کسی بھی ملک کے ریاستی ادارے اس کے ستون ہوتے ہیں۔ ان
اداروں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو قانون نافذ کرنے اور ملک کی داخلی صورتحال
میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشروں
میں نظم و ضبط اور قوانین کی پابندی و پاسداری انہی اداروں کی مرہون منت
رہتی ہے۔ اگر کسی ملک کے ستونوں کی مضبوطی کا پتہ لگانا ہو تو اس ملک میں
معاشرتی نظم و ضبط اور قوانین کی پاسداری کی شرح دیکھیں۔اگر اداروں کو ایسے
لوگوں کے ہاتھوں سونپ دیا جائے جو مفاد پرست، موقع پرست اور لا فہم ہوں تو
وہ ستون کیلئے دیمک ثابت ہوتے ہیں اور اگر ادارے کی باگ ڈور فرض شناس، با
شعور اور فہم و فراست رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ ہو تو ستون مضبوط اور
معاشرہ صحت مند ہوتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو ذاتی طور پر ہر شخص اپنے معاشرے کیلئے حساس و جذباتی
ہوتا ہے، اور معاشرے سے جرائم کے خاتمے کیلئے وہ اداروں کا بازو بن جاتا
ہے۔لیکن اگر اداروں میں مذکورہ بالا پہلی قسم کے افسران تعینات ہوں تو
جرائم کی پذیرائی ہوتی ہے اور جرائم کی نشاندہی کرنے والوں کو وہیں عبرت کا
نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ کوئی اور جرائم کے خلاف بولنے کیلئے منہ نہ کھولے۔
وہ معاشرے بہت صحت مند اورملک دوست ثابت ہوتے ہیں جہاں کے اداروں کی باگ
ڈور مذکورہ بالادوسری قسم کے افسران کے ہاتھوں میں ہو۔ حال ہی میں جھنگ کے
نواحی علاقے صوفی موڑ چنیوٹ روڈ کی ایک بستی شریف آباد کے رہائشی ظفر کی کم
سن بیٹی شازیہ کا ایک ہوس کے پجاری آصف بھٹی نامی شخص نے صبح سویرے زیادتی
کرنے کی کوشش میں قتل کر دیا۔ اس کے بعد لواحقین کے عزیز و اقارب سمیت سبھی
طبقوں میں ہیجان سا برپا ہو گیا جنہوں نے چنیوٹ روڈ پر شازیہ پر ہونے والے
ظلم کے خلاف احتجاج شروع کر دیا ۔ خبر میڈیا کی زینت بنی اور ملک بھر میں
پھیل گئی۔ جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے آر پی او سے رپورٹ طلب
کر لی۔ کیا عجب اتفاق تھا کہ جس وقت ڈی پی او جھنگ عطا الرحمٰن قریبی درس
گاہ چناب کالج جھنگ میں جنسی ہراسانی کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے اسی وقت
میں یہ حادثہ ہوا۔ اس سانحہ کی خبر پر بہت سے طالب علم بھی مقتولہ کے حق
میں احتجاج میں شریک ہوئے اور شازیہ کو انصاف دو کے نعرے بلند کئے۔ لیکن
کسی نے نہ تو وہاں کوئی توڑ پھوڑ کی اور نہ ہی کسی ادارے کے خلاف کوئی نعرے
بازی کی ۔ہاں! شازیہ کیلئے انصاف کا مطالبہ ضرور کیا ۔ احتجاج کرنے ، سڑک
بلاک کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی مد میں ان لوگوں پر مقدمہ درج کر دیا
گیا ہے۔ اس ایف آئی آر میں پندرہ علاقہ مکینوں کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ
پچیس سے تیس نا معلوم طالب علموں کے نام دئیے گئے ہیں۔ڈی پی او جھنگ کے پی
آر او نے اس پر مؤقف دیتے ہوئے بتایا کہ یہ مظاہرین دراصل مقتولہ کے
لواحقین نہیں تھے بلکہ لواحقین کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے احتجاج کر رہے
تھے۔ ہر ملک کا ایک قانون ہوتا ہے کہ ادارے جہاں کسی معاملے میں قومی
حساسیت شامل ہو ، میں دخل اندازی نہیں کرتے بلکہ امن و امان بحال رکھنے
کیلئے وہاں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بلا کسی کاروائی کوششیں کرتے ہیں۔ یہی
کام ڈی پی او نے کیا اور احتجاج ختم کروایا لیکن اس میں معصوم لوگوں کو ایک
خاص سازش کے تحت پھنسایا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے اسی علاقے کا ایک اور واقع
خبروں کی زینت بنا تھا جب ایک چودہ سالہ لڑکے پر غیر قانونی اسلحہ اور چوری
کا مقدمہ در ج ہوا جوپولیس حراست سے فرار ہو گیا تھا۔ اس کے لواحقین نے بھی
احتجاج کیامگر اس لڑکے پر نہ تو کوئی مقدمہ چلا اور نہ ہی ان احتجاجیوں کے
خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی! یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ پولیس
جھنگ مجرموں کی لگامیں ڈھیلی چھوڑنے کیلئے کام کرتی ہے یا جرائم کے خاتمے
کا؟ کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے لیکن ہمارے اکثر ریاستی اداروں میں
تعینات کچھ بے حس ، احساس و ہمدردی سے عاری اور اپنے فرائض سے غافل لوگ عام
آدمی کو ہر موڑ پر یہ باور کروانے پر تلے ہوئے ہیں کہ یہ ریاست صرف ان کو
لاڈ پیار کرتی ہے جو طاقتور اور امیر ہیں جبکہ عام آدمی کیلئے یہ ایک ظالم
سوتیلی ماں ہے۔ اس کے باوجود سلام ہے اس ریاست کی عوام الناس پر جو سب کچھ
برداشت کرنے کے باوجود اس ریاست کو اپنی سگی ماں سمجھتی ہے اور اسکی سلامتی
کیلئے دعاؤں کے علاوہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان بھی نچھاور کرنے سے گریز نہیں
کرتی۔ جبکہ طاقتور اور امراء کی اکثریت اس ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں
کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی۔ اب بھی وقت ہے حکمرانوں کیلئے کہ وہ وقت دور
نہیں جب یہ عام آدمی بھی ریاست کیلئے اپنی سوچ اور پیار کو بدلنے پر مجبور
ہو جائے۔ مجھے تو وہ وقت سوچ کر ہی خوف آتا ہے ۔ کیونکہ سالہا سال تپنے
والا لاوہ جب پھٹتا ہے تو ہر طرف تباہی ہی تباہی ہوتی ہے۔ پولیس نے احتجاج
کرنے والوں پر مقدمہ درج کر کے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ، ورنہ ایسا
سانحہ کہیں بھی ہوتا ، احتجاج ہونا ایک عام بات ہے۔ اور پر امن احتجاج
جمہوریت کا حصہ ہے جیسے شازیہ مرحومہ کیلئے کیا گیا۔ پولیس نے لوگوں کی
آواز دبانے کیلئے جو مقدمہ درج کیا ہے اس کا مقصد باقی غریب اور شریف لوگوں
کو آگاہ کرنا ہے کہ آئندہ چاہے کوئی بھی انسانی روپ دھارے درندہ تمہاری
معصوم بیٹیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دے لیکن تمہیں
ہرگز یہ حق نہیں کہ احتجاج کرو۔ بھلا غریب آدمی کو احتجاج کا حق کس نے دیا
؟ اس مقدمے سے یہ بھی باور کروانا مقصود ہے کہ نہ تم فضل الرحمٰن جیسی طاقت
رکھتے ہو، نہ وکلاء جیسی حیثیت ، نہ ینگ ڈاکٹرز والی صلاحیت اور نہ ہی پی
ٹی ایم جیسی غنڈہ گردی ۔ تم غریب لوگ اور تمہارے بچے اس معاشرے میں کیڑے
مکوڑوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ ہمارا یہ بھی تم پر احسان ہے کہ میڈیا پر خبر
اور حکام کے نوٹس سے ہم نے قاتل گرفتار کر لیا ۔ اب ہم پر پھول پھینکو اپنی
بچی کے سوگ کو بھول کر۔ اور میری ان گناہ گار آنکھوں نے وہ منظر بھی دیکھا
جب پولیس کے کہنے پر بچی کے لواحقین سے پھول منگوائے گئے اور پولیس کے اوپر
وارے گئے۔ اس طرح کا بھیانک روپ دیکھ کر ایک حساس آدمی کا ذہن بغاوت کی طرف
مائل نہ ہو تو کیا ہو؟اﷲ ہمارے ملک پاکستان کی خیر کرے۔
|