گزشتہ دنوں بھکر کے علاقے دریا
خان سے برآمد ہونے والی ایک انتہائی ہولناک خبر نے محاورتاََ نہیں بلکہ
حقیقتاََ میرے رونگھٹے کھڑے کر دیئے ایک رائٹر ہونے کے ناطے میرا تعلق
چونکہ کتاب کے ساتھ خاصا پرانا ہے اور میرے مطالعے کے مطابق یہ اپنی نوعیت
کا ایک انتہائی منفرد واقعہ ہے ۔ہوا کچھ یوں کہ 2اپریل کو دریا خان میں نور
حسین فیملی کے نام سے معروف ایک فیملی کی جواں سالہ لڑکی سائرہ بی بی کی
کینسر کے موذی مرض نے جان لے لی جسے اسی شام ہی مقامی قبرستان میں دفن کر
دیا گیا ۔ اگلے روز جب لڑکی کے ورثا اس کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے گئے تو
انہوں نے جو منظر دیکھا اس نے ان کے ہوش اڑا دئیے کہ سائرہ بی بی کی قبر
کھلی ہوئی تھی اور ایک طرف کفن بھی پڑا ہوا تھا لیکن سائرہ کی لاش غائب تھی
اس واقعہ کی خبر آناََ فاناََ جنگل کی آگ کی طرح ہر سُو پھیل گئی اور جلد
ہی جائے وقوعہ پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو گئی اور اِس اندوہناک
واقعہ کی گتھیاں اپنے اپنے انداز میں سلجھانے لگی ایسے میں کسی نے خلیل
احمد راجپوت کے خوشحال لیکن پراسرار گھرانے کی طرف بھی اشارہ کیا جس کے دو
بیٹے 31سالہ عارف اور26سالہ فرقان علاقے میں ایک حیرت انگیز زندگی بسر کر
رہے تھے جنہیں یہاں ایک طویل عرصے سے قیام پزیر ہونے کے باوجود کبھی بھی
عام افراد سے ملتے جلتے نہیں دیکھا گیا تھا ہاں البتہ یہ دونوں چند بار
قبرستان کے اردگرد گھومتے پھرتے ضرور نظر آئے جس کے باعث اکثر لوگ ان سے
ملنے سے اس لئے بھی کتراتے تھے کہ شائد یہ دونوں بھائی کالے جادو وغیرہ
جیسے کسی مکروہ فعل میں ملوث ہیں اسی اثناء میں ہونے والے اس واقعہ نے
پولیس کو اس رُخ پر بھی تفتیش کرنے پر اکسایا آخرکار3اپریل کو پولیس نے گاﺅں
کے لوگوں کی بھاری تعداد کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو جو
صورتحال سامنے آئی وہ ان کے وہم و گمان سے بھی باہر تھی ۔ گھر کے ایک کمرے
میں مرحومہ کی کٹی پھٹی لاش پڑی تھی ،جسم کے کچھ حصوں کو کاٹ کر ان کو
بوٹیوں میں تبدیل کیا جا رہا تھا اور ایک ہانڈی میں کچھ انسانی گوشت پکایا
بھی جا رہا تھا۔مزید تلاشی لینے پر پولیس کو گھر سے درجنوں کفن اور انسانی
ہڈیاں بھی ملیں یوں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد عارف اور فرقان نے پولیس
کی روائتی چھترول کے بعد جو شرمناک انکشافات کئے ان میں سے چند ایک یہ ہیں
''ہم طویل عرصے سے مردہ خوری کر رہے ہیں جو کہ کوئی بری بات نہیں ہے کیوں
کہ میت نے تو ویسے بھی مٹی میں رُل جانا ہوتا ہے ایسے میں اگر ہم نے کھا
لیا تو کیا برا ہے ،ہم نے زندہ انسان کو مار کر اس کا گوشت کبھی نہیں کھایا
البتہ جب قبرستان میں زیادہ عرصہ تک تازہ میت نہ آئے تو کتوں کو مار کر
ضرور کھا جاتے ہیں کیونکہ کتے کے گوشت کا ذائقہ انسانی گوشت کے بعد بہترین
ہے اور مزید یہ کہ ہم انسانی گوشت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے '' دریا خان
پولیس نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ ملزموں کے اپنے بچے بھی جلد ہی فوت ہو
جاتے تھے اور یہ ان کو بھی کھا جاتے تھے ۔دوسری جانب اس دلخراش واقعے نے
دریا خان اور اس کے گردونواح کے لوگوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے جنہوں نے
میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ'' ایک تو انہیں اپنے مُردوں کی فکر لاحق ہو
گئی ہے کہ نہ جانے وہ قبروں میں موجود ہیں یا وہ بھی ان ظالموں کا شکار ہو
چکے ہیں مزید انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس واقعہ کے بعد نہ تو ٹھیک سے
سو سکے ہیں اور نہ ہی ان کا کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے انہیں اس واقعہ نے
ذہنی مریض بنا دیا ہے اور وہ ہر پل ایک انجانے خوف کا شکار رہنے لگے ہیں ''اس
تمام تر واقعہ اور اب تک کی تحقیق اور شہریوں کے بیانات سے جو صورتحال واضح
ہوتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قبروں سے انسانی لاشوں کی چوری اور پھر ان
کو کھانے والا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ صرف دو بھائیوں کو ذہنی مریض
قرار دے کر اس کو فراموش کر دیا جائے بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم گروہ سرگرم
ِعمل کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ان دونوں بھائیوں نے بھی اس
طرف اشارہ کیا ہے جن کے مطابق ان کو بعض قبریں خالی بھی ملی ہیں جس سے یہ
پتہ چلتا ہے کہ کوئی اور بھی اس مکروہ فعل میں ملوث ہے۔ دوسری جانب اس
پیچھے نام نہاد جعلی عاملوں اور جادوگروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا
سکتا جو اپنے جاہل مریدوں اور اپنی نفسیاتی اور مادی خواہشات کو عملی جامہ
پہنانے کیلئے کسی بڑی طاقت کو اپنے ہاتھ میں کرنے کیلئے سرگرداں لوگوں کو
ایسے ایسے الٹے سیدھے عملیات پر لگا دیتے ہیں کہ انسان اپنی شناخت تک بھول
کر جانور بننے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس گروہ کے انسانی
اعضاء کی سمگلنگ میں ملوث افراد کے آلہ کار ہونے کے امکان کو بھی نظر انداز
نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال اس جرم کی وجہ کوئی بھی ہو ،اس کے پیچھے گروہ
کوئی بھی ہو انہیں نشانِ عبرت بنانے کی ذمہ داری اب حکومت پر ہے ورنہ ہو
سکتا ہے کہ ساری زندگی احتجاج کرتے کرتے عوام مرتے ہوئے بھی یہ شعر اپنی
قبر پر لکھنے کی نصیحت کرنے لگیں
ع اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مگر مر کے بھی چین نہ پایاتو کدھر جائیں گے |