امریکہ کا لعنتی پادری اور ہم

جب سے محترم و مکرم طالبان نے اسلام کی تشریح کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں،دنیا مسلمانوں کو لبرل اور معتدل ہونے کے مشورے دے رہی ہے۔میں بحمداللہ مسلمان ہوں اور اسلام کی تعلیمات پہ پکا ایمان رکھتا ہوں۔ گو کہ میں اللہ کو مانتا ہوں لیکن اسے میں اپنی بد قسمتی ہی جانتا ہوں کہ میں اللہ کی نہیں مانتا۔ میں نے اسلام جو کہ اللہ کا پسندیدہ دین ہے کا سرسری مطالعہ کیا تو مجھے معلوم پڑا کہ اللہ کریم بھی، اس کا نبی کریم ﷺ بھی بہت لبرل اور معتدل ہیں۔اعتدال ہی اس آفاقی مذہب کی خوبصورتی ہے۔ یہ انتہاؤں کا مذہب ہے ہی نہیں یہ تو توازن کا مذہب ہے ،اعتدال کا دین ہے اور سب کی سننے والا سب کی دلجوئی کرنے والا۔اسی لئے یہ تمام انسانوں کو اللہ کا عیال قرار دیتا ہے۔یہ مظلوم کی داد رسی کرتا ہے۔یہ عورت کو اس کا حق دینے کی بات کرتا ہے۔انسان تو انسان یہ تو جانوروں کے ساتھ بھی مہربانی اور رحم کی بات کرتا ہے۔جن انسانی حقوق کی مغرب آج اپنے سر پہ کلغی سجائے پھرتا ہے یہ حقوق تو میرے آقا و مولاﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایک ایک کر کے بیان فرما دئیے تھے۔

کیا اسلام ہی وہ دین نہیں جو اپنے ماننے والوں کو سبز درخت اور کھڑی فصلیں تک اجاڑنے سے منع کرتا ہے۔کیا یہی وہ دین نہیں جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔کیا اسی دین کی سچی کتاب میں اللہ کریم کا یہ حکم نہیں ملتا کہ ایک انسان کی جان بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔کیا اسلام میں ایک مسلمان اور غیر مسلم کے خون کی ایک جیسی اہمیت نہیں۔کیا اسلام سے زیادہ اعتدال اور مساوات کسی اور دین میں پائی جاتی ہے۔اسلام میں اعمال کی بنیاد نیت پر ہے کیا یہ اسلام ہی نہیں جو بری نیت پہ تو سزا نہیں دیتا لیکن اچھی نیت پہ اپنے ماننے والوں کو اجر کی نوید سناتا ہے۔اسلام ہی آج کے دور کا دین ہے جس کے پاس دنیا کے تمام مسائل کا حل ہے۔کیا یہ اسلام ہی نہیں جو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی سے باقاعدہ منع کرتا ہے۔جو اخلاقی برائیوں کے بارے میں واضح احکامات دیتا ہے۔جو سود کو اللہ کریم کے ساتھ جنگ قرار دیتا ہے۔ہاں یہ سب اسلام ہی کا اعجاز ہے۔یہ اسی سچے دین کا کرشمہ ہے۔یہ آقائے دو جہاں ﷺ کی عطا ہے۔ہاں یہ اللہ کریم ہی کی مہربانی ہے۔

ہم سے نصرت اور فتح کا وعدہ کیا گیا ہے۔اگر ہم دین میں پورے کے پورے داخل ہوں تو نصرت اور کامرانی ہمارے نصیبوں میں لکھ دی گئی ہے۔آج ہم مسلمان ہیں لیکن مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمان قعر مذلت میں ڈوبا ہوا ہے۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کے خاکے نعوذباللہ بنائے جاتے ہیں اور ہم اس کے جواب میں خاطر خواہ احتجاج بھی نہیں کر پاتے۔قرآن کریم کو سر عام نذر آتش کر دیا جاتا ہے اور ہم چند جلسے نکال کے سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا۔ہمیں زیادہ غصہ آجائے تو ہم اپنی ہی چند گاڑیاں جلا ڈالتے ہیں۔کسی غریب کی دکان کو آگ لگا دیتے ہیں۔اور اس سے بھی بڑھ کے اگر ہمیں اپنی مسلمانی دکھانا ہو تو اپنے ہی ملک میں رہنے والے چند غیر مسلم ہمارے غیض و غضب کا نشانہ بن جاتے ہیں اور بس۔ہمارے سامنے کوئی ہماری ماں یا باپ کو گالی دے تو کیا ہم احتجاج کریں گے۔کیا کوئی ہماری ہزار ہزار روپے کے نوٹوں کی گڈی کو آگ لگا دے تو کیا پھر بھی ہمارا رد عمل یہی ہو گا۔قطعاََ نہیں وہاں ہم اپنی جان لڑا دیں گے۔لیکن حضور ﷺ پہ اپنے ماں اور باپ اپنی جان اور اولاد کو فدا کرنے والے پوری طرح احتجاج بھی نہیں کرتے چہ جائیکہ وہ اس خباثت کا بدلہ لے سکیں۔

یہی دکھ اور غم لئے آج پھر میں بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا۔آج چونکہ میرا سینہ امریکی پادری کی قرآن کریم کو جلانے والی حرکت پہ دکھ سے بھرا ہوا تھا اس لئے میں نے سلام کے فوراَ بعد ہی اپنا سوال داغ دیا کہ جناب آپ تو کہتے ہیں کہ اسلام کو فتح ہوگی اسلام کا بول بالا ہو گا۔اسلام کی اونچی شان ہو گی۔ یہ ہے وہ شان جس کا آپ ذکر کرتے ہیں۔کیا یہی وہ فتح ہے جس کا مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ہر طرف مسلمانوں کی دھنائی ہو رہی ہے۔انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔خون مسلم جتنا آج ارزاں ہے شاید کبھی نہ تھا۔آپ ہیں کہ آج بھی اسلام کی نشاط ثانیہ کی لوگوں کو لوریاں سنا رہے ہیں۔مجھے احساس ہوا کہ میرا لہجہ شاید کچھ گستاخانہ ہو چلا ہے لیکن مجھے تسلی اس بات کی تھی کہ میں اپنا کوئی دکھ بیان کرتے ہوئے جذباتی نہیں ہو رہا تھا ۔یہ تو اللہ اس کی کتاب اور اس کے پیارے رسول ﷺ کا معاملہ تھا۔بابا جی نے میری ساری باتیں تو توجہ سے سنیں لیکن جواب دینے کی بجائے کسی بچے کو پانی اور پھر چائے لانے کا کہہ دیا۔پانی آیا تو فرمانے لگے آج شہر کے لوگ بڑے غصے میں ہیں۔میں نے اس مہربانی کا جواب بھی منہ بسور کر ہی دیا۔سکوت کے ایک لمبے وقفے میں چائے آگئی۔

چائے کے دوران بابا جی کہنے لگے۔کیا اسلام تفکر اور تدبر کا حکم نہیں دیتا۔کیا اسلام تحقیق اور اللہ کی کائنات میں غور و فکر کا فرمان نہیں سناتا۔کیا نبی کریم ﷺ نے علم حاصل کرنے کا حکم نہیں دیا۔کیا اسلام نے سائل کو جھڑکنے سے منع نہیں کیا۔کیا دین میں ظلم کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔کیا اسلام میں عدل فاروقی کی مثالیں نہیں ملتیں۔کیا دین میں قانون سب کے لئے برابر نہیں۔کیا نیل کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ پریشان نہیں رہا کرتے تھے۔کیا یہ ساری باتیں جو میں نے آپ کے سامنے عر ض کیں عین اسلام نہیں۔وہ مسلمان جن کا آپ ذکر کر رہے ہیں کیا ان کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ان ساری باتوں پہ عمل پیرا ہوں۔آپ ہی فرمائیے کہ آج تفکر اور تدبر کی نعمت سے کون بہرہ ور ہے؟آج تحقیق پہ کس کا راج ہے؟آج ویلفیئر سٹیٹ کا تصور کن کے ہاں ملتا ہے؟آج کس معاشرے کا حکمران اور ایک عام آدمی برابر ہے؟ہمارے ہاں میرے شہری بابو ! اسلام کے غلبے کا تو ذکر ہے مسلمان کے غلبے کا نہیں۔اسلام یہی ہے ۔جو ان باتوں پہ عمل کرے گا غالب ہو گا جو انہیں چھوڑے گا اس کی ناک بہرحال مٹی میں رگڑی جائیگی کہ یہی اللہ اور اس کے رسول کا حکم اور منشاء ہے۔یاد رکھو !بھکاری کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔جس کی اپنی کوئی عزت نہ ہو وہ کسی اور کی عزت کی کیا حفاظت کر پائے گا؟

اگر واقعی دل سے چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے اللہ کریم تمہارے نبی ﷺ اور تمہاری کتاب کی عزت کریں تو کشکول توڑو اور اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنا لو کہ کسی کو تمہاری دل آزاری کی جرات نہ ہو۔صرف مالی معاملات ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر میدان میں ۔اسی میں امت مسلمہ کی بھلائی بھی ہے اور بچت بھی۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268980 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More