دیکھو تو ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے ؟؟

 آج ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ مالدار ہے اوریہ مالدار اپنے مال کو ضرورتمندوں ومستحق لوگوں کےلئےذرائع بنانے کے بجائےاپنی تجوریوں میں مالوں کو محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ آج ہندوستانی مسلمانوں کا ایک حصہ بنیادی تعلیم، اعلیٰ تعلیم، روزگار، صحت اور معاشی اعتبار سے کمزور ہے ۔ اس کمزور طبقے کو ابھارنے کیلئے صاحب استطاعت افراد اپنے مال کو خرچ کرنے لگیں گے تو یقیناً ہندوستان کے مسلمان بے یار ومدد گار نہیں رہیں گے۔ آج بھی ہمارے درمیان درجنوں ایسے بچے ہیں جواعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان بچوں کے پاس اسکول یا کالج کی فیس اداکرنے کیلئے تو سرکاری وظیفوں سے مدد مل جاتی ہے لیکن ان کے اخراجات اورضروریات کو پورا کرنا انکے بس میں نہیں ہیں۔ کئی بچے آئی اے ایس یا آئی پی ایس کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن انکے گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ اپنے مقصد کی طرف گامزن ہوسکیں۔ کئی پڑھے لکھے نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ کاروبار کریں لیکن ان کے پاس مواقع نہیں ہیںنہ ہی انکے مالی حالات انہیں آگے بڑھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے کئی ایسے مسلمان مالدار بھی ہیں جن کے پاس اپنی دولت کو جمع کرنے کیلئے تجوریاں چھوٹی پڑرہی ہیں۔ وہ اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی تیسری، چوتھی نسل کیلئے بھی سرمایہ اکھٹا کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ جبکہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس معیاری تعلیمی ادارے نہیں ہیں۔ ملک بھر میں دو تین مسلم یونیورسٹیوں کے علاوہ کہیں بھی یونیورسٹیاں قائم نہیں ہوئی ہیں۔ ہندوستان کے 400 سے زائد نیوز چینلوں سے ایک بھی چینل مسلمانوں کی نگرانی میں نہیں چل رہا ہے اورجب بات میڈیا کے متعصبانہ رویہ کی آتی ہے تو مسلمان چلا چلا کرکہتے ہیں کہ ہمارے حق میں بولنے والا نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارےحق میں بولنے کیلئے ہم نے تیاری ہی کب کی ہے؟۔ ہم نے اپنی نسل کے کتنے بچوں کو صحافت میں فروغ پانے کیلئے مدد کی ہے؟ ہم نے کتنے نیوز چینل بنائے ہیں ؟ ہمارے مالداروں کے بچوں کی شادیاں دودو کروڑ روپیوں کے خرچ تک ہورہی ہیں لیکن کبھی اس سے کم خرچ میں بہترین نیوز پورٹل بنانے کیلئے بھی ہمارے پاس دلچسپی نہیں ہے۔ سینکڑوں ایکر زمینیں محض اپنے رعب کیلئے خریدی جاتی ہیں جس کیلئے اربوں روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ لیکن چند سو کروڑ روپیوں میں وقت کا سب سے پاورفل ہتھیار میڈیا بنانے کیلئے ہمارے پاس طاقت نہیں ہے۔ یقین جانئے کہ اگر یہی حالات رہے تو ہم پر بھی ہلاکو خان حملہ ہوگا اور ہمارے سامنے ہماری دولت وزمینیں پیش کئے جائیں گے تاکہ ہمیں احساس ہوجائے کہ ہم نے کتنی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ آج قوم میںمستقبل کیلئے سرمایہ کے طور پر کچھ بھی نہیں بنایا ہے۔ جبکہ غیروں کے پاس اعلیٰ تعلیمی ادارے، صنعتیں ، کارخانے، نیوز چینلس، بڑے بڑے تجارتی مراکز موجود ہیں جو آج کی نسل کیلئے نہیںبلکہ آنے والی نسلوں کیلئے انہوں نے تیار کی ہیں۔ اگر غیر آج کی فکر کرتے تو راشٹریا سویم سیوک سنگھ جو 95 سال قبل دو افراد کی شکل میں قائم ہوا تھا آج دنیا بھر میں اپنی شاخوں کو نہیں پھیلاتا ۔اگر ہم اب بھی اپنی قوم کی رہنمائی کرنے اور قوم کو صحیح سمت میں لے جانے میں ناکام ہوتے ہیں تو یقیناً مسلمانوں کو پھر ایک مرتبہ اپنے وجود کو ختم کرنا پڑسکتاہے بالکل اسی طرح جس طرح سے آج عراق و شام میں مسلمانوں کا وجود ختم ہورہاہے ۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 171939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.