لندن میں ایک پارک ہے جس
کا نام ہائیڈ پارک ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں ایک جگہ مخصوص ہے جہاں
کھڑے ہو کر آپ کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی یہاں تک کہ برطانوی پرائم منسٹر کو
بھی برا بھلا کہہ سکتے ہیں آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا اور نہ ہی روکے گا،
میں نے خود اپنی آ نکھوںسے یہ نظارہ نہ دیکھا ہوتا تو کبھی یقین نہ کرتا،
اب اسی طرح کا منظر”ہماری ویب ڈاٹ کام “ پر دیکھ رہا ہوں جہاں ہر کوئی اپنی
مرضی کے مطابق کسی کو اچھا یا برا کہہ سکتا ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔!ہر کسی کو
اپنی بات کہنے کا حق ہے اخلاق کے دائرہ میں رہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال
لینی چاہیے سنا ہے اس سے صحت پر خوشگوار اثر پڑتا ہے۔میں اس وقت ستر کے
پیٹے میں ہوں زندگی کے بہت سارے نشیب و فراز دیکھ چکا ہوں۔ پاکستان بنتے
ہوئے بھی دیکھا اور بدقسمتی سے ٹوٹتے ہوئے بھی دیکھا! دل کی بھڑاس نکالنے
کا موقع ملا ہے تو کیوں نہ نکالوں ! میں کوئی لکھاری نہیں اگر کوئی چوک ہو
جائے تو نشاندہی کر کے مشکور ہونے کا موقع دیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ جولائی
انیس سو اکہتر میں جب کہ بنگلہ دیش ابھی ہندوستان کے پیٹ میں ہی پل رہا تھا
کہ مجھے ایک کاروباری سلسلے میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں تین ماہ تک
رکنے کا موقع ملا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہاں کے سیاہ سفید کا ٹکا خاں ذمہ وار
تھا، وہاں جو کچھ دیکھا اس پر ایک کتاب ”مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک“
لکھی جا چکی ہے مختصر یہ کہ زیادتیاں دونوں طرف سے ہوئیں جن کو وہاں والوں
نے کچھ بڑھا چڑھا کر دنیا والوں کو اپنا دکھڑا سنایا جبکہ یہاں والوں نے
سارا الزام فوج پر تھوپ کر اپنا دامن پاک کر لیا۔یہاں اس پر بحث نہیں کہ کس
نے کیا کیا،بحث یہ ہے کہ کیوں کیا اس کی جڑ کہاں ہے؟ جیسا کہ میں پہلے بھی
عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان بھی بنتے ہوئے دیکھا تو اس وقت مسلمانوں سے کہا
گیا کہ پاکستان میں زمینیں اور بلڈنگیں تمہارا انتظار کر رہی ہیں اور ساتھ
ہی یہ نعرہ بھی دیا ”پاکستان کا مطلب کیا“ اس کا جواب آج تک نہیں مل
سکا۔بنگالی کو اپنی مادری زبان سے بہت محبت ہے اس کمزوری سے پورا پورا
فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ تمہاری پٹ سن سب مغربی پاکستان والے
لے جاتے ہیں یہاں کا بنا ہوا کاغذ وہاں سے مہر لگ آتا ہے اور مہنگے داموں
تم کو لینا پڑتا ہے۔آج کہاں ہے وہ پٹ سن اور کاغذ بھی امپورٹ ہو رہا
ہے۔ادھر روٹی کپڑے اور مکان کا وعدہ جو کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے سوا
کوئی نہیں دے سکتا ۔معلوم ہوا کہ انسان بنیادی طور پر لالچی ہے کسی میں یہ
مادہ کم کسی میں زیادہ ہے مگر ہے ضرور اور غربت میں اس کا زور چل جاتا ہے
انسان اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔آپ کسی چھوٹے بچے کو بھی
پیسوں یا مٹھائی کا لالچ دے کر کوئی بات منوا سکتے ہیں ، آجکل خودکش حملہ
آور بھی لالچ کے تحت جان دے اور لے رہے ہیں کہ جنت ملے گی یا پیسہ ملے گا
بہرحال ہے ایک ہی کارن جس کے تحت انسان ایک دوسرے کو مرنے مارنے پہ تل جاتا
ہے ۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ کچھ لوگ تو عبادت بھی جنت کے لالچ میں
کرتے ہیں اور کچھ لوگ انعام کے لیے ،لالچ اور انعام میں فرق ہے جیسے ایک
طالب علم خوب دل لگا کر محنت کرتا ہے کلاس میں اول آتا ہے تو اسے انعام
ملتا ہے حالانکہ پڑھنے سے زندگی اسی کی سنورتی ہے ،دوسرا انعام کے لالچ میں
خوب رٹا لگاتا ہے مگر عین وقت پر سب دماغ سے محو ہو جاتا ہے عملی زندگی پر
رٹے کا کوئی اثر نہیں ہوتا سو لالچ اس کے کسی کام نہیں آتا۔ہر کام میں
اخلاص کا ہونا ضروری ہے ۔جزا اور سزا دنیا میں بھی کسی نہ کسی شکل میں نظر
آجاتی ہے کوئی سمجھ کر توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے کوئی دیکھ کر بھی
نہیں سمجھتا، جیسے ہندوؤں کا بھی نرکھ اور سورگ پر عقیدہ ہے کہ اچھے کام
کرو گے تو مرنے کے بعد سورگ یعنی جنت ملے گی اور خراب کام کر کے مرو گے تو
نرکھ یعنی دوزخ میں جاﺅ گے۔ اور پھر خود ہی مردے کو آگ میں ڈال دیتے ہیں
یعنی اپنے ہاتھوں نرکھ میں ڈال دیتے ہیں۔ایک اور بھی بات جو سمجھداروں کے
لیے اشارہ ہے کہ ہندو نابالغ بچوں کو نہیں جلاتے ان کو دفناتے ہیں پوچھو تو
کہتے ہیں کہ بچے تو نشپاپ یعنی معصوم ہوتے ہیں۔یہ بات ان کو سمجھنے کے لیے
کافی ہے کہ پاپی کو جلایا جاتا ہے جبکہ نشپاپ کو نہیں جلایا جاتا، مگر دیکھ
کر بھی نہیں سمجھ آتی تو سمن بکمن ہی کہا جائے گا۔ہر انسان کی خواہش ہوتی
ہے کہ اس کی کوئی سنے اس کے دل کی بھڑاس نکلے،اس کو پتہ چلے کہ آیا اس کی
سوچ صحیح ہے یا اس میں کوئی خامی ہے، اور اس کے لیے ہماری ویب کا یہ پلیٹ
فارم بہت موزوں ہے کہ یہاں تنقید بھی ہوتی ہے اور کوئی اچھی بات ہو تو
تعریف بھی ہوتی ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ہمت اور
اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |