طارق صاحب کا واقعہ بہت غمناک
ہے!جب کبھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے مجھے دنیا سے نفرت ہونے لگتی ہے اور
میری طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے!طارق صاحب لاہور اعوان ٹاﺅن
میں رہتے ہیں،ان کا تعلق ایک شریف خاندان سے ہے،لاہور میں وہ پرائیویٹ
سکولوں میں پڑھاتے تھے،ریاضی ان کا خاص مضمون ہے،1999ء میں اسلام آباد کے
قریب واقع ایک تعلیمی ادارے میں ریاضی کے ٹیچر کی اسامی نکلی تو انہوں نے
اپلائی کردیا،ٹرائل میں وہ کامیاب ہوگئے اور ان کی سلیکشن ہوگئی،انہوں نے
زندہ دل لوگوں کے شہر لاہور کو چھوڑا اور روکھے لوگوں کے شہر اسلام آباد
میں آکے ڈیرے ڈال دیئے۔اپنی ہنس مکھ طبیعت کی وجہ سے وہ تھوڑے ہی عرصہ میں
طلباء اور اساتذہ میں ”پاپولر“ ہوگئے،وہ ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتے اور
کبھی ادارے کی ”اندرونی سیاست “میں ملوث نہ ہوتے،ان کا کام تدریس تھا اور
بس۔فارغ وقت وہ دوستوں کو دیتے یا ٹیوشن پڑھاتے،ان کے پاس بیٹھنے والا اپنے
غموں کو بھول جاتا،ان کی فراخدلی مشہور تھی،مختصر یہ کہ ادارے میں وہ ایک
منفرد چیز تھے!وقت تیزی سے گزرتا گیا۔دیکھتے ہی دیکھتے پانچ برس بیت گئے۔اس
دوران ان کے پاس کئی گولڈن چانس آئے وہ سعودی عرب جاسکتے تھے،انہیں سرکاری
نوکری مل سکتی تھی اس لیے کہ ان کے والد صاحب ایک بہت بڑے سرکاری افسر
تھے،ان کے لئے کاروبار کا موقع بھی تھا، وہ اپنا سکول بھی بنا سکتے تھے،
مگر انہوں نے” ادارے “کو سب چیزوں پر ترجیح دی کیوں کہ اس ادارے میں
”اسلام“ کا نام بھی لیا جاتا تھا اور مذہبی پس منظر کی وجہ سے طارق صاحب کے
لئے اس میں کشش تھی۔یہی وجہ تھی وہ اپنا سب کچھ ادارے میں لٹا رہے تھے،اپنی
جوانی‘اپنی صلاحیتیں اور اپنا وقت !حالانکہ جتنی تنخواہ انہیں ادارے سے
ملتی تھی اس سے زیادہ وہ گھر بیٹھ کر کما لیتے تھے اور ادارے میں جو تنخواہ
مقرر ہوئی تھی وہ بھی کونسی باقاعدہ ملتی تھی۔اکثر اوقات بے چاروں کو
ماہانہ آدھی تنخواہ ملتی اور باقی آدھی سال بعد!ان حالات کے باوجود وہ بڑی
دلجمعی اور استقامت سے چھ سال تک اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔پھر اچانک
یہ ہوا کہ ان کے ادارے میں کوئی خفیہ پمفلٹ تقسیم ہونے لگے جن میں الٹی
سیدھی باتیں لکھی ہوتیں،ادارے کی انتظامیہ نے اپنے طور پر ہر ممکن کوشش کی
کہ پمفلٹ تقسیم کرنے والوں کو پکڑ لے مگر تمام تر کوششوں کے باوجود جب
انہیں ناکامی ہوئی تو خفت مٹانے کے لئے پرنسپل نے اس خود ساختہ سازش کا
الزام طارق صاحب پر لگا دیا اور طارق صاحب سے مطالبہ کیا کہ وہ کلما (طلاق
) والا حلف اٹھائیں !اپنی سادہ اور سیدھی سادھی طبیعت کی وجہ سے طارق صاحب
کے لئے یہ صورتحال انتہائی پریشان کن تھی انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ان
پر الزام کیوں لگایا جارہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان پر لگنے والے الزام کی
اطلاع اکثر طلباء اور اساتذہ کو ہوچکی تھی۔طارق صاحب کے ساتھ یوں سلوک کیا
جا رہا تھا جیسے وہ انڈیا کے جاسوس ہوں،انتظامیہ کے ناروا اور سفاکانہ رویے
کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہوگئی، شریف آدمی کے لئے عزت سے بڑھ کر اور کیا
ہوسکتا ہے؟طارق صاحب نے پرنسپل کے نام ایک لیٹر لکھا ”میں خدا کو حاضر ناظر
جان کر حلفاً یہ کہتا ہوں مجھے اس پمفلٹ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں، میرا اس
پمفلٹ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے یہ پمفلٹ کون تیار کرتا
ہے اور کون تقسیم کرتا ہے۔“واضح الفاظ میں حلف اٹھانے کے باجود پرنسپل نے
طارق صاحب کا ”شرعی حلف“ قبول نہ کیا اور کہا آپ ابھی میرے دفتر میں کلما
والا حلف اٹھائیں میں آپ کو پندرہ منٹ دیتا ہوں اگر تم یہ حلف نہیں اٹھاتے
تو پھر اسی وقت ادارے سے نکل جاﺅ۔پرنسپل کا یہ مطالبہ بے جا تھا تاہم طارق
صاحب پرنسپل کا لکھا ہوا حلف اٹھانے پر تیار ہوگئے،انہوں نے پرنسپل سے کہا
چونکہ اب یہ معاملہ اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے علم میں آچکا ہے اس لیے آپ تمام
اساتذہ اور سٹوڈنٹس کو اکٹھا کریں اور میں ان سب کے سامنے وہی حلف اٹھا لوں
گا جو آپ کہہ رہے ہیں، سامنے حلف اٹھانے سے اساتذہ اور طلباء کا ذہن بھی
میرے بارے میں صاف ہوجائے گا مگر پرنسپل نے طارق صاحب کی یہ معقول تجویز
ماننے سے انکار کردیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ یہیں بند کمرے میں حلف
اٹھائیں، اس پر طارق صاحب نے کہا اب جبکہ یہ قصہ سب کو معلوم ہوچکا ہے اس
لیے اگر آپ مجھ سے حلف لینا چاہتے ہیں تو سب کے سامنے لیں اب میں یہاں بند
کمرے میں حلف نہیں اٹھاﺅں گا۔طارق صاحب کے اس اصولی موقف پر پرنسپل غصے میں
آگئے اور اپنے دو اساتذہ کو حکم دیا انہیں ابھی اسی وقت نہ صرف گیٹ سے باہر
نکالو بلکہ گاڑی میں بٹھا کے انہیں اس علاقے سے باہر چھوڑ کے آﺅ۔طارق صاحب
نے اپنے کمرے سے بمشکل ایک بیگ ساتھ لیا اور خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ
گئے۔وہ بے چارے اس ” اسلامی ادارے“میں کر بھی کیا سکتے تھے۔انہیں تو شاید
یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ واقعی ان کے ساتھ یہ سب کچھ ہوگیا ہے،انہیں گاڑی
میں بٹھا کے جب لے جایا جانے لگا تو طلباء غم کی تصویر بنے اپنے مظلوم
استاد جی کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے کوئی جنازہ جا رہا ہو،ان کی آنکھوں سے
آنسو جاری تھے۔”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا محاورہ انہیں آج سمجھ میں
آیا تھا۔ادارے کے لئے اپنی زندگی کے چھ قیمتی سال لٹانے والا”محترم استاد“
آج خود لٹ چکا تھا۔ہاں واقعی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ سچ ہے۔طارق صاحب کے
ساتھ صرف اتنا ہی ظلم نہ ہوا اس سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ شاید آپ کو یقین
بھی نہ آئے۔جب طارق صاحب کو ادارے سے چار کلومیٹر دور ڈراپ کیا گیا تو
انہوں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور مختصراً قصہ سنایا۔ان کے دوست نے
انہیں کہا بھائی آپ کم از کم اپنا سامان تو لے آﺅ بلکہ تم ایسا کرو واپس جاﺅ
اپنا سامان پیک کرو میں گاڑی لے کر آتا ہوں۔ دوست کے کہنے پر طارق صاحب بس
میں بیٹھ کر واپس ادارے کی طرف گئے جب وہ ادارے کے سامنے سٹاپ پر اترے تو
پرنسپل کو اطلاع دی گئی کہ طارق صاحب باہر آئے ہیں اس پر پرنسپل نے بڑی
کلاس کے طلباء کو اکٹھا کیا اور انہیں حکم دیا اگر یہ دوبارہ گیٹ کے اندر
آئے تو اسے مارو میں نے سب بندوبست کرلیا ہے،میرے بڑے تعلقات ہیں بس صرف
جان سے نہ مارنا باقی جتنا مار سکتے ہو مارو۔اس کے بعد کی کہانی میں آپ کو
