گذشتہ روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں انتہائی
دردناک،افسوس ناک اورشرمناک واقعہ رونما ہوا جس میں پاکستان کے دو انتہائی
پڑھے لکھے طبقات یعنی ڈاکٹرز اور وکلا اس طرح آمنے سامنے دکھائی دئے گویا
پانی پت کی لڑائی میں دو دشمن مورچہ بندی کئے ہوئے ہوں۔بات شروع ہوئی ینگ
ڈاکٹر ز تنظیم کے صدر ڈاکٹر عدفان کی ایک وڈیو سے جس میں وہ وکلا کی لفظی
توہین کرتے دکھائی دئے جس کے بارے میں ان کا بعد ازاں موقف بھی سامنے آیاکہ
اس وڈیو کا وائرل کرنا کسی کی گھناؤنی سازش ہے کیونکہ جب میں اپنے وکلا
بھائیوں سے اپنے اس فعل کی معافی مانگ چکا تھا تو کیوں کسی شرپسند نے اس
وڈیو کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کردیا جس کا ردعمل وکلا کی طرف سے پوری قوم نے
لائیو دیکھا،مقام افسوس یہ نہیں کہ کیوں کسی نے ڈاکٹرعرفان کی وڈیو کو
اپلوڈ کیا اور اس کے عزائم کیا تھے بلکہ المیہ یہ ہے کہ دونوں طبقات
کمیونٹی کے وہ افراد ہیں جو انتہائی پڑھے لکھے،باوقار،باعزت اورمعاشرتی
مقام کے متحمل ہیں۔
ٹی وی پر لائیو دیکھتے ہوئے مجھے دوسری جنگ عظیم کے ہیرو سر ونسٹن چرچل یاد
آگئے کہ جب دوسری نگ عظیم عروج پر تھی دونوں اطراف سے یعنی اتحادی اور
محوری افواج کی طرف سے گھمسان کی جنگ جاری تھی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کی
جاپان کے پرل ہاربر پر حملہ کے بعد یوں دکھائی دیتا تھا کہ اب یہ جنگ جاپان
اور اس کے اتحادی کسی وقت بھی جیت سکتے ہیں،عین عروج ِجنگ پر ایک فوجی افسر
نے ونسٹن چرچل سے پوچھا کہ سر ،کیا آپ کو یقین ہے کہ ہم یہ جنگ جیت جائیں
گے ،تو ونسٹن چرچل نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا کہ
’’کیا ملک کی عدالتیں انصاف نہیں کر رہیں‘‘
جواب بر خلاف سوال اور توقع تھا جواب ملا کہ کیوں نہیں ملک کی عدالتوں میں
مکمل انصاف کی فراہمی کو ممکن بنایا جا رہا ہے ،جس پر چرچل نے کہا کہ جب تک
میرے ملک کی عدالتیں فراہمی انصاف کے راستے پر ہیں ہمیں کوئی شکست سے دوچار
نہیں کر سکتا۔میرے ملک کے وکلا کو تعلق بھی فراہمی انصاف سے ہے،دوسری طرف
ایسا طبقہ تھا جسے ’’مسیحا ‘‘اور ’’مسیحا دم‘‘کہا جاتا ہے،اگر ان دو لفظوں
پرغور کیا جائے تو ڈاکٹرز ان خوبیوں کا مالک ہونا چاہئے جو حضرت عیسیٰ ؑ
میں تھیں،بحثیت مسلمان کون ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی مسیحائی کو نہیں
جانتا۔مسیحا کا تو کام ہی زندگی اور زندہ رہنے کی امید دلانا ہے۔جب یہ
دونوں پڑھے لکھے نوجوان باہم دست وگریبان تھے تو مجھے ایک لمحہ کے لئے لگا
کہ دو طبقات،افراد،پیشے یا دھڑے نہیں بلکہ دو انتہائی معتبر ڈگریاں،ایم بی
بی ایس اور ایل ایل بی باہم دست وگریبان ہیں۔یہ سب دیکھتے ہوئے اپنے پڑھے
لکھے ہونے پر ندامت کا احساس ہونا بنتا ہے لیکن کیا کیا جائے آوے کا آوا ہی
جب بگڑ جائے تو کس کی ماں کو ماسی کہا جائے۔اوپر سے سوشل میڈیا،پرنٹ اور
الیکٹرونک میڈیا پر سن دوکاندار اپنی اپنی دوائیاں فروخت کرنے میں مشغول
ہوگئے ہیں۔جب ایسے وقت میں ان درد کے ماروں جن کے اپنے اس سارے واقعہ میں
