لاہور میں مسجد ’شہید گنج‘ کے المیے میں پیر جماعت علی
شاہ کی ملت فروشی نے پنجاب کے مسلمانوں میں مایوسی کی جو لہر پیدا کی اس سے
متاثر ہوکر علامہ اقبال نے اپنی عمرکے آخری حصے میں کہا تھا
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کْشتۂ سْلطانی و مْلّائی و پیری
مطلب یہ کہ اے بادشاہت ملائیت او رپیری مریدی کے باطل نظریات سے قتل کیے
گئے لوگوں تم میں فراست ایمانی باقی نہیں رہی۔
۱۹۳۵میں پنجاب سرکار کے زرخرید پیر جماعت علی شاہ نے پنجاب کے مسلمانوں کو
اکیلے ہی شکست فاش دی اور مسجد کی جگہ گرودوارہ شہید گنج آج بھی سینہ تانے
کھڑا ہے جبکہ واقعے سے صرف ۱۲سال بعد لاہور پاکستان کا حصہ بن گیا ممکن ہے
کہ واقعے کے کچھ عینی شاہدین آج بھی زندہ ہوں۔
اس وقت پنجاب میں ایک پیر جماعت علی شاہ تھے۔ آج بھارت کے ہر گلی کوچے میں
، مولانا کے نام سے بہت سارے پیر جماعت علی شاہ گھوم رہے ہیں، اسلام کی
تاریخ میں ایک سے بڑھ کر ایک علمائے حق ہوئے ہیں، لیکن برصغیر پاک وہند کے
باہر اور یہاں بھی صرف ۱۲۵سال پہلے کسی کے نام سے پہلے لفظ ’مولانا‘ نہیں
پاسکتے کیوں کہ مولانا صرف اﷲ تعالیٰ ہوسکتے ہیں کوئی انسان مولانا ہو ہی
نہیں سکتا۔
پیری مریدی نیابت نفع بخش دھندہ ہے، اس پیری نہ صرف اپنے مرید کا معبود
ہوجاتا ہے بلکہ پیر کی نسل مرید کی نسلوں کی بھی معبود ہوتی ہے۔ آج سے ساٹھ
ستر سال پہلے مجھ سے ایک غیر مسلم دوست نے سوال کیا تھا کہ ہمارے برہمن اور
آپ کے مولانا میں کیا فرق ہے اس وقت میں نے جواب دیا تھا کہ برہمن پیدا
ہوتا ہے اور مولانا کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اب تو مولانا بھی پیدا ہونے
لگے ہیں۔ مولوی حسین احمد مدنی کے فرزند اسعد مدنی قرآن بھی صحیح نہیں پڑھ
پاتے تھے لیکن وہ مولانا ہی نہیں مولاناؤں کی جماعت کے نسلی بنیاد پر ہی
لیڈر بھی تھے۔
میں دنیا کے کئی مسلم ممالک میں گیا ہوں۔ برصغیر کے باہر مجھے ایک بھی
مولانا نہیں نظر آیا۔ میں تاریخ کا طالب علم رہا ہوں، بھارت میں ۱۲۵سال
پہلے آپ کسی ایک بھی مولانا کو تلاش نہیں کرسکتے۔ دورحاضر میں سب سے مشہور
شاہ ولی اﷲ بھی مولانا نہیں تھے، ان سے پہلے جناب مجدد الف ثانی بھی صرف
عالم تھے مولانا نہیں تھے، عصر حاضر میں ملا عمر جو مجاہد اور شہید بھی تھے
وہ بھی صرف ملا تھے مولانا نہیں۔ میری نظریں برصغیر کے لاکھوں مولانا لوگ
ان کی جوتیوں کے دھول کے برابر بھی نہیں ہوسکتے۔
دور زوال میں ہماری ماؤں نے پانچ عبقری شخصیتوں کو جنم دیا۔ سرسید، علامہ
اقبال، سید ابوالاعلیٰ مودودی، محمد علی جناح اور ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی۔
ان میں سے اول الذکر چار شخصیتوں کو اسلام ہی سے خارج کردیا تھا۔ صرف ۸۔۱۰
سال کی جدوجہد کے بعد دنیا سے رخصت ہونے والے ڈاکٹر فریدی کی مولاناؤں کی
تنظیم نے پوری طاقت سے مخالفت کی جن لوگوں نے بظاہر ان کا ساتھ دیا وہ بھی
قدم قدم پر ان کی پیٹھ میں چھرا بھونکتے رہے۔
منافقین ملت کا طبقہ تو عہد رسالت میں ہی عالم دہر میں آچکا تھا یہ تاریخ
