مدرسے گئی لیکن واپس گھر نہیں پہنچی۔ شازیہ کے گھر کو وہاں سے
تین گلیوں سے راستہ جاتا ہے ، جبکہ شازیہ کے ساتھ چھٹی کرنے والے باقی بچے
اور اس کا بھائی پہلے ہی گھروں کو پہنچ چکے تھے۔ شازیہ ان میں سے ایک عقبی
گلی میں داخل ہو کر گھر کو گئی لیکن اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چلا کہ کہاں
گئی۔ شازیہ کے والدین اور اس کے رشتہ دار اسے ڈھونڈنے نکل پڑے۔ آس پڑوس میں
پوچھا، گلیوں میں چھان بین کی لیکن شازیہ ملی تو وہ بھی مردہ حالت میں گھر
سے تین کلو میٹر دور ایک سیم نہر کے کنارے چینی والے توڑے میں بند ۔ ایف
آئی آر میں صرف اتنا لکھا گیا ہے کہ شازیہ مدرسے تو گئی لیکن واپس گھر نہیں
پہنچی، اس کے والد ظفر اور اس کی والدہ کو تشویش ہوئی تو وہ اپنے رشتے
داروں کے ساتھ اسے ڈھونڈنے نکلے جنہیں مذکورہ بالا مقام پر توڑے میں بند
نعش ملی جس کے ناک ، منہ سے تھوڑا خون بہا ہوا تھا اور گردن پر نیلگوں نشان
تھے۔ اس اندھے اور دل اندوہ قتل کی واردات نے ضلع بھر کے لوگوں غمگین کیا ،
مختلف سیاستدانوں ، صحافتی و سماجی طبقوں نے پرزور مذمت کے ساتھ ساتھ حکومت
اور محکمہ پولیس سے ہر حد تک کاروائی کرنے کے مطالبات کئے۔ ٹی وی چینلوں پر
خبروں کے بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اس سانحہ کا سخت ترین نوٹس لیا اور
چوبیس گھنٹوں میں قاتل کو گرفت میں لے کر رپورٹ جمع کروانے کے احکامات جاری
کئے۔ جس کے بعد محکمہ پولیس حرکت میں آیا ، ڈی پی او جھنگ عطاالرحمٰن نے ڈی
ایس پی سیف اﷲ بھٹی، ایس ایچ او تھانہ سٹی عثمان لاشاری، ایس ایچ او تھانہ
صدر عبد الصبور اور ایس ایچ او تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن چوہدری حاکم سمیت دیگر
دو محکمہ جاتی افسران پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی مقرر کی جو اس کیس پر دن رات
محنت کر تی رہی۔ بچی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زیادتی ثابت نہیں ہوئی لیکن
گلا دبا نے کی وجہ سے موت ثابت ہوئی ۔ کئی میڈیا نمائندگان زیادتی کی خبریں
بھی چلا رہے تھے ، ان سے گزارش ہے کہ کوئی بھی خبر تحقیق کے بغیر نہیں
پھیلانی چاہئے۔ محکمہ پولیس کی کمیٹی نے شک اور فینسنگ کی بنیاد پر ابتدائی
کاروائیوں میں پندرہ کے قریب مقامی رہائشیوں کو حراست میں لیا۔ڈی پی او
جھنگ عطاالرحمٰن نے خود مقتولہ کے والد ظفر سے ملاقات کی اور انہوں نے قاتل
کو گرفت میں لینے اور انصاف دلانے کی مکمل یقین دہانی کروائی ۔ صوفی موڑ
اڈے پر موجود ایک کریانہ سٹور کے سی سی ٹی وی کیمرے کی مانیٹرنگ بھی کی گئی
جس میں ایک موٹر سائیکل پر منہ لپیٹے ہوئے دو سواروں کو کلیو سمجھا گیا ہے۔
سی سی ٹی وی فوٹیج واضح نہیں تھی اور نہ ہی اس میں کوئی سفید رنگ کا توڑا
نظر آ رہا ہے، لیکن اندھے قتل کا سراغ لگانے کیلئے کوئی ایک بھی نقطہ چھوڑا
نہیں جا سکتا تھا۔ مقتولہ پر اور جس گٹو میں نعش بند کر کے پھینکی گئی تھی
ان پر کوئی بھی فنگر پرنٹس نہیں ملے۔ لیکن جن لوگوں کو حراست میں لیا تھا
ان کی کال ٹریسنگ بھی کی گئی اور بڑے ہی پروفیشنل انداز میں ان کو ڈیل کیا
گیا۔ اس دورانیہ چھ دن طویل تھا۔ جہاں محکمہ پولیس نے اپنی انتھک کوششیں