اﷲ کو پیارے ہوگئے زخموں پر مرحم لگانے کی ضرورت تھی،ایک لمحہ کو سوچئے کہ
جن چھ بھائیوں کی ایک ہی بہن ہو اور ایک تعلیم یافتہ کی جہالت سے وہ دم توڑ
جائے تو ان بھائیوں کے دل پر کیا بیتی ہوگی،جس کی ماں اپنے بچوں کو تکتے
تکتے پڑھے لکھوں کے ہجوم میں ہمیشہ کے لئے گم ہو گئی ہوگی،ان کا پرسانِ حال
کون ہوگا؟
سوال یہ نہیں کہ کس نے کیا،کیوں کیا،کس کے کہنے پر کیا گیا،کروانے والوں کے
پس پردہ کون لوگ ہیں؟سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ ان تمام کا متحمل
ہے،معاشرتی بگاڑ اگر جاہل،کم تعلیم یافتہ طبقہ یا گنوار لوگوں کے سبب ہو تو
جرم قابل معافی اس لئے ہو جاتا ہے کہ سماجی رویے اور عوامی رائے ان کے حق
میں اس دلیل کے ساتھ ہو جاتی ہے کہ چھوڑو جی یہ تو لاعلم اور جاہل ہیں۔لیکن
جب مردہ معاشرہ کی لاشیں پڑھے لکھے افراد کے کندھوں پر ہوں اور معاشرہ کے
جسم سے روح نکالنے اور خون کا ایک ایک قطرہ نکالنے کے ذمہ دار بھی ایسے
تعلیم یافتہ نوجوان ہوں تو کیا انصاف،کہاں کی مسیحائی،کدھر کا مثالی معاشرہ
اور کس کی شرم وحیا۔اصل مسئلہ میں نے کہا کہ یہ نہیں کہ ایسا کیوں ہوا؟اصل
بات یہ ہے کہ کیوں اور کس نے کیا؟معاشرہ کے روندھے ہوئے جاہل افراد نے یا
اعلی تعلیم یافتہ انسانوں نے۔میرے ایک سویڈن ادیب دوست عارف کسانہ صاحب کا
ایک کالم یاد آگیا جس میں انہوں نے ایک تجویز دی تھی کہ ایم بی بی ایس میں
ایک مضمون اخلاقیات کا بھی ہونا چاہئے کیونکہ ڈاکٹرز کی اخلاقی تربیت اس
لئے ضروری ہے کہ انہوں نے براہ راست عوام سے ربط رکھنا ہوتا ہے،لیکن حالیہ
واقعہ سے مجھے لگتا ہے کہ ہر اس پروفیشنل ڈگری میں جس کا تعلق براہ راست
عوام سے ہو اخلاقیات کے مضمون کو بطور لازمی ضرور متعارف کروانا چاہئے اور
ساتھ ہی ساتھ ایسے طلبا کی اخلاقی تربیت بھی ضرور کرنا چاہئے کہ ہماری نسل
آئندہ میں انسانی ہمدردی کے جذبات اور عزت واحترام کو ممکن بنایا جا
سکے۔ایک آخری بات کہ چلیں ہم سب آج سے اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت اس طرح
سے دینا شروع کرتے ہیں کہ پرانی رنجشیں بھلا کر ایک دوسرے سے باہم دست
وگریباں ہونے کی بجائے باہم شیروشکر اس طرح سے ہوجائیں کہ میں،میں نہ رہوں
تم ہو جاؤں۔اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو مسیحائی کا حلف اٹھائیں،وکیل ہیں تو انصاف
کی فراہمی سے حق وصداقت کی صدا بلند کرنے کے علمبردار بن جائیں،پولیس مین
ہیں تو ’’رشوت دینے اور لینے والا دونوں جہنمی ہیں‘‘کی عملی تفسیر بنتے
ہوئے اپنے آپ اور دوسروں کو نارِ جہنم سے بچائیں،استاد ہیں تو معمار قوم کی
اصلاح کا بیڑہ اس طرح سے اٹھائیں کہ آپ کی کوکھ سے جنم لینے والا وکیل،
ڈاکٹر، انجینئر، سیاستدان، پولیس مین آپ کے لئے خلد مکانی کا باعث ٹھہرے
اور معاشرہ کا ایک ایسا کردار بنے کہ دنیا ان کی مثالیں دے۔آئیے ہم سب آج
سے اپنے آپ سے ایک عہد کریں کہ ہم اپنی اخلاقی تربیت پر بھی اتنا ہی زور
دیں گے جتنا کہ ڈگری کے حصول پر،پھر دیکھئے گا کہ معاشرہ کا مستقبل کس قدر
تابندہ ودرخشاں ہوتا ہے۔انشا اﷲ
|