بابری مسجد کے مقدمے کے تعلق سے مسلمانوں کا موقف تھا
کہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلہ کو وہ قبول کریں گے،اسے مانیں گے،اس کے
خلاف عوامی سطح پر کوئی منفی اقدام نہیں کریں گے ۔جس کے نتیجہ میں ملک کی
فضا خراب ہو اور امن و امان کی بجائے فساد برپا ہو یا لا اینڈ آڈر کا مسئلہ
پیدا ہو۔اور مسلمانوں اپنے موقف پر برقرار رہے۔جس مقدمے کے فیصلہ کو قبول
کرنے کی بات کہی تھی،اسے قبول کیا۔لیکن جس قدر ابھی گنجائش باقی ہے،سپریم
کورٹ آف انڈیا کے تحت اور جس قدر گنجائش ہندوستانی آئین کی روشنی میں
برقرار ہے،جب اس پر عمل کی بات آئی تو میڈیا نے ،دوسرے فریق نے،چند قابل
ذکر ہستیوں نے اور کچھ بے وزن مسلمانوں نے بھی ،سپریم کورٹ آف انڈیا کے
فیصلہ کو ماننے کے یہ معنی پہنانے شروع کردئیے کہ فیصلہ آچکا لہذا اِسے ہی
قبول کرنا چاہیے اورفیصلہ ماننے کے معنی حتمی فیصلہ نہیں بلکہ وہ فیصلہ ہے
جو آچکا ہے جو موجود ہے۔اگر اس پر نظر ثانی کی بات کی جائے گی،اگرریویو
پٹیشن کی بات ہوگی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مسلمان اپنی بات سے پلٹ
گئے،جو وعدہ انہوں نے کیا تھا اس پر وہ قائم نہیں رہے۔برخلاف اس کے عام
معنوں میں بھی اور قانونی چارہ جوئی میں بھی ،کسی فیصلہ کے ماننے کے معنی
یہی ہوتے ہیں کہ جب تک اس فیصلہ میں نظر ثانی کی گنجائش باقی ہے،جب تک اس
پر ریویو کیا جاسکتا ہے،تب تک یہ عمل جاری ہے،اور جو اختیارات عدالت نے دیے
ہیں یا جو اختیارات قانون اور آئین فراہم کرتا ہے،اس کا استعمال کرتے ہوئے
آخری فیصلے کا انتظار کیا جائے۔اور آخری فیصلہ جب بھی آئے اور جو بھی ہواسے
قبول کیا جائے۔گرچہ فیصلہ اُن کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔اس کے دوسرے معنی یہ
ہیں کہ قانونی چارہ جوئی کرنے والوں کی جس حد تک استطاعت تھی اور جس حد تک
قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے وہ کوشش کر سکتے تھے،وہ کی ۔لیکن اب آخری فیصلہ
گرچہ ان کے خلاف آیا ہے۔اور انہیں یقین ہو کہ وہحق پرہیں اس کے باوجود وہ
فیصلہ کو اور قانون کو چیلنج نہیں کریں گے ،بلکہ رب اعلیٰ کی اُس عدالت کا
انتظار کریں گے،جہاں حق اور باطل،جھوٹ اور فریب،صحیح اور غلط کا مکمل فیصلہ
ہو جائے گا۔اور یہی وہ جذبہ خیر ہے امت کے اُن خیر خواہان کا جو بابری مسجد
کا مقدمہ ایک طویل مدت سے قانونی عدالتوں میں لڑتے آئے ہیں۔اور یہ جذبہ خیر
صرف امت سے وابستہ افراد ہی میں نہیں ہے بلکہ ان بہترین،حددرجہ قانونی
اعتبار سے معروف وکلاء میں بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے جی جان سے اس مقدمے
کو عدالتوں میں لڑا ،اس کی پیروی کی ہے اور اعلیٰ ترین خدمات انجام دیتے
ہوئے شواہد پیش کیے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ جو مسلمانوں کی جانب سے اور خاص طور پر مسلم پرسنل لا
بورڈ کی جانب سے ریویو پٹیشن کی بات کی گئی ہے وہ غلط ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا
کہ بس اس فیصلہ کو ہی حتمی مان کر قانونی چارہ جوئی بند کردی جاتی ۔اور