نہیں سناتا کہیں آپ رونا ہی نہ شروع کردیں اور میرا مقصد آپ کو رلانا نہیں
بلکہ ایک سبق دینا ہے۔میں یہ سبق اپنے سٹوڈنٹس کو بھی دیتا ہوں ۔وہ سبق یہ
ہے بھائی ممکن ہو تو کبھی کسی کی نوکری نہ کرنا بلکہ اپنا ذاتی کوئی کام
کرنا۔کاروبار کرسکتے ہو تو کاروبار کرو۔تعلیمی ادارہ بنا سکتے ہو تو بھی
ٹھیک ہے۔اپنا کام اپنا ہوتا ہے۔چاہے معمولی ہی کیوں نہ ہو اور نوکری نوکری
ہی ہوتی ہے چاہے آپ سیکرٹری یا جرنیل ہی کیوں نہ ہوں۔ملازم یا نوکر کو
پرانے زمانے میں غلام کہا جاتا تھا اور صاحب ثروت لوگ انہیں خریدتے تھے،آج
کی ملازمت اسی غلامی کی ماڈرن شکل ہے۔نوکری کے کلچر نے ہمیں سخت نقصان
پہنچایا ہے،یس سر ہماری گھٹی میں پڑ ا ہوا ہے۔اچھا بھلا گھبرو جوان ایک
مریل سے افسر کے سامنے بھیگی بلی بنا کھڑا ہوتا ہے،افسروں کی طرف سے ڈانٹ
ڈپٹ معمول بن گیا ہے،پاکستان میں سرکاری نوکری میں قدرے کشش ہے اس کی وجہ
یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سرکاری ملازمین اکثر اوقات اقتدار پر قابض رہے ہیں
لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے ملازمت پیشہ لوگوں کو خاص خاص
مراعات سے نوازا ہے مثلاً تنخواہ نقد اور کام ادھار۔لیکن جہاں تک پرائیویٹ
سیکٹر کا تعلق ہے تو اس میں کام نقد اور تنخواہ ادھار ہوتی ہے۔میرے مظلوم
ملازمت پیشہ بھائی میری بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہوں گے۔اس ملک میں طاقتور
کمزوروں کا اور حاکم محکوموں کا جتنا استحصال کرتے ہیں اتنا فرعون کے زمانے
میں بھی نہیں ہوتا تھا۔آج جس کسی کے پاس کچھ اختیارات ہیں وہ فرعون سے کم
نہیں،الا ماشاءاللہ اور یہ برائی صرف دنیا داروں میں نہیں ہے بلکہ دین دار
بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔میں کتنے ایسے دینی اداروں کو جانتا ہوں جہاں
مدرسین اور ملازمین کے ساتھ شودروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے،مدرسوں کے مہتمم
قاریوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ہر باس اور ہر مہتمم چاہتا ہے اس کے
ماتحت کام کرنے والے پوری جان لگائیں‘ اپنے آپ کو گھلا دیں مگر تنخواہ اور
دیگر مراعات کا نام نہ لیں۔رعب جھاڑنا اور ڈانٹ ڈپٹ کرنا بہر کیف وافر
مقدار میں ملتا ہے ۔میرے بھائیوں! میں تمہیں مخلصانہ مشورہ دیتا ہوں نوکری
کو ذہن سے نکال دو،اپنی خودی کا سودا نہ کرو،اپنے ضمیر کو نہ بیچو کوئی بھی
کام جو تم کرسکتے ہو کرو مگر وہ کام تمہارا اپنا ہو اللہ اس میں برکت دے گا
اور تم بادشاہوں کی طرح زندگی گزارو گے،تم اس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے
ہو پوری دنیا میں سب سے اوپر وہ لوگ ہیں جنہوں نے نوکری پر اپنے ذاتی کام
کو ترجیح دی۔میاں شریف مرحوم نے قرض لے کر ایک بھٹی سے اپنے کام کا آغاز
کیا آج ان کے خاندان کے پاس اتنا کچھ ہے کہ آنے والی دس نسلوں کے لئے بھی
کافی ہوگا۔اس طرح کی میں ہزاروں اور مثالیں آپ کے سامنے پیش کرسکتا
ہوں۔مجھے امید ہے آج کے بعد آپ ایک غیرت مند اور خود دار انسان بن کر جیئیں
گے،خدا نے آپ کو غلام پیدا نہیں کیا اس لیے خدا کی دی ہوئی زندگی کو غلامی
کی نظر نہ کرو۔مجھے امید ہے آج سے آپ یقیناً آزادی کو غلامی پر ترجیح دیں
گے۔تاریخ گواہ ہے، بہادر اور غیرت مند قومیں نوکر نہیں ہوتیں کیونکہ نوکری
انسان کو بخیل،بے ضمیر اور بزدل بنا دیتی ہے!!! |