اخلاق، اقدار ، روایات، معاشرہ ،
ثقافت یہ سارے خوشنما الفاظ اب بھی ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہوتے
ہیں لیکن عملاً لگتا ایسا ہے کہ یہ سب ہمارے معاشرے سے رخصت ہوتے جارہے ہیں
ہم میں سے ان کی حفاظت کے دعویدار تو بہت ہیں لیکن لگتا ایسا ہے کہ بات
دعوؤں سے آگے نہیں بڑھ رہی بلکہ ہر ایک حتی ا لوسیع ان الفاظ تک کو مٹانے
کے درپے ہے ہمارے معاشرے کا ہر فرد اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے اور پچھلے
دس پندرہ سالوں میں ہم نے اپنے معاشرے کی ہیتِ ترکیبی کو جس طرح بدل کر رکھ
دیا ہے ہم نے اپنی شناخت کو داؤ پر لگا دیا ہے ما ڈرن ازم کے نام پر ہم نے
مغرب کی ہر بیہودگی کو اپنانا شروع کر دیا ہے یہ دیکھے اور سوچے بغیر کہ اس
کا ہماری اپنی معاشرتی زندگی پر کیا اثر پڑ رہا ہے اور کیا کیا مسائل
معاشرے میں جنم لے رہے ہیں ہم خود کو ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ظاہر کرنے
کے لیے انکی روایات اپنا رہے ہیں ویلنٹائن ڈے پر تو اتنا لکھا اور بولا جا
چکا ہے کہ میں مزید کیا کہوں مجھے تو خوف ہے کہ کچھ ہی عرصے میں تکیوں کی
نا معقول جنگ بھی ہماری تفریحات و ترجیحات میں شامل نہ ہو جائے۔ ماں باپ کی
محبت کو تو ہم مدر ،فادر ڈے تک لے آئے ہیں کہ اسی دن تحفے تحائف دیئے جاتے
ہیں بلکہ اس دن کے لیے روک کر رکھے جاتے ہیں ۔ہمارے نیوز چینلز جن فیشن شوز
کو مشرق و مغرب کا حسین امتزاج کہتے ہیں وہ ہمارے معاشرے کا اعشاریہ ایک
فیصد لوگ بھی نہیں پہنتے لیکن کچے ذہنوں کو بے راہرو کرنے کے لیے انہیں ایک
موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ کیا جا رہا ہے ۔ہمارے
اشتہارات اب ڈانس شوز بن چکے ہیں۔ سادگی کی جگہ تضع اور بناوٹ لیتی جا رہی
ہے جس نے کئی نفسیاتی امراض کو بھی بڑھا دیا ہے ڈیپریشن اور ذہنی دباؤ میں
مسلسل اضافہ ہو تا جا رہا ہے مقابلے کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافے نے
رشوت، بدعنوانی اور خیانت جیسی برائیوں کو معاشرے کی جڑوں تک پہنچا دیا ہے،
اور تصویر کا دوسرا رخ اس سے بھی بڑھ کر خطرناک ہے اور وہ ہے مذہبی انتہا
پسندی جس کو اپنا کر بہت سے لوگوں نے اسلامی میانہ روی کا دامن ہاتھ سے
چھوڑ دیا ہے ہم اکثر یہ تجزیے کرتے ہیں کہ کس طرح اسلام کے نام پر اسلام کو
بدنام کرنے والے دشمن اتنی کامیابی کے ساتھ اپنے لیے کارندے ڈھونڈ لیتے ہیں
اگر چہ یہ سب کچھ کروانے والوں کو کم از کم میرا دل مسلمان ماننے کو تیار
نہیں اور بہت سارے ایسے ثبوت اور مشاہدات ہیں کہ یہ لوگ دین کی بنیادی
تعلیمات سے بھی پوری طرح واقف نہیں کجا کہ عالم دین ہونا۔ لیکن یہ ایک
حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے مختلف واقعات میں استعمال ہو نے والے کارندے خود
ہمارے ہی لوگ ہیں اور اسلام ہی کے نام پر انہیں ورغلایا گیا ہوتا ہے اور یہ
کام بہت آسانی سے کر لیا جاتا ہے جب مدارس کے یہ بچے اسلامی تعلیم حاصل
کرتے کرتے ماڈرن ازم کے نام پر عریانیت اور بے راہروی کو دیکھتے ہیں تو خود
بخودان کے اندر مزاحمتی جذبات پیدا ہوتے ہیں جنہیں بڑی آسانی سے استعمال کر
لیا جاتا ہے اور یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایک انتہا کے ردعمل میں دوسری
انتہا جنم لیتی ہے اور یہی کچھ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔
