ڈاکٹر محمد عارف28نومبر1995ء کو انتقال کر گئے اناﷲ
وانا الیہ راجعون۔ بے شک ہم سب اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے
والے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں امریکہ میں علاج کی غرض سے مقیم تھے آخرکار
معدے کا موذی مرض انہیں موت کی آغوش میں لے گیا یوں تو پچھلے کئی سالوں سے
وہ بیمار تھے۔ اس سے پہلے ان کے کئی آپریشن بھی ہو چکے تھے لیکن ان کی جواں
مردی نے بیماری کو اعصاب پر حاوی نہ ہونے دیا۔ ان دنوں وہ پاکستان
ایڈمنسٹریٹو کالج میں ڈائریکٹر ریسرچ‘ اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے صدر اور
تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے فعال ٹرسٹی تھے۔
اس سے پہلے ڈاکٹر صاحب پنجاب بینک کے چیئرمین کے عہدے پر فائز بھی رہے اور
اپنے دور میں انہوں نے بینک آف پنجاب کو ترقی کی نئی منزلوں سے روشناس
کروایا بلکہ ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے کئی ایسے اقدامات کیے جن کی وجہ
سے آج بھی بینک کے ملازمین ڈاکٹر صاحب کے لیے اپنے دل میں خاص مقام رکھتے
ہیں۔ ایک جانب وہ بینک آف پنجاب کے چیئرمین تھے دوسری جانب پنجاب صنعتی
ترقیاتی بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی کام کر رہے تھے۔ یہ بطور
منیجنگ ڈائریکٹر ان کی ملازمین سے محبت اور شفقت کا ہی نتیجہ تھا کہ جہاں
پہلے بمشکل دو بونس دیئے جاتے تھے وہاں ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے دس بونس ملنے
لگے۔ وہ ادارہ جو پہلے عدم استحکام کا شکار تھا ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے نہ
صرف مستحکم ہوا بلکہ اس ادارہ نے کروڑوں روپے کا منافع بھی کمایا۔ میں تو
یہ کہوں گا کہ پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ کسی نہ کسی شکل میں اگر اب تک قائم
ہے تو یہ صرف ڈاکٹر محمد عارف کی وجہ سے ہے وگرنہ اس ادارے کو ختم کرنے کے
لیے بورڈ آف ڈائریکٹرمیٹنگ میں فیصلہ ہو چکا تھا اور مجھ جیسے بہت سے لوگ
اس ادارے کو چھوڑ کر جا چکے تھے۔
مجھے آج تک ان کا وہ قول یاد ہے کہ ادارے ٹوٹنے کے لیے نہیں بنتے کیونکہ
بہت سے انسانوں کا مستقبل ان سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پی
آئی ڈی بی کو توڑنے کی فائل ان کی میز پر پہنچی انہوں نے نہ صرف اس فیصلے
کی مخالفت کی بلکہ ممکن حد تک معاملے کو التوا میں ڈال دیا۔ ڈاکٹر صاحب پی
آئی ڈی بی کے منیجنگ ڈائریکٹر بننے سے پہلے چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ
بھی رہے۔ جہاں انہوں نے ملازمین کے لیے PND فلیٹس کے نام سے ایک خوبصورت
اور کشادہ کالونی بنائی جو جوہر ٹاؤن جیسے مہنگے علاقے میں قابل دید ہیـ
وہاں رہنے والے لوگ ڈاکٹر صاحب کے لیے آج بھی دعا گو ہیں۔ آپ نے سیکرٹری
فنانس کے انتہائی اہم عہدے پر کام بھی کیا لیکن اس بات پر ہر شخص متفق ہو
گا کہ شاید ہی ڈاکٹر صاحب نے کسی کے خلاف کوئی اقدام اٹھایا ہو۔ جس نے
ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھوڑا سا بھی کام کیا ۔ وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ آپ
انتہائی مثبت سوچ کے مالک تھے اور ہمیشہ سچائی اور اچھائی پر یقین رکھتے
تھے۔ ہزاروں غریب نوجوان ان کے ہمدردانہ جذبے کی بدولت ملازمت جیسی نعمت سے
فیض یاب ہوئے۔
آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں بی اے آنرز کیا ایم اے معاشیات
میں پہلی پوزیشن حاصل کی گورنمنٹ کالج سے پانچ رول آف آنرز حاصل کیے۔ اس کے
علاوہ ڈاکٹر صاحب سول سروس آف پاکستان کے تحریری امتحان میں مشرقی اور
مغربی پاکستان دونوں حصوں سے اول رہے۔ انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے قانون
کی اور ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی ۔ بوسٹن
یونیورسٹی سے ایم اے پولیٹیکل اکانومی اور معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں
حاصل کیں۔
آپ نے عملی زندگی کا آغاز سٹیٹ بینک آف پاکستان سے کیا۔ مشرقی اور مغربی
پاکستان میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ اسسٹنٹ کمشنر‘ سیکرٹری پبلک
سروس کمیشن‘ ڈائریکٹر انڈسٹریز‘ ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر‘ چیف اکانومسٹ بھی
رہے آپ جہاں بھی گئے اعلیٰ اخلاق کے باعث لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے
رہے۔
ڈاکٹر صاحب نہ صرف سول سروس میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے بلکہ ادبی
دنیا میں بھی ایک مورخ‘ مصنف اور دانشور کی حیثیت سے نام پیدا کیا۔ انہوں
نے نہ صرف انگریزی زبان میں بہت سی کتابیں لکھیں بلکہ اردو میں بھی طبع
آزمائی کی ان کی کئی کتابیں مارکیٹ میں اب بھی موجود ہیں جو نہ صرف طلبہ
وطالبات کے لیے ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہیں بلکہ نئی نسل کی رہنمائی کا
اہم فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد عارف عظیم محب وطن انسان تھے وہ ملکی حالات پر اپنی تشویش کا
اظہار اپنی تحریروں اور تقاریر میں اکثر وبیشتر کیا کرتے تھے۔ ان کے دل میں
وطن کا درد تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک جن عظیم مقاصد کی تکمیل کے لیے حاصل
کیا گیا ہے ہر پاکستانی کو ان مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔
انہوں نے اپنا دامن ہمیشہ سیاسی وابستگی سے پاک رکھا۔ وزن کسی خاص سیاسی
پارٹی کے پلڑے میں ڈالنے کی بجائے اپنا خون وطن عزیز کی بنیادوں میں سمویا۔
ڈاکٹر صاحب کئی سالوں سے اولڈ راونیز ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور اپنے
دورصدارت میں انہوں نے اولڈراوین کی تنظیم کو بہت وسعت دی اور فعال بنایا۔
ان کی سرپرستی میں اولڈراوین کی دلچسپی کے لیے کئی رنگارنگ پروگرام منعقد
ہوئے۔ اولڈراوین کی آخری تقریب جو الحمرا ہال نمبر1میں منعقد ہوئی اس
پروگرام کی جاذبیت کا ایک پہلو ڈاکٹر محمد عارف کی جذبہ حب الوطنی میں ڈوبی
ہوئی تقریر تھی۔ انہوں نے اثرانگیز اور خیال افروز خطاب سے ہال میں موجود
سامعین کے دلوں کو موہ لیا کئی احباب کی آنکھوں میں وطن کی محبت کے آنسو
بھی دیکھے گئے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے حالات کا نقشہ اس خوبصورتی سے
کھینچا کہ سامعین کو یہ احساس ہی نہ رہا کہ یہ تقریر شروع ہوئے بیس منٹ گزر
چکے ہیں۔ میں خود بھی اس تقریب میں موجود تھا اور میں نے اپنے کانوں سے وطن
عزیز کی محبت میں ڈوبے ہوئے وہ الفاظ سنے۔
یہ بات بھی ناقابل فراموش ہے کہ ڈاکٹر محمد عارف جنہوں نے تعلیمی‘ انتظامی
اور فنی میدانوں میں گرانقدر کامیابیاں حاصل کیں اس کے صلے میں حکومت
پاکستان نے آپ کو صدارتی تمغہ ’’حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا۔ آپ کی خداداد
صلاحیتوں سے نہ صرف وطن عزیز بلکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی فیض یاب ہوتے
رہے۔ جہاں آپ نے پانچ سال تک خدمات انجام دیں۔
بہرکیف ڈاکٹر محمد عارف کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں
پھیل گئی اس عظیم انسان کی رحلت کی خبر سنتے ہی ہر آنکھ پرنم ہو گئی۔ ڈاکٹر
