بیٹی کا مقام ،دور جاہلیت اور اسلام

نبی اکرمؐ کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے، اے اﷲ کے رسولؐ ایک مرتبہ میں تجارت کے سفر پر جانے لگا تو میرے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی تھی۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ دیکھو اگر بیٹی ہوئی تو اسے پیدا ہوتا ہی مار دینا لیکن اگر بیٹا ہوا تو اسے سنبھالنا اور اس کی پرورش کرنا۔ مگر جب میں سالوں بعد لوٹا تو کیا دیکھتا ہوں گھر میں ایک چھوٹی سی بچی بھاگ دوڑ رہی ہے، جس پر میں نے اپنی اہلیہ سے دریافت کیا کہ یہ بچی کون ہے؟ تو اس نے بتایا کہ ہماری بیٹی ہے۔ اس کا قتل کرنے کا مجھ میں تو حوصلہ نہ تھا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ اس کے بعد اے اﷲ کے رسولؐ میں جب بھی دوستوں میں یا کسی محفل میں بیٹھتا تو سب لوگ مجھے طعنے دیتے کہ وہ دیکھو بیٹی والا آ گیا ہے۔ اور اے اﷲ کے رسول میں جب سارا دن کام کاج سے تھک کر لوٹتا تو بچی بھاگ کر میرے ساتھ چمٹ جاتی، میرے ساتھ پیار کرتی جسے دیکھ کر میری ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی۔ مگر میں جب بھی دوستوں میں بیٹھتا تو وہی طعن و تشنیع دوبارہ شروع ہو جاتی، میں اس طعن و تشنیع سے تنگ آ گیا تھا۔ تو آخرکار ایک دن میں نے اپنی بیٹی کو ساتھ لیا اور دور بیابان میں چلا گیا، وہاں جاکر میں نے گڑھا کھودنا شروع کر دیا۔ اﷲ کے رسولؐ میں گڑھا کھودتا جارہا تھا اور میری بیٹی مٹی اٹھا کر سائیڈ پر رکھتی جارہی تھی، جب کہیں تھکاوٹ سے میرے ماتھے پر پسینہ آتا تو بڑے پیار سے اپنے کپڑوں سے پسینہ صاف کر دیتی۔ اے اﷲ کے رسولؐ مگر جب میں نے گڑھا کھود لیا تو میں نے اپنی بیٹی کو اس میں پھینک دیا اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی۔ میری بیٹی زور سے چیختی چلاتی رہی کہ،
بابا ایسے کیوں کر رہے ہو؟
بابا ایسے کیوں کر رہے ہو؟ وہ بار بار چلاتی رہی۔
نبی پاکؐ زاروقطار رونے لگ پڑے، آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آنسوؤں کی وجہ سے آپ کی داڑھی بھیگ چکی تھی۔ وہ صحابی بولتے جارہے تھے اﷲ کے رسولؐ میں نے اسے دفنا دیا۔ اس کے الفاظ تھے کہ بابا آپ سے میں کچھ نہ مانگوں گی، کسی چیز کی فرمائش نہ کروں گی۔ مگر مجھے ذرا رحم نہ آیا اور میں نے اپنی بیٹی کو زندہ درگور کردیا۔ اس کے بعد وہ صحابی چپ ہوئے اور اﷲ کے رسولؐ سے پوچھنے لگے کہ اے اﷲ کے رسولؐ کیا مجھے اس گناہ کی معافی مل جائے گی؟ وہ بھی اتنا بڑا گناہ۔ آپؐ نے فرمایا کہ گناہ تمہارا اسلام قبول کرنے سے قبل کا ہے تو جب تم نے اسلام قبول کر لیا تو اﷲ تعالی نے تمہارے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیے۔
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو مشرک اپنے لئے بوجھ سمجھا کرتے تھے۔ بیٹیوں کو نحوست گردانہ جاتا، اور ان کو پیدا ہوتے ہی مار دیا جاتا یا زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ مشرکین کا یہ ماننا تھا کہ بیٹے کا بہت فائدہ ہے مگر بیٹی کا ہرگز کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ جب کوئی مصیبت یا جنگ کا وقت آتا ہے تو بیٹا اپنی حفاظت بھی کرتا ہے، اور اپنے خاندان کے لیے اور اپنے گھر بار کے لیے لڑتا ہے۔ بیٹا کمائی کرتا ہے خود بھی کھاتا ہے اور ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتا ہے۔ مگر بیٹی ایک بوجھ کی مانند ہے جسے ہر وقت اٹھا کر رکھنا پڑتا ہے۔ جب جنگ کا وقت آئے تو اپنے ساتھ ساتھ اس کی بھی حفاظت کرنا پڑتی ہے، اسے خود کما کر کھلانا پڑتا ہے۔ ان وجوہات کی بناپر وہ بیٹی کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے تھے اور بیٹی کو اپنے گھر کے لیے نحوست سمجھتے تھے کہ جس کی وجہ سے گھر میں کوئی بھی برکت یا خیر نہیں ہوسکتی۔ جس کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اس پر طعن و تشنیع کی جاتی اور اسے اس حد تک مجبور کر دیا جاتا کہ وہ اپنی بیٹی کو بلآخر قتل کرڈالتا۔ اسلام سے قبل بیٹی کی کوئی زندگی مقام اور عزت بالکل نہ تھی۔
اسلام نے بیٹی کو بہت مقام، اہمیت اور مرتبہ دیا ہے اور بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا گیا ہے۔ دور جاہلیت کے وہ تمام رسومات اور جاہلانہ عقائد کا خاتمہ کیا گیا ہے جس میں بیٹی کو گھر کے لیے نحوست سمجھا جاتا تھا۔ اسلام نے بیٹی کو معاشرے میں بیٹے کے مساوی مقام اور مرتبہ دیا ہے۔ بالکل بیٹے کی طرح بیٹی کی بھی بہترین تعلیم و تربیت اور پرورش پر زور دیا ہے۔ جیسے ایک بیٹا ہر چیز پر حق رکھتا ہے بالکل اسی طرح اسلام نے بیٹی کو بھی ہر چیز میں حقدار رکھا ہے۔ اسلام نے بیٹی کو ہر روپ میں بہترین درجات عطا کیے ہیں۔ اور جو شخص بیٹی کی پرورش کرتا ہے اﷲ کے ہاں اس کا بلند درجہ رکھا گیا ہے۔
نبی پاکؐ کی حدیث ہے،
’’آپؐ نے اپنی دو انگلیوں کو جوڑ کر فرمایا کہ جس نے دوبیٹیوں کی پرورش کی اور نیک تربیت دی اور پھر ان کو بہتر طریقہ سے رخصت کیا۔ وہ کل روز قیامت جنت میں میرے اس طرح ساتھ ہوگا جس طرح یہ دو انگلیاں ہیں‘‘
اس وقت ایک صحابی رسول مجلس میں بیٹھے تھے انہوں نے فورا سوال کیا کہ اے اﷲ کے رسولؐ جس کی صرف ایک بیٹی ہو؟ ہو سکتا ہے کہ اس صحابی کی ایک ہی بیٹی ہو اس وجہ سے انہوں نے سوال کیا تھا۔
’’تو آپؐ نے فرمایا جس کی صرف ایک بیٹی ہو اور اس نے بھی اس کی بہترین پرورش کی، نیک تربیت کی اور اچھے طریقہ سے رخصت کیا وہ بھی کل بروز قیامت اسی طرح ہوگا جس طرح دو انگلیاں ہیں‘‘
نبی پاک کی اس حدیث نے اسلام میں بیٹی کی اہمیت واضح کردی اور بیٹی کا اسلام میں بلند و بالا مرتبہ بھی سب کے سامنے واضح کردیا۔
مگر موجودہ دور میں بھی دور جاہلیت کی سوچ پائی جاتی ہے۔ اگر کسی کے ہاں کوئی بیٹی پیدا ہو جائے تو وہ اسے خود پر بوجھ سمجھتا ہے۔ بیوی کو بیٹی کی پیدائش پر ملامت کی جاتی ہے، اسے دھمکایا جاتا ہے کہ اگر بیٹی دوبارہ پیدا کی تو تمہیں طلاق دے دی جائے گی۔ یا کہا جاتا ہے کہ جس عورت نے بیٹی پیدا کی ہے وہ منحوس ہے۔ موجودہ دور میں بھی جاہلانا رسوم و رواج پائی جاتی ہیں اور اس دور جدید میں بھی جاہلانہ سوچ کا قیام موجود ہے۔ اس کے متعلق اﷲ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں،
’’آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اﷲ تعالی ہی کے لئے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ یا انہیں جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔‘‘
بیٹی کی پرورش کے متعلق ایک واقعہ جو نبی پاکؐ کی زندگی سے ہے وہ آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک صحابی رسول اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے اﷲ کے رسولؐ زمانہ جاہلیت میں جب لوگ اپنی بیٹیوں کو قتل کردیا کرتے تھے تو میں ان سے بیٹی کو قتل نہ کرنے کا کہتا تو وہ میری یہ بات نہ مانتے۔ تو میں انہیں ان سے مانگ لیتا تو وہ اس سے بھی انکار کر دیتے، پھر میں ان سے ان کی بیٹی کو دو اونٹوں کے عوض خرید لیتا یوں کرکے میں نے 320 بچیوں کی جان بچائی ہے۔ اس نے سوال کیا اے اﷲ کے رسولؐ اس کا کیا اجر ملے گا مجھے اﷲ سے۔ تو نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اﷲ پاک نے تمہیں اسلام جیسی نعمت سے روشناس کروایا، تمہیں گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر صراط مستقیم پر چلا دیا۔ اور تمہیں صحابہ کرام کی صف میں شامل کر دیا۔ یہ بھی اﷲ تعالی کا بہت بڑا اجر ہی ہے۔
اسلام نے بیٹی کو جائیداد اور وراثت میں بھی حقدار قرار دیا ہے۔ جس طرح باپ کی جائیداد میں بیٹے حصہ دار ہیں اسی طرح اسلام نے بیٹیوں کا بھی اس میں حصہ مقرر کیا ہے۔ جو ان کا یہ حصہ ادا ہیں کرتا اﷲ کے ہاں اس کی بہت سخت سزا ہے۔ اسلام بیٹی کو کسی بھی طرح معاشرے میں قید نہیں کرتا بلکہ معاشرے میں اس کی عزت اور تقدس قائم کرکے اس کے لئے مساوی مواقع فراہم کرتا ہے۔ بیٹی کو اسلام نے جو حقوق فراہم کیے وہ دنیا کا کوئی بھی مذہب فراہم نہیں کرسکتا۔

 

Musab Ghaznavi
About the Author: Musab Ghaznavi Read More Articles by Musab Ghaznavi: 16 Articles with 12135 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.