بلکہ ہم خود غیروں کے آلہ کار بن کر ایسا کر رہے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے
کہ دونوں انتہاؤں پر ڈور تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے لیکن آلہ کار ہم خود
ہیں ہم مذہبی انتہا پسندی کی شکایت بھی کرتے ہیں اور اس سے شاکی بھی ہیں
خاص کر ہمارا میڈیا بھی اس صورت حال پر پریشانی کا اظہار بھی کر رہا ہے
لیکن خود وہ دانستگی میں زیادہ اور شاید کچھ نادانستگی میں بھی اس انتہا
پسندی کو فروغ دے رہا ہے جسطرح کے ملبوسات اور پھر حرکات و سکنات ہمارا
میڈیا فن اور فیشن کے نام پر دکھا رہا ہے وہ ہماری تہذیب و ثقافت تو کسی
طور پر بھی نہیں ۔ ہمیں اس پر غور ضرور کرنا ہو گا اعتدال پسندی اور روشن
خیالی کے نام پر جو طوفان بد تمیزی بر پا کیا جا رہا ہے اسے روکنا بہر صورت
ضروری ہے یہ اعتدال پسندی ہر گز نہیں بلکہ ماڈرن ازم کی انتہا پسندی ہے اور
ایک انتہا کو دوسری انتہا سے کاٹا جا رہا ہے انتہا پسندی کے ایک سرے پر
اپنے دین اور ثقافت سے بے خبر میڈیا اور فیشن شوز کے منتظمین اور دوسری طرف
ہر علم سے بے زار طالبان اور وہ بے علم لوگ اور بچے جنہیں یہ سب کچھ دکھا
کر بڑی آسانی سے باور کرا دیا جا تا ہے کہ ایک عام آدمی اور عام مسلمان
اسلام سے کتنی دور اور کتنا بے راہرو ہے اور یوں وہ پاکستان کے خلاف نبرد
آزما دشمن قوتوں کے کام بڑی آسانی سے آجاتے ہیں۔
ہمیں بطور ذمہ دار شہری، بطور منظم معاشرے ، حکومت کو بحیثیت ذمہ دارمعقول
اور مسلمان نمائندہ حکومت کے اور میڈیا کو ایک ایسے موثر ذریعہ کے جو لوگوں
کے خیالات بڑی کامیابی اور آسانی سے موڑ سکتا ہے کو کہ اپنی اپنی ذمہ
داریاں پوری کرنی ہوں گی ورنہ ہمارا معاشرہ اور ثقافت دونوں انتہاؤں پر دین
اور اعتدال پسندی سے جس طرح دور ہوتا جارہا ہے وہ اسے جو ناقابل تلافی
نقصان پہنچا رہا ہے ہماری واپسی کے تمام راستے بند ہو تے جائیں گے خاص کر
بھارتی چینلز زبان کی سمجھ کی وجہ سے جس طرح ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں وہ
انتہائی خطرناک ہے نیوز اور ڈراما چینلز بند کرنے کے بعد ہم سمجھ رہے ہیں
کہ ہم محفوظ ہو چکے ہیں جبکہ وہ ننھے منے ذہن جو کسی کورے کاغذ کی طرح ہر
تحریر کو اپنے اوپر جگہ دینے کو ہر وقت تیار پڑے ہیں اب بھی وہ سب کچھ دیکھ
رہے بچوں کے چینلز کی اکثر یت کا ر ٹونز کے نام پر نہ صرف غیر اسلامی الفاظ
بلکہ نظریات بھی ان بچوں کو سکھا رہے ہیں پیغمبر سے پہلے وہ اوتار کا تصور
سیکھ رہے ہیں کرنے والے تو یہ سب کرتے رہیں گے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ ہم
یہ سب کچھ دکھائیں کیوں اور پھر اس کے رد عمل پر شکوہ کناں رہیں شدت کا رد
عمل تو شدت ہی سے آئے گا اور جب یہ رد عمل آئے تو معاشروں میں شدت پسندی
قدرتی امر ہے اور یہی شدت پسندی پھر دہشت گردی کا روپ اختیار کر لیتی ہے
فطری رد عمل کے طور پر اور دوسرے یہ کہ دشمن کے لیے ایسے لوگوں کو خریدنا
اور ان کے جذبات استعمال کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے اور یہی وہ عوامل
ہیں جس نے ہمیں موجودہ مصائب میں مبتلا کر رکھا ہے مسائل کے حل کے لیے تمام
پہلوؤں کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے اور اپنی نا اہلیوں اور کو تاہیوں
کا ادراک اور پھر ان کی درستگی مزید ضروری، اس لیے دوسروں کو الزام دینے کے
ساتھ اپنے گریبان میں بھی جھا نکنا ضروری ہے۔ |