کیں وہیں محلہ داروں اور مقامی سماجی کارکنوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ دوران
حراست ایک آصف بھٹی ولد حبیب الرحمٰن بھٹی نامی شخص نے اعتراف جرم کرتے
ہوئے بتایا کہ وہ مقتولہ کا ہمسایہ ہے اور اس نے زیادتی کی نیت سے مقتولہ
جو صبح سویرے قرآن پاک تعلیم حاصل کر کے گھر داخل ہونے لگی تھی تو میں نے
اس کو بہلا پھسلا کر بلا لیا اور اندر بند کر کے اس کے ساتھ زیادتی کرنے کی
کوشش کی ۔ مرحومہ شازیہ کی آہ زاری اور چیخوں سے ڈر کر میں نے اس کے گلے
میں رسی کا پھندہ ڈال کر مار دیا۔ اس نے بتایا کہ جب شازیہ مقتولہ کی ماں
اس کا پوچھنے میرے پاس آئی تھی تو اس وقت تک میں اسے مار چکا تھا ، اور جب
وہ دوسری گلی میں اس کو ڈھونڈنے نکل گئی تو اس وقت میں بچی کو توڑے میں
باندھ کر سائیکل پر ڈال کر لے کر نکل گیا تھا۔ راستے میں تین جگہوں پر مجھ
بچی کی نعش گری بھی ہے ، آخری جگہ جہاں گری وہیں میں نے پھینک دی۔ کچھ
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سانحہ تو بہت درد ناک ہوا ہے لیکن اس میں کئی
لوگوں نے اپنی روزی اور کئی لوگوں نے اپنی دشمنیاں نبھا نے کی غرض سے بے
گناہوں کو گرفتار کروایا ہے۔ حراست میں ایک لڑکے کے لواحقین نے کہا کہ یہ
سانحہ بہت الم ناک ہے ، اس کیلئے ہم ہر قربانی کیلئے تیار رہے، لیکن لوگوں
کے کہنے پر یوں بے قصوروں کو حراست میں لینا جائز نہیں ہے۔حراست میں موجود
ایک شخص نے اپنی پہچان چھپانے کی شرط پر بتایا کہ پولیس نے کسی کے کہنے پر
دوران حراست مجھ پر غیر انسانی تشدد کیا، حالانکہ وہ بے گناہ تھا۔ پچھلے
پانچ سالوں میں بچوں کے ساتھ قتل و زیادتی کے سترہ ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے
ہیں اور جو رجسٹر نہیں ہوئے ان کی تعداد نا معلوم ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے تھے کہ
اگر اصلی قاتل نہیں ملتا تو شاید کوئی بے قصور بلی کا بکرا بن جاتا۔ لیکن
اگر سارے سانحہ پر نظر دوڑائی جائے تو شازیہ ہم سب کی بیٹی ہے، اور اس کے
ورثا کے ساتھ بے انتہا ظلم ہوا جو سب سے بڑھ کر ہے۔ محکمہ پولیس کی پوری
ٹیم نے جس انتھک محنت کے ساتھ اس اندھے قتل کا سراغ لگایا اس کیلئے وہ لائق
تحسین ہیں۔علاقہ مکین اور محلہ دار بھی برابر مبارکباد کے مستحق ہیں، اگر
ایسے ہی تمام افراد انفرادی طور پر جرائم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں تو
جرائم کو جڑ سے اکھاڑنا ناممکن نہیں رہے گا۔ ڈی پی او ایک اچھے انسان لگتے
ہیں ، کیونکہ وہ جو بھی زبان دیتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی بھرپور مدد کرتا ہے۔
اس کیلئے پورا ضلع جھنگ ان کیلئے دعا گو ہے۔ لیکن یہ معمہ یہاں ختم نہیں
ہوا۔ ہمیشہ جرائم کو بڑھاوا بروقت سزا نہ دینا یا میڈیا کی جانب سے سانحات
کو پرسوُ نہ کرنے سے ملتا ہے۔ عدلیہ اور پولیس کو چاہئے کہ اس شخص کو ضلع
جھنگ سمیت پاکستان بھر کیلئے عبرت کا نشانہ بنائے۔ جتنی جلدی ہو سکے اسے
پھانسی کی سزا دے اور اگر انسانیت کا پاس رکھا جائے تو اس کا اصول یہی بنتا
ہے کہ کسی بڑے چوراہے پر سرعام پھانسی دی جائے۔ ڈی پی او جھنگ کا جنسی
ہراساں کئے جانے کیلئے آگاہی پروگرام بھی قابل تحسین ہے۔
|