زیست نے اُوڑھ لیا سیاہ لباس زین
جو چاند کی طرح روشن تھی ازل سے
کسی کی زندگی محبت کے سرخ رنگیوں سے بھری پڑی ہے تو کسی کی زندگی نفرت زد ہ
ماحول کی عادی ہوچکی ہے یہاں کوئی تمام عمر وحشت کے نشے میں ڈوبا رہتا ہے
تو کوئی تربت میں اترنے تک انسانیت کی خدمت میں مگن رہتا ہے یہاں ہر بشر
انمول اورخوبیوں خومیوں سے بھر پڑا ہے چاہے آدم کا بیٹا یا حوا کی بیٹی
ہو۔سبھی کی زندگیوں میں ایک حادثہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو غربت کو امیری میں،
بادشاہ کو فقیری میں،مصومیت کو چالاکی میں، خواب کو حقیقت میں،باتونی کو
خاموشی میں ، اداسی کو مسکراہٹ میں بدلتے چندسیکنڈہی لگاتاہے ،یہ چینج
ایساہے جیسے کسی نے بس آنکھ جھپکی ہو۔زندگی کا حقیقی اور روحانی مقصد کم ہی
لوگ سمجھ پاتے ہیں زیادہ ترالٹے راستے سے پلٹ کرسیدھی منزل پکڑتے ہیں جیسے
کیسی نے تمام عمر گنا ہ کئے ہوں اور ۹۰ کی ایج کو پہنچ کرحاجی امان اﷲ بن
جائے۔ہم میں سے کوئی بھی ماں کے پیٹ سے شاعر،صحافی آرٹسٹ ،جنرل،ڈاکٹر،ا
نجینئر یا پروفیشنل ٹیچر بن کے نہیں نکلتابلکہ اپنی قابلیت ، خود اعتمادی
اورجنون کی بدولت ہم معاشرے میں اپنا نام پیدا کر پاتے ہیں۔عام طور پرہمارے
ملک میں نوجوان نسل نشے کی لت ، لڑکی لڑکے ،یا وقتی انجوائمنٹ کے چکر میں
اپنا تعلیمی کیریئر تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ " اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ
گئیں کھیت "کرہ ارض پر انسانی زندگی نمائش اور تجربہ گاہ کی مانند ہے ،کہیں
ہمیں ذات کی نفی اور کہیں اذیت ناک درد سے گزرنا پڑتا ہے، کبھی بہت قریبی
رشتوں کی تپش بھی ہماری روح کو راکھ کر جاتی ہے، کبھی بلاوجہ مسکرانا پڑے
گا کبھی بیوجہ رونا پڑے گا یہی ہے اصل میں زندگی۔خواہش تو یہی ہے سبھی کی،
ہماری زندگی راز رہے مگر کیسے؟ کیا ہم آنکھوں کو کہانی بیان کرنے سے روک
سکتے ہیں ؟کیا ہم وحشت کی پیاس برداشت کرسکتے ہیں؟جواب ضرور دیں۔اب اُس آدم
اور حوا کیطرف آتا ہوں جسے محسوس ہوتا ہے، ہماری زیست میں کچھ نہیں چل
رہا،زندگی اُس جزیرے جیسی ہے جدھر کبھی بھی پانی چڑھ سکتا ہے، ایسے احباب
ماضی سے شہد کی مکھی طرح چمٹے ہوتے ہیں یعنی شدید قسم کے تنہائی پسند۔کبھی
۳۶۵ دن ہمارے پہلو میں رہنے والے ہمارے ناز نخرے اُٹھانے والے بھی ہمیں
اجنبی لگتے ہیں،مگر کہیں کسی سے اچانک آنکھیں چار ہو جائیں وہ پھر قلب وجان
میں عمر بھر کیلئے مکیں ہوجاتا ہے، یہی زندگی کا حُسن ہے۔ میں کسی کو ٹکٹکی
باندھ کے دیکھ رہا تھا!!!مجھے آج بھی یادہے، تم نے میرے کان میں کہاتھا۔ "
یہ دل وغیرہ کچھ نہیں ہوتا ـ "
وہ بھی اب یاد کی موج میں بہنے لگی ہے
جو کہتی تھی یہ دل وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔۔ |