کیا اب پاکستان زندہ باد نہیں؟

29مارچ کو پاک بھارت میچ کی چاند رات تھی لوگوں نے یہ رات بہت جوش وخروش سے منائی اس وقت جوش میں اور بھی اضافہ ہوگیا جب گورنمنٹ نے آدھی چھٹی کا اعلان کردیا۔پاکستانی عوام نے 30مارچ کے دن میچ دیکھنے کے لئے اپنے دوستوں ، رشتے داروں اور محلے والوں کو دعوتوں پر مدعو کیا ایسے لگ رہا تھاکہ صبح عید ہے سب کے چہرے پر امید تھے فجر کی نماز کے بعد ملک بھر میں پاکستانی ٹیم کے لئے خصوصی دعائیں کروائیں گئیں گلی،محلوں ،بازاروں،دکانوں اور ورکشاپس پر بھی میچ دیکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا ! سکولوں، کالجوں،یونیورسٹیوں ،دفاتر یہاں تک کہ ہسپتالوں اور جیلوں میں بھی دعائیں کروائی گئیں۔ لوگوں نے پاکستان کی جیت کے لئے منتیں مانگیں، نوافل ادا کئے۔ 30 مارچ کا سورج ایک الگ پیغام لے کے آیا لوگوں نے تمام کام افرا تفری میں کئے ،جیسے ہی دن کا ایک بجہ تمام کاروبار روک دئیے گے، مزدوروں نے کاموں سے چھٹی کر لی بازار سنسان ہوگئے ہر کوئی اپنی اپنی سرگرمیوں سے فارغ ہوکر ٹی وی کے آگے پاک بھارت میچ دیکھنے بیٹھ گیا۔ بچہ ،بوڑھا ہو کہ جوان سب کے دل و زبا ن پر دعائیں تھی کہ یااللہ پاکستان جیت جائے سب کا ایک ہی نعرہ تھا پاکستان زندہ باد،جیتے گا پاکستان ،ہارے گا ہندوستان مجھے یہ سب مناظر دیکھ کر ایک پاکستانی ہونے کے ناطے بہت خوشی ہورہی تھی اور میں بھی دوسرے پاکستانیوں کی طر ح جیت کے لئے پرامید تھا لوگ سڑکوں ،دکانوں اور ورکشاپوں،ہوٹلوں میں اکھٹے ہوکر ایک عزم کے ساتھ ایک جذ بے کے ساتھ میچ دیکھ رہے تھے سرگودھا کی سڑکیں سنسان تھیں اور سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ لاہور اور سلام آباد میں جہاں ٹریفک اہلکاروں کو سانس لینے کی فرصت نہیں ملتی وہ بھی سڑکیں سنسان ہونے کی گواہی دے رہیں تھیں۔ایسا ہی حال ہمارے پورے ملک کا تھا ایسا منظر کبھی زندگی میں نظر نہیں آیا! میں قوم کی اس یک جہتی پر دل سے بہت خوش تھا لیکن ایک انجانا سا خوف بھی تھا کہ اگر ہم ہار گئے تو کیا ہو گا؟ کیا ہم شکست برداشت کرلیں گے؟ لیکن میں اپنے خوف کو دبا کر ایک امید کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کی جیت کے لئے دعا گو ہوگیا۔ میچ آخری مراحل میں تھا ،دل کی دھڑکن تیز سے تیز ہوتی گئیں اور ساتھ ساتھ دعائیں وظیفے بھی تیز ہوتے گئے ایس ایم ایس کے ذریعے سب ایک دوسرے کو آگاہ کرتے رہے کہ پاکستان کی کامیابی کے لئے اتنی بار درود شریف پڑھو، یہ سورