ہم بھی بڑے من موجی لوگ ہیں ۔جذباتی اور بہت حد تک غیر
سنجیدہ بھی۔
ہر بات میں ہنسی مذاق کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔چپکے بیٹھنا
ہمیں آتا ہے نہ بھاتا ۔ہماری قومی کھیل ہلا گلہ اور شغل میلہ جبکہ ہابی گلہ
کرنا ہے۔قومی بیماری ہے دھوکا کھانا یا دھکے کھانا۔ سیاست کے میدان میں
چونکہ ’’تفریح ‘‘ کے وسیع مواقع مل جاتے ہیں سو عام و خاص اسی میدان میں
ٹھیلے لگائے رکھتے ہیں ۔روایتی سیاست دان جب سے ’’مصلحت ‘‘کا شکار ہوئے ہیں
لوگ ان سے اکتانے سے نظر ائے ہیں ۔یہ تو بھلا ہو سونامی اور انقلابی لوگوں
کا کہ جن کے دم قدم سے تصویر کائنات میں رنگینی پیدا ہوئی ہے۔سو نہ یہ خود
چین سے بیٹھتے ہیں نہ قوم کو’’ سا‘‘ لینے دیتے ہیں۔
'’ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق‘‘
کے مصداق نعروں ، وعدوں ، مطالبوں اور فتووں کی چیخ پکار میں کان پڑی آواز
سنائی نہیں دیتی۔
سچ ہے
’’موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘‘ ۔
ہم بیک وقت تجربے تبدیلی اور انقلاب کی زد میں ہیں ۔اس تثلیث نے ہم جیسے
کمزور دل لوگوں کے ہوش کچھ ایسے ٹھکانے لگائے ہیں کہ اب تو سیاست کے تصور
سے ہی جی متلانے لگا ہے۔
انتخاب ،احتساب اور انقلاب نے ہرچہرہ بے نقاب کر ڈالا ہے۔خواب عذاب کیا
ہوئے ایسے ایسے بھیانک روپ دیکھنے کو ملے ہیں کہ اب تو اپنی ذات پر سے
اعتبار اٹھنے لگا ہے۔
ایسے ماحول میں اس تثلیث سے ہٹ کر کچھ کہنا یقیناً بوریت کو ہوا دینے کے
مترادف ہو گا۔
لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کبھی بور کرنے اور بور ہونے میں کوئی
حرج بھی نہیں۔آج مجھے ’’نان ایشو‘‘طرز کی ایک خبر پر بات کرنی ہے ۔جو بظاہر
مختلف ہیں لیکن ان کے باہمی تعلق کو مسترد کرنا بھی ممکن نہیں ۔پہلی خبر
خواندگی کے حوالے سے ہے۔
جس میں دیس کا نام خوب روشن ہوا ہے۔ 182ممالک میں وطن عزیز کا159واں نمبر
کتنے فخر کی بات ہے۔ہمیں اس سے کیا غرض کہ چوتھائی افریقی ممالک کی شرح
خواندگی 70سے 80فیصد ہو چکی ہے اور 77فیصد اسلامی ممالک اسلام کے اس قلعے
کو تعلیمی میدان میں پچھاڑ چکے ہیں۔ہماری 58فیصد شرح خواندگی کے مقابلے میں
یورپ اورجنوبی امریکہ کے تمام ،ایشیا کے 65 فیصد اور دنیا کے نصف سے زائد
ممالک میں شرح 90 سے 100 فیصد ہو چکی ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ صرف 20 فیصد
اسلامی ممالک یہ ہدف حاصل کر پائے ہیں ۔او ر ظاہر ہے ہم ان میں نہیں آتے کہ
ہم تو 47 اسلامی ممالک میں بھی 34 ویں نمبر پر ہیں۔اپنے خطے میں بھی ہم
مالدیپ(97)چین (95.9)سری لنکا(94.2 )بھارت(74)اور نیپال (68.2)سے بھی پیچھے
ہیں ۔تاہم مقام’’فخر ‘‘ہے کہ ہم بنگلہ دیش(55.9)اور بھوٹان(52.8)سے کچھ آگے
ہیں۔پرائمری ایجوکیشن بھی صورتحال حسب روایت مایوس کن ہے۔134ممالک میں
ہمارا نمبر 117واں ہے۔ پاکستان نے 2003میں’’ ڈاکارڈیکلیریشن ‘‘پراس عزم کے
ساتھ دستخط ثبت کئے تھے کہ 2015 تک ملک میں شرح خواندگی 85 فیصد پر لائیں
گے۔
موجودہ صورت حال میں اسے حاصل کرنا معجزے سے بڑھ کر ہوگا۔پنجاب میں سب سے
زیادہ شرح خواندگی روالپنڈی(75)جب کہ سندھ میں کراچی(78)کی ہے۔سندھ میں سب
سے کم جیکب آباد(34)جبکہ پنجاب میں کم ازکم 36فیصد مظفرگڑھ کی ہے۔یہ تو رہی
ابتدائی درجے کی تعلیمی صورت حال۔اعلی ٰسطحی تعلیم کاذکر کریں تو وہاں بھی
حالات حسبِ سابق ابتر ہیں ۔
عالمی ادارے نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کی جو نئی رینکنگ جاری کی ہے وہ
بھی ہوش اڑا دینے والی ہے۔ پہلے سومیں پاکستا ن تو رہا ایک طرف ایک بھی
سلامی ملک جگہ نہیں بنا پایا۔اس درجہ بندی میں سو میں سے تیس ’’یونیز‘‘کا
تعلق امریکہ سے ہے۔ہانگ کانگ (3 ) سنگا پور( 2)اور تائیوان( 1 )جیسے چھوٹے
ممالک بھی سو کی فہرست میں موجودہیں۔اور تو اور افریقہ کی ایک
یونیورسٹی(145)اسلامی دنیا سے آگے ہے۔جبکہ ہم دوسو میں جگہ نہیں پا سکے۔حد
تو یہ ہے کہ ایشیا کی پہلی سو یونیز میں بھی ہماری کسی یونیورسٹی کا نام
شامل نہیں ۔ہم سے تو ملائیشیا اچھا جس کا بتیسواں نمبر ہے ۔بھارت تک ہم سے
آگے ہے۔وہ اڑتیس پر ہم ایک سو چھ پر۔اس فہرست میں ہماری پانچ ’’بہترین‘‘
یونیز میں انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اسلام آباد(106) ،آغاخان یونیورسٹی(
116)،قائد اعظم یونیورسٹی(123)نسٹ(129)اور لمز (181)ہیں۔کراچی یونیورسٹی کا
نمبردو سو دو ہم ہے۔جانے میری وسیبی یونیزکس قطار میں ہے؟
کیا ایسی خبریں ہمارے سیاپا فروش دھواں چھوڑے کرنٹ افیئرز کا موضوع بن سکتے
ہیں ۔ نہیں ہرگز نہیں کہ ان کی نظر میں تو یہ نان ایشو ہیں
|