بقول شخصے فیصلہ کے اس مرحلے میں آمادگی کے اظہار کے نتیجہ میں امن و امان
کو برقرار رکھنے میں یہ عمل معاون ہوگا۔لیکن غور فرمائیے کیا امن ،عدل و
انصاف کے بغیر قائم ہو سکتا ہے؟کیا امن زور زبردستی کرنے والوں کے سامنے
خاموشی اختیار کرنے سے ہو سکتا ہے؟امن کی تو بنیاد ہی یہی ہے کہ ایک جانب
عدل و انصاف قائم ہو اور دوسری جانب ڈر اور خوف کاماحول ختم کیا جائے۔جہاں
ڈر ہو،خوف ہو،بے اطمینانی کی کیفیت ہو،حقوق کا لحاظ نہ رکھا جائے،ظلم و
زیادتیاں کھلے عام کی جائیں،نفرتیں پروان چڑھیں،سماج تقسیم ہو،لوگوں کے
درمیان دوریاں پیدا کی جائیں،دلوں میں محبت اور ہمدردی نہ پائی جاتی ہو ۔کیا
ان حالات میں امن قائم ہوجائے گا؟کیا امن کے معنی یہی ہیں کہ لوگوں کی
زبانوں پر قفل چڑھا دیئے جائیں؟انہیں اظہار رائے کی آزادی سے محروم کر دیا
جائے؟ان کے بنیادی حقوق صلب کیئے جائیں؟نہیں،یہ امن نہیں ہے۔امن تو یہ ہے
کہ لوگ ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہوں،ان کے درمیان انسانی بنیادوں پر بہترین
رشتے استوار ہوں،وہ ایک دوسرے کے غموں اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہوں،ان کے
اندر ایک دوسرے کے تعلق سے غلط فہمیاں نہ پائی جاتی ہوں،وہ اپنی دل کی بات
آزادانہ انداز سے کہنے کے عادی ہوں۔ان حالات میں امن قائم ہوگا۔اس کے بغیر
نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی امن کی بات کی جاسکتی ہے۔اور جو لوگ کرتے
ہیں دراصل وہ خود کو ،معاشرہ کو اور اہل ملک کو دھوکہ دے رہے ہیں۔اور اس
دھوکہ کے پس پشت ان کے وہ بڑے کام انجام پا رہے ہیں جو ان کے پیش نظر ہیں
یا جنہیں انہوں نے اپنی منزل مقصود طے کیا ہے۔
گزشتہ پیرایہ میں بابری مسجد کے فیصلہ پر مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے جس
ریویو پٹیشن کا فیصلہ لیا گیا ہم اس کی بات کر رہے تھے۔لیکن اس درمیان جن
لوگوں نے فرداً فرداً اور اجتماعی شکل میں اس سے اختلاف کیا ہے انہیں معلوم
ہونا چاہیے کہ بابری مسجد پر آنے والے سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلہ پر
ریویو پٹیشن کا معاملہ کوئی پہلی دفعہ پیش نہیں آرہا ہے ۔بلکہ اس سے قبل
ایک سے زائد مرتبہ ریویو کی درخواست ڈالی گئی ،سپریم کورٹ نے اسے قبول کیا
اور نظر ثانی کے لیے ایک نئی بینچ یا اُسی بینچ نے تبدیلیوں کے ساتھ فیصلہ
سنایا۔آپ جانتے ہیں کہ ریویو پٹیشن سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کے خلاف داخل
کیا جاتا ہے اور یہ پٹیشن،دفعہ137 کے تحت فائل کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کو
دفعہ 145 کے تحت یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذریعے دیے گئے فیصلے پر نظر
ثانی کرے۔ریویو پٹیشن فیصلہ آنے کے بعد تیس دنوں کے اندر داخل کرنا ہوتا
ہے۔اسی چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس سے پہلے بھی کئی مشہور فیصلوں کے خلاف
ریویو پٹیشن فائل کی گئی ہیں۔جن میں i) ڈاؤری ہراسمنٹ کیس (Dowry
Harassment Case):2018 کے اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے فوری گرفتاری پر روک
لگانے والے فیصلے کو ریویو پٹیشن داخل کرنے کے بعد تبدیل کیا تھا۔ii) ٹوجی
اسپیکٹرم:2012 میں اس کیس میں سپریم کورٹ نے 122 کمپنی کے لائسنس کینسل
کرنے کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن فائل کی تھی۔iii) Case NEET :جولائی
2013 میں سپریم کورٹ نے MBBS/BDS کے لئے NEET کو غیر ضروری قرار دے دیا تھا،
اس فیصلے کے خلاف بھی ریویو پٹیشن فائل کی گئی تھی۔iv) SC/ST Act:اس فیصلے
میں بھی سپریم کورٹ نے SC/ST ایکٹ کے تحت درج ہونے والی FIR کے بعد فوری
گرفتاری پر روک لگادی تھی، اس فیصلے کے خلاف بھی ریویو پٹیشن فائل کی
گئی۔اسی طرح کافی مشہور معاملہ v) سبری مالا کیس ہے:اس کیس میں سپریم کورٹ
نے سبری مالا مندر میں ہر عمر کی عورت کو داخل ہونے کی اجازت دی تھی، اس
فیصلے کے خلاف بھی ریویو پٹیشن فائل کی گئی ہے۔لہذا یہ کہنا کہ بابری مسجد
کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ،آخری فیصلہ تھا اسے مان لیا جائے اور Review
Petitionفائل کرنے کو سپریم کورٹ کے خلاف جانے سے تعبیر کیا جائے تو اس
خیال اور فکر کو رد کرنا چاہیے ۔کیونکہ متذکرہ کیسس میں اور اس کے علاوہ
دیگر میں بھی یہ حق موجود ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے کے بعد سپریم
کورٹ آف انڈیا میں ہی ریویو پٹیشن فائل کی جاسکتی ہے اور اسے فائل کرنے کا
حق خود ہندوستانی قانون دیتا ہے جس کی بے شمار مثالیں ہیں کہ سپریم کورٹ کے
کئی فیصلوں کے خلاف اہل وطن نے Review Petitionفائل کی ہے۔لہذا جبکہ ایک سے
زائد بار یہ عمل سپریم کورٹ میں اہل وطن کی جانب سے دہرایا جا چکا ہے اور
کبھی یہ مسئلہ اس طرح میڈیا میں یا دیگر افراد و تنظیموں کے ذریعہ نہیں
اٹھایا گیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ بابری مسجد کے فیصلے پر ریویو پٹیشن پر اس
طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں؟اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی
چاہیے کہ جہاں ایک جانب مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران اور دیگر مسلم
دانشواران نے ریویو پٹیشن دائر کرنے کو صحیح قرار دیا ہے۔وہیں ملک کے بے
شمار غیر مسلم ہندو دانشواران، اہل سیاست،اقلیتوں کے ذمہ داران ، وکلا اور
جج صاحبان کی جانب سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ فیصلہ ان کی سمجھ سے بالا
تر ہے۔لہذا اگر اس مرحلہ میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ فیصلہ لیا ہے تو اس
سے قانون کی بالاتری ثابت ہوگی،عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے،اور اس
بات کی امیدباقی رہے گی کہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم رہے۔برخلاف اس
کے اگر آئین ہی نہیں بچا،قانون ہی نہیں بچا،اُس کی لاج نہیں رکھی گئی،تو
پھر باقی کیا رہا؟اورسوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک جمہوری ملک قانون اور آئین
کی بالادستی کو نظر انداز کرسکتا ہے!
|