کے ہر دور میں موجود رہا۔ لیکن اب توہماری مائیں وسیم رضوی اور زفر فاروقی
جیسے شاہ کار پیدا کررہی ہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے ایک درجن منافقوں
کا سماجی بائیکاٹ تک نہیں کرسکتے؟ مولاناؤں میں چچا بھتیجے جیسے بین
الاقوامی کھلاڑی۔ شیطانوں کی مسجد سے مشہور مسجد کا امام، دیوبند شریف،
بریلی شریف اور ندوہ شریف میں عبداﷲ بن ابی کے جانشینوں کو گل کھلاتے نہ
صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ سمجھ بھی رہے ہیں لیکن ہم ان کی عزت افزائی میں کوئی
کمی کرنے پر تیار نہیں۔ اُمی قوم کا کیا ہوگا جو کھلے ہوئے’’بابری فروش‘‘
لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کرنے کی ہمت بھی نہیں کرپارہے ہیں۔ کیا ہم اپنے ہر
’چلتا پرزہ‘ آدمی کو منافق بن جانے پرآمادہ کرنے کا اجتماعی جرم تو نہیں
کررہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں بہتر سمجھی جانی والی دو نئی چہ میگوئیاں تال
مروانے کے لییلکھنو کی مارکیٹ میں آئیں کہ شاید وہ یوگی جی کی نظر میں
آجائیں اوران کی ’عاقبت‘ سدھر جائے۔
علمائے سو اور منافقین کا یہ چرکہ اتنا ڈھیٹ ہے کہ وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ
رہا ہے کہ جس سرسید ، علامہ اقبال اور علامہ مودودی کو ان کے بزرگوں نے
اسلام ہی سے خارج کردیا تھا وہ آج پوری دنیا کے مسلمانوں کے ہیرو ہیں لیکن
ان بے سروں کو ڈوب مرنے کیلیے چلو بھر پانی بھی نہیں مل رہا ہے۔ پچاس سال
بعد اب ڈاکٹر فریدی بھی نوجوان نسل کے ہیروکی حیثیت اختیار کررہے ہیں۔
یہ طبقہ جمہوری دنیا میں ناکام بھی ہورہا ہے ، شیطان کبیر کے اربوں ڈالر
بیکار ہورہے ہیں، شیعہ سنی کی تقسیم کی ساری کوششیں ناکام ہورہی ہیں، آج
امام خمینیؒصرف شیعہ لیڈر نہیں دنیابھر کے مسلمانوں کے ہیرو ہیں۔ حزب اﷲ
اور حماس یک طرفہ طور پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے ہیروں ہیں۔ یہاں تک کہ
یمن میں حوثی باغیوں پر محمد بن سلمان کے حملے کو کسی نے شیعہ سنی کے چشمے
سے نہیں دیکھا۔
ان منافقوں اور علمائے سوء کو اچھی طرح معلوم ہے کہ انگریزوں نے بھی میر
جعفر سے اپنا کام نکال لینے کے بعد اس کی ناک اسی کے داماد میر قاسم سے
کٹوادی تھی۔
دین و آئین و سودا گریست
بھارت کے مسلمان بابری مسجد معاملے میں اپنی طاقت سے بہت زیادہ قربانی پہلے
ہی دے چکے ہیں۔ اب خواہ ہمارے حکمراں عدلیہ کا سہارا لیں یا پارلیمنٹ کا یا
۶؍دسمبر ۱۹۹۲ کی طرح بنا کسی سہارے کے جو کرنا چاہتے ہوں کر گزریں لیکن
کوئی مسلمان ا پنی طرف سے زمین نہیں دے گا۔ البتہ موجودہ مسلمان اور ان کی
نسلیں زمانہ بدلنے کا انتظار کریں گی۔ زمانہ تاریخ کے ہر دور میں بدلتا ہی
رہا ہے ابھی پتہ نہیں کتنی بار بدلے گا۔ اس وقت جو لوگ ہوں گے وہ اپنا
فیصلہ خود کرلیں گے۔ آخر میں عبدالحمید عدم نے اپنے دور کے علماء سو سے جو
کہا تھا اسی پر اپنی بات ختم کروں گا۔
شیخ صاحب مقابلہ کیسا
ہمسری کیا شراب نوشوں سے
ایک عصمت فروش بہتر ہے
آپ جیسے خدا فروشوں سے
|