|
ہمارے معاشرے میں آج بھی رشتے والے اپنے چبھتے ہوئے جملوں
اور سنگ دل خواہشات سے کسی بھی بیٹی والے کے دل کو چھلنی کر سکتے
ہیں۔۔۔ایسے ہی چند جملے ہم ان لوگوں کو یاد کروا رہے ہیں جو کسی کے گھر یہ
بول کر تو چلے گئے لیکن والدین اور بیٹیوں نے اس کا درد محسوس کیا۔۔۔
ہم بڑی کو نہیں چھوٹی کو دیکھنے آئے ہیں
عموماً جن گھروں میں ایک سے زائد بیٹیاں ہوں اور خاص طور پر ان کے درمیان
زیادہ عمر کا فرق نا ہو تو ان میں بڑی سے پہلے چھوٹی بیٹیوں کے رشتے ہوجاتے
ہیں- اور والدین یہ فیصلہ کرتے ہوئے اس لئے گھبراتے ہیں کیونکہ بڑی بیٹی
گھر میں بیٹھی رہ جاتی ہے اور ایک کے بعد ایک چھوٹی بیٹیوں کے نمبر آتے
رہتے ہیں۔۔۔والدین کے لئے رشتہ دیکھنے والوں کا جملہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے
جب وہ یہ کہتے ہیں ’’ہم بڑی کو نہیں چھوٹی کو دیکھنے آئے ہیں ‘‘۔۔۔غور کریں
تو بڑی بیٹی کے درد کو بھی محسوس کریں جو چھوٹی کے آگے مسترد کردی گئی۔۔۔
|
|
اصل میں ہمارا ایک ہی بیٹا ہے اور اس کو
بہت ہی خوبصورت بیوی چاہئے
بیٹا ایک ہو یا دو۔۔۔تربیت میں کوتاہی کرنے والوں کے لئے یہی پیغام ہے کہ
بچوں کو حسن پرست بنانے میں نقصان آپ کا ہی ہے۔۔۔جو لڑکے حسن میں زرا سی
بھی کمی کو بنیاد بنا کر ایک کے بعد ایک لڑکیوں کو مسترد کرتے ہیں ، وہ
درحقیقت انسانیت کی قدر سے ناواقف ہوتے ہیں اور ان میں خود شدید قسم کی
احساس کمتری پائی جاتی ہے جو ایسے مواقع پر کھل کر باہر آتی ہے جب وہ خود
کسی کو کمتر یا کم حسن کا درجہ دیتے ہیں۔۔۔یہ وہ جملہ ہے جو نا صرف والدین
کے لئے تکلیف دہ ہے بلکہ اس لڑکی کے لئے بہت بڑا ظلم ہے جسے اس کی ظاہری
شکل و صورت یا جسمانی ساخت پر پرکھا اور رد کیا جائے۔۔۔
آپ کا گھر تھوڑا چھوٹا ہے۔۔۔
یہ وہ جملہ ہے جو سمجھ سے باہر ہے۔۔۔رشتے والے ایک لڑکی کو اس چھوٹے گھر سے
لینے آئے ہیں۔۔۔تو پھر اس لڑکی کے گھر کو نشانہ ہی کیوں بنایا جائے جہاں
لڑکی نے رہنا نہیں ہے۔۔۔عموماً ہمارے معاشرے میں لڑکیاں ذرا بڑی ہوتی ہیں
اور والدین کو فکر ستاتی ہے کہ کسی ایسی جگہ گھر لے لیں جہاں علاقہ اچھا ہو،
صاف ستھرا ہو، تھوڑا کھلا ہو، سیڑھیاں نا ہوں۔۔۔لیکن یہ سوچ سوچ ہی رہ جاتی
ہے اکثر ۔۔۔کیونکہ مہنگائی کا جن یہ فیصلے لینے نہیں دیتا اور رشتے کا وقت
آجاتا ہے۔۔۔گھر پر تنقید کرتے ہوئے یہ سوچ لیں کہ ہیرے ہمیشہ چھوٹی کانوں
میں ملتے ہیں۔۔۔اور ہیرے کی اصل پہچان تو صرف جوہری کو ہوتی ہے۔۔۔
|
|
لڑکی بہت زیادہ پڑھی لکھی ہے
بعض رشتے مسترد ہونے کی ایک بڑی وجہ لڑکی کا زیادہ پڑھ لینا اور پھر نوکری
کرنا بھی ہے۔۔۔بجائے اپنے بیٹوں کی کم تعلیم پر شرمندہ ہوں، دوسروں کی
بیٹیوں کو زیادہ تعلیم حاصل کرنے پر مسترد کردینا عقل سے باہر ہے۔۔۔لڑکی
اگر زیادہ پڑھی لکھی ہو تو ایک معاشرے کی بہتر رہنمائی کر سکتی ہے، آپ کی
نسل کو بہتر پروان چڑھا سکتی ہے۔۔۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کا المیہ
ہے ایک بیٹی کو اس کی تعلیم میں آگے رہنے پر ٹوکنا، اس کی کامیابی کو اس کی
کمزوری بنادینا اور پھر اسے اس ٹائٹل سے نوازنا۔۔۔ ’’زیادہ پڑھائی حاصل کی
، بوڑھی ہی ہوگئی ہے‘‘-
|