ریاستی ادارے مجرموں کے سامنے بے بس کیوں؟

کافی دن سے سوچ رہا تھا اس پہ کچھ لکھوں، لیکن یہ ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں میرے جیسے کمزور دل بندے کے لئے بات کرنا یا اس بارے کچھ لکھنا بڑا تکلیف دہ کام ہے اور ایسے میں جب آپ خود دو بچوں کے باپ ہوں کسی معصوم بچے پہ گزری قیامت کا حال لکھنا کسی قیامت سے کم نہیں لگتا ۔

ایک ہی ہفتے میں سگے چچا کے ہاتھوں سانگھڑ میں ایک معصوم روح پہ جو ظلم ڈھایا گیا میں نے اخبارات میں وہ بھی پڑھا ، چھوٹے سے فرشتے کی ادھڑی لاش تین دن بعد جب باپ کھیتوں سے اٹھا کر لایا میں نے وہ بھی دیکھا ، اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کرنے والی ایک باہمت بہادر بہن کی لٹی ردا بھی دیکھی ۔ گذشتہ ہفتے میڈیاء میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ ذیادتی کے چار کیسز سامنے آئے ، تین واقعات میں چھوٹے معصوم بچے جنسی درندوں کے ہاتھوں اپنی زندگی ہار گئے، جبکہ ایک اور واقعہ میں ایک جوان بچی اجتماعی ذیادتی کے بعد قتل کردی گئی ۔ ہم ایک اسلامی ملک کے باشندے ہیں دنیا کا بہترین نظام ، بہترین کتاب ہمارے پاس ہے پھر بھی ہمارا معاشرہ کھوکھلا اور ایمان سے خالی ہوتا جارہا ہے ۔ نواز دور میں جب قصور میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کرنے اور ان کی ویڈیوز بنانے کی خبر پھیلی تھی تو ہر طرف ایک شور برپا ہوگیا تھا لیکن یہ سب وقتی ابال تھا جسے ٹھنڈا پڑتے دیر نہیں لگی، مجرموں کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے ہی ہے کہ مسلسل میڈیاء پہ ایسی خبریں آرہی ہیں جن میں معصوم بچے جنسی درندوں کا شکار بنتے ہیں ۔

اسلام نے شائد عورت کو اس لئے اپنا جسم ڈھانپنے اور مردوں کو اپنی نگاہوں پہ پہرہ بٹھانے کا حکم دیا تھا کہ اس سے جذبات بھڑکتے ہیں اور فتنے کا اسباب بنتے ہیں، لیکن چھوٹے بچے بچیوں میں کونسی ایسی جنسی کشش ہے جو انسانوں کو درندہ بننے پہ مجبور کردیتی ہے ؟ کیا یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے یا کسی ملک دشمن گروہ کی منظم کارروائیاں ؟ حد تو یہ ہے کہ اپنے قریبی عزیزوں کے ہاتھوں بھی اب ایسے واقعات ہورہے ہیں جن میں بچوں کو شدید ذہنی و جسمانی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔

ایک عرصے سے مغرب اسلامی سزاؤں کو وحشیانہ قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتا نظر آتا ہے لیکن جن ممالک میں شرعی حدود کا نفاذ کیاجاتا ہے وہاں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ جنسی ذیادتی کےسب سے ذیادہ واقعات غیر مسلم ملکوں میں ہوتے ہیں افسوس اب ہمارے ہاں بھی ان واقعات میں بہت اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے وجہ صرف یہ ہے کہ مجرموں کو یقین ہوتا ہے کہ اول تو وہ پکڑے نہیں جائینگے اور اگر پکڑے گئے تو رشوت کھلا کر چھوٹ جائینگے اور بالفرض سزا ہو بھی گئی تو پانچ سات سال میں پھر بھی رہائی یقینی ہے ۔ دنیا میں جرائم کی سب سے کم شرح سعودی عرب میں ہے وجہ یہی ہے کہ اب بھی وہاں اسلامی شرعی حدود کا نفاذ کیاجاتا ہے ۔

ایسے جنسی بھیڑیے کسی رعایت یا رحم کے مستحق نہیں ، سرعام انہیں عبرت ناک سزا دے کر جرائم پیشہ افراد کے دل میں خوف پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہمارے بچے محفوظ رہ سکیں لیکن فی الحال ہماری ریاست اور ادارے ان درندوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں ۔

سمبڑیال کے مقتول صحافی ذیشان اشرف کے بھائی مسلسل دہائی دے رہے تھے کہ ایک تو ان کو انصاف نہیں مل رہا اوپر سے ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں، گذشتہ ماہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں بھی انہوں نے اپنے احتجاج میں یہی بات کہی۔ ہفتے کی رات مقتول صحافی کے بڑے بھائی عمران اشرف شادی کی تقریب سے لوٹ رہے تھے کہ کیری ڈبے میں سوار چار میں سے تین افراد نے ان پہ حملہ کردیا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے ، بزدلانہ کارروائی کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ،حالیہ ڈی پی او سیالکوٹ مستنصر فیروز اعوان بھی کچھ عرصہ پہلے مقتول کے ورثاء پہ حملے کا خدشہ ظاہر کرچکے تھے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کے پاس ایسی کچھ معلومات تھیں، اس کے باوجود پولیس اس حملے کو روکنے میں ناکام ہوئی اور ایک بے گناہ نوجوان کی جان جاتے جاتے بچی ، آئی جی پنجاب کو اب اس معاملے کو خود دیکھنا چاہئے ، یہ مسئلہ دن بدن سنگین ہوتا جارہا ہے۔ قاتل کتنا شاطر اور طاقتور ہے کہ ملکی و غیر ملکی میڈیاء کی چیخ و پکار اور پولیس کی تمام تر کوشش کے باوجود قاتل اور اس کے ساتھی گرفتار نہیں کئے جاسکے ، ایک شخص پوری ریاستی مشینری کو آخر کیوں بے بس کئے چلاجارہاہے ؟ یہ سوال بہرحال اپنی جگہ پہ موجود ہے ۔
 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 87256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.