صاحب کو چاہنے والے بے ساختہ ان کی رہائش گاہ کی جانب چل پڑے۔ جہاں ڈاکٹر
صاحب تو موجود نہیں تھے وہاں ان کی یادیں بکھری ہوئی تھیں اس گھر میں پڑی
ہوئی اک اک چیز ان کی سادگی انسانوں سے محبت اور معصومیت کا ثبوت پیش کر
رہی تھی۔ زاہد عارف جو ڈاکٹر صاحب کا اکلوتا بیٹا ہے‘ آنے والے سوگواروں کو
حوصلہ دے رہا تھا حالانکہ آنے والے لوگ ایک محسن سے محروم ہوئے تھے لیکن
زاہد عارف تو مشفق باپ کی شفقت ہی سے محروم ہو چکا تھا۔
30نومبر کی دوپہر تک یہ خاندان غم اور صدمے سے نڈھال تھا ان کے لیے یہ 72
گھنٹے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھے۔ خدا نے زاہد عارف کو حوصلہ دیا وہ عزم
واستقلال کی زندہ مثال بنے سب سوگواروں کو حوصلہ دے رہا تھا۔ وہ جانتا تھا
کہ اگر آج بکھر گیا تو سمیٹنے والا کوئی نہ ہوگا۔ اس لیے ہر حال میں اسے
حوصلہ رکھنا تھا۔ اس خاندان کے لیے‘ جن کی امیدوں کا وہ واحد مرکز تھا۔ اسے
ہمت رکھنی تھی ان بہنوں کے لیے جن کے ہاتھ ابھی پیلے کرنے تھے ذمہ داریوں
کا لامتناہی بوجھ ان کے کاندھوں پر آن پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے زاہد
عارف کو بہت حوصلے کی ضرورت تھی۔ ڈاکٹر محمد عارف ایک عالم‘ باعمل‘ راست
باز مسلمان اور صبر وآشتی کا پیکر تھے۔ اگر ان کی خوبیوں کو شمار کیا جائے
تو شاید الفاظ ختم ہو جائیں اور خوبیاں بیان نہ ہو سکیں۔ ان کی دیانتداری
کی اس سے بہتر مثال اور کیا دی جا سکتی ہے کہ مرنے سے پہلے انہوں نے اپنی
اہلیہ سے وصیت کی تھی کہ ان کا جنازہ اس وقت تک نہ اٹھایا جائے جب تک ان کے
گھرمیں بینک یا کسی اور ادارے کی کوئی چیز موجود ہو چنانچہ جنازہ اٹھانے سے
پہلے ان کے گھر میں موجود تمام اشیاء متعلقہ محکموں کو بھجوا دی گئیں۔
دراصل ڈاکٹر صاحب خد اکے حضور پیش ہونے سے پہلے اپنا دامن صاف رکھنا چاہتے
تھے۔
30نومبر جمعہ کی صبح ڈاکٹر محمد عارف کی میت لاہور پہنچی اور نمازجمعہ کے
بعد جی او آر کی جامع مسجد کے باہر نماز جنازہ کے بعد ہزاروں سوگواروں کی
موجودگی میں ڈاکٹر محمد عارف کے جسدخاکی کو (جو ایک عظیم انسان‘ ایک عظیم
مفکر اور محب وطن انسان تھے) اشکبار آنکھوں‘ سسکیوں کے ماحول میں سپردخاک
کر دیا گیا۔
انسان تو روز مرتے ہیں لیکن ڈاکٹر محمد عارف کی ناگہانی موت سے نہ صرف سول
سروس آف پاکستان بلکہ ادبی دنیا بھی ایک دردمند انسان کے قلم سے محروم ہو
گئی ہے اولڈراوین ایسوسی ایشن بھی ڈاکٹر صاحب کی رحلت سے یتیم ہو چکی تھی۔
بے شک ایسے عظیم المرتبت انسان کہاں مرتے ہیں بلکہ وہ تو ہمیشہ لوگوں کے
دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ڈاکٹر محمد عارف سے مجھے بھی والہانہ محبت تھی اور اب بھی ہے- اس محبت کی
وجہ ان کا مشفقانہ رویہ تھا جو بطور منیجنگ ڈائریکٹر PIDB اور چیئرمین بینک
آف پنجاب انہوں نے مجھ سے روا رکھا بلکہ بینک میں میری ملازمت بھی ان کی
دریا دلی کی ایک مثال ہے۔ یہاں یہ ذکر کرتا چلوں کہ گریجویشن مکمل نہ ہونے
کی بنا پر اس وقت مجھے بینک میں ملازمت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر سید ریاض احمد کی سفارش پر ڈاکٹر محمد عارف نے بطور خاص مجھے ملازم
رکھ لیا۔ میں سمجھتا ہوں یہ ان کا مجھ پر وہ احسان ہے جس کو ساری زندگی
نہیں اتار سکتا۔ مرنے کے بعد ایک رات وہ مجھے خواب میں ملے بڑے عالیشان
دفتر میں براجمان تھے اور میری حوصلہ افزائی فرما رہے تھے۔ آج بھی ڈاکٹر
محمد عارف مجھے بہت یاد آتے ہیں کیونکہ ان جیسے خدا ترس‘ ہمدرد اور مشفق
لوگ ڈھونڈنے سے نہیں ملتے۔ |