پچیس روپے کی مرچیں

موسم بہت خوشگوار تھا ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں میں اور میرا دوست سرگودھا جار ہے تھے ہلکی ہلکی بارش نے موسم کو اور بھی خوشگوار بنا دیا تھا۔ ہم سرگودھا کے ریل بازار کے پاس سے گزرے تو میرے دوست نے کہا کہ یہاں گاڑی روکو میں نے کچھ سامان خریدنا ہے میں نے گاڑی کو روکا اور وہ اپنی مطلوبہ دوکان پر چلا گیا اور میں وہیں کھڑا ہوکر اس کا انتظار کرنے لگا اور ساتھ ہی موسم سے لطف اندوز ہونے لگا شام کا وقت تھا ہر طر ف گہما گہمی تھی پرندے بھی بارش کی وجہ سے افرا تفری میں اپنی اپنی آرام گاہوں کی طر ف رواں دواں نظر آرہے تھے ہر شخص اپنی زندگی میں مگن نظر آر ہا تھا ۔کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے دوست کی تلاش میں دوکان کی طرف دیکھا اور مجھے میرا دوست کہیں نظر نہ آیا اس دوران میں نے ایک ادیڑھ عمر عورت کو دکان دار سے بات کرتے دیکھا عورت نے ایک ہاتھ میں چینی کا پیکٹ اور کچھ کھانے پینے کا سامان اٹھا رکھا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ عورت بہت پریشان ہے اُس کے کپڑے میلے ،پاﺅں میں نائلون کی ٹوٹی ہوئی چپل اور الجھے ہوئے سر کے بال تھے دوکان دار مسلسل انکار میں ہاتھ ہلا رہا تھا میں دور کھڑا یہ سارا منظر دیکھ تو رہا تھا مگر مجھے صور ت حال سمجھ نہیں آرہی تھی اسی دوران عورت اُسی دکان میں موجود دوسرے آدمی کی طرف گئی اور اُسی انداز میں کچھ کہتی ہے وہ بھی انکار میں ہاتھ ہلا کر اپنے کام میں مصروف ہوجا تا ہے اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میرے تجسس میں اضافہ ہوجاتا ہے اور میں پورے فوکس کے ساتھ اپنے دوست کی فکر سے بے نیاز ہوکر اسے دیکھنے لگ جاتا ہوں اور وہ عورت تین چار دکانوں پر جاتی ہے پر ہر دکاندار انکار کر کے اپنے کاموں مصروف جاتا تھا عورت تھک ہار کر ایک طرف کھڑی ہوجاتی ہے اسی دوران اس کی نظریں مجھ پر پڑیں تومیں اسکے پاس چلا گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ دکانداروں سے کیا کہہ رہی تھی عورت نے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں صاف کیں اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا میں ان سے بیس روپے کی سرخ مرچیں مانگ رہی تھی پر یہ سب کہتے ہیں کہ مرچیں پچیس روپے کی آدھ پاﺅ ہیں اور ہم اس سے کم نہیں دیتے مگر میرے پاس صرف بیس روپے ہیں میں یہ بات سن کر بہت پریشان ہوا میں نے اپنی جیب سے پیسے نکال کردئیے اور کہا آپ پریشان نہ ہوں جائیں مرچیں خرید لیں عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور میرا اس سے سامنا کرنا دشوار ہو رہا تھا اُس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دعائیہ انداز میں کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا اسی دوران میں نے ایک دوکان سے اپنے دوست کو باہر آتے دیکھا اور میں اُس کی طرف بڑھ گیا پھر ہم دونوں واپسی کے لئے چل پڑے لیکن میرے دل ودماغ سے وہ بے بس عورت اور اس کے بیس روپے نہیں نکل رہے تھے ان ہی سوچوں میں ہماری منزل آگئی اور ہم نے چائے منگوائی چائے پیتے ہوئے میں اُس عورت کی بے بسی میں گم رہا میرے دوست نے میری خاموشی کی وجہ پوچھی تو میں نے لمبا سا نس لیا اور دماغ میں گھومنے والا سارا واقعہ اس کو سنایا تو وہ بھی میری باتوں کو سن کر ایک بار پریشان ہوگیا میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے مہنگائی ہے اور پر کیا ہم صرف پانچ روپے کی خاطر اپنے سسٹم کو بدل نہیں بدل سکتے؟ اگر وہ دکان دار اس کو بیس روپے کی مرچیں دے دیتے تو ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہونا تھا اور وہ عورت کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسوں کی ہاہ سے بچ جاتے مجھ سمجھ نہیں آتی ہماری انسانیت پیسے کے سامنے کیوں غائب ہوجاتی ہے میرے دوست نے میری طرف دیکھا اور آہ بھرتے ہوئے کہا تم نے تو آج یہ واقعہ دیکھا لیکن بہت سے لو گ ایسے بھی ہیں جن کے گھر وں میں کئی کئی دنوں تک چولہا نہیں جلتا آپ پریشان نہ ہوں بلکہ شکر ادا کریں کہ آپ میں انسانیت زندہ ہے اور یہ بھی شکر اداکریں کہ آپ کے پاس 20روپے سے زیادہ رقم تھی اور آپ مد د کرنے والوں میں سے بنے میں نے اس کی بات سنی اور کہا کہہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے پر کب تک ایسا ہوتا رہے گا اور اگر میں نہ دیکھتا تو شاید وہ عورت خالی ہاتھ لوٹ جاتی اُس نے مسکرا کر شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کرتے ہوئے کہا جو رب آپ کا ہے وہ ہی اس عور ت کا بھی رب ہے۔ اُسی رب نے ہی آپ کو اُس عورت کو دیکھنے کی صلا حیت دی اگر وہ رب آپ سے مدد نہ کروانا چاہتا تو آپ بھی میرے ساتھ دکان میں چلے آتے لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا بھلا! کیوں کہ اس رب کو پتا تھا کہ میری بندی کے پاس مرچیں خریدنے کے لئے پچیس روپے نہیں اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میرے بندے کے پاس ہیں آپ پریشان ہونا چھوڑیں اور اپنی انسانیت کو زندہ رکھیں اور جہاں تک ہوسکے مدد کرنے والوں میں سے بنیں اور اس رب کو اپنے بیس روپے والے بندوں کی بھی خوب فکر ہے ، وہ رب صرف امیروں کا ہی نہیں بلکہ ان کا بھی ہے جن کے پاس پچیس روپے کی مرچیں خریدنے کی سکت نہیں۔
Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 2 Articles with 1413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.