یوم ِ آئین :بابری مسجد اور سبری مالا میں سنگھ پریوار کا دوہرا معیار

ایودھیا تنازع میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آجانے کےبعد بھگوا خیمہ میں موہ مایا کی مہا بھارت چھڑی ہوئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ و جمعیت العلماء نے اس فیصلے پر اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے نظر ثانی کی اپیل داخل کرنے کا اعلان کیا ۔ اس سے نادانستہ طور پر حکومت کو راحت مل گئی کیونکہ سپریم کورٹ میں اس کی سماعت کے لیے اچھا خاصہ وقت لگ سکتا ہے۔ اس سے آپس میں برسرِ پیکار سنتوں اور مہنتوں کو سمجھانے ، بجھانے اور ڈرانے دھمکانے کے لیے سرکار کو وقت مل جائے گا ۔ حکومت کی جانب سے قائم کیے جانے والے ٹرسٹ میں اپنی حصہ داری کے لیے فکر مند سادھو سنتوں کو اب یہ فکر ستانے لگی ہے کہ کہیں کورٹ اس نظر ثانی کی اپیل کو قبول کر کے معاملہ التواء میں نہ ڈال دے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تنازع سے غیر متعلق اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد کے صدر مہنت نریندر گری نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کے اعلان پر تبصرہ کرتے ہوئے بن مانگے یہ مشورہ دے دیا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو مندر کی تعمیر میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔

مہنت نریندر گری کا معاملہ اگر مشورے کی حد تک ہوتا تو اسے شکریہ کے ساتھ لوٹایا جاسکتا تھا انہوں نے یہ فرمان بھی جاری کردیا کہ عدالت کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ایسے لوگوں کے خلاف وطن سےغداری کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ مویشی اور ماہی پروری کے مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے بھی ایودھیا میں رام جنم بھومی پر سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل نہ کرنے والوں کو غدار قرار دے دیا ۔ وزیر موصوف نے کہا ہندوستانی جمہوریت کی ستم ظریفی یہ ہے کہ آج بھی ملک میں ایسے لوگ چھپے بیٹھے ہیں جنہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول نہیں ہے اور وہ اس کی خلاف ورزی کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں جانے دیتے۔ ایسے لوگوں کو ملک کی جمہوریت کے لئے بدنما داغ قرار دیتے ہوئے وہ بولے اگر وہ عدالتی نظام پر یقین نہیں رکھتے ہیں تو دوسرے ممالک کے دروازے ان کے لئے کھلے ہیں۔ یہ وہی گری راج سنگھ جنہوں نے نتیش کمار کو نریندر مودی کی مخالفت کرنے کی پاداش میں پاکستان بھیجنے کا عندیہ دیا تھا لیکن اب ان کے زیر قیادت بہار میں حکومت کررہے ہیں ۔

مہنت نریندر گری اور وزیرگری راج سنگھ شاید یہ نہیں جانتے کہ نومبر ۲۰۱۸؁ میں اسی سپریم کورٹ نے سبری مالا کے تنازع میں ایک فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے خلاف اکھل بھارتیہ ملیالی سنگھ کے علاوہ تین افراد نے تو رِٹ پٹیشن داخل کردی اور چھپنّ عدد ریویو پٹیشن کی درخواستیں بھی جمع کی گئیں۔ اس وقت کسی سپریم کورٹ کے تقدس کا خیال نہیں آیا ۔ کسی سنت مہنت نے اس کی خلاف ورزی کو ملک و قوم کے خلاف نہیں کہا بلکہ سب نے تائید کی۔ نہ تو کوئی ان کے خلاف غداری کا قضیہ لے کر عدالت پہنچا۔ ایسا کرنے والوں کو ہندوستانی جمہوریت کو قصوروار ٹھہرانے کا خیال بھی کسی من میں نہیں آیا اور ان کے لیے کسی نے سری لنکا کا دروازہ نہیں کھولا (کیرالہ سری لنکا خاصہ قریب ہے)۔
 
سپریم کورٹ کے جن ججوں کی یہ لوگ تعریف وتوصیف کررہے ہیں انہوں نے سبری مالا کی ریویو پٹیشن کو قبول کر کے بڑی بنچ کے حوالے کردیا۔ یہ عجب تماشہ ہے کہ ایک مذہبی معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست پسندیدہ ہے اور دوسرے پر غداری ہے۔عدالت عظمیٰ نے سبری مالا مندر میں سبھی عمر کے خواتین کو اجازت دینے والے اپنے فیصلے کی جانچ کےلیے بڑی بینچ میں بھیج دیا ہے لیکن اپنے پرانے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ سپریم کورٹ کے مطابق فی الحال 10 سے 50 سال کی خواتین کے داخلے پر پابندی نہیں ہے۔ وطن عزیز میں ۲۶ نومبر کو ’یوم آئین ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت اپنے دستوری حق کا استعمال کرنے کی خاطر‘بھوماتا بریگیڈ کی بانی اور خواتین کے حقوق کی کارکن ترپتی دیسائی سبری مالا کے ایپا مندر کا درشن کرنے لیےپہنچی۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی بنیاد پر درشن کیلئے آئی ہیں۔ ان کے ساتھ چار دیگر خواتین ہرناشی کامبلے ، سایہ ، پانڈورنگ اور منیشی شنڈے تھیں۔ ان کے ساتھ مقامی خواتین میں سے بینو امّینی اور کنکدرگائی بھی تھیں جنہیں گزشتہ سال مندر کے اندر داخل ہونے میں کامیابی ملی تھی ۔

دیسائی جب پولیس سیکورٹی لینے کے لئے شہر کوچی کے کمشنر کے دفتر پہنچی تو وہاں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے منسلک‘ ہندو ائیکیا ویدی’ اور دیگر تنظیموں نے مندر میں دیسائی کے داخلہ پر احتجاج کیا اور انہیں واپس جانے پر مجبور کردیا۔ پولس نے انہیں تحفظ تک فراہم نہیں کیا۔ اس دوران بینو پر حملہ بھی ہوا اور انہیں اسپتلا پہنچایا ۔ اس خاتون کو اپنے دستوری حق کے استعمال سے روکنے والے ۰۰۰۰۰۰۰کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس موقع پر کسی بھی دیش بھکت کو سپریم کورٹ کے تقدس کا خیال نہیں آیا الٹا وہ لوگ عدالت عظمیٰ کے احکامات پامال کرتے نظر آئے ۔ اس کو کہتے ہیں منافقت ۔ مہنت گری راج نے پرسنل لاء بورڈ اور اویسی کے تار سرحد پار سے جوڑ کر تحقیقات کا مطالبہ تک کردیا لیکن خیر ان کی سنتا کون ہے؟ مہنت نریندر گری اور گری راج سنگھ کو چاہیے کہ وہ پرسنل لاء بورڈ کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اس لیے کہ بورڈ نہ ان سے مرعوب ہو گا اور نہ ڈرے گا ۔ ان دونوں کی بھلائی اس میں ہے کہ اپنی توانائی سادھو سنتوں کو سمجھانے بجھانے میں لگائیں اور کیرالا کے مظاہرین کو قابو میں رکھیں ۔ فارسی کی ایک مثل ہے ’’خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت‘‘۔ یعنی خود تو غلط کام کرنا، دوسروں کو نصیحت کرنا۔ فضیحت کا مطلب رسوائی، ذلت، بدنامی بھی ہے اور وہ فی الحال سنگھ پریوار کا مقدر بنی ہوئی ہے۔

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1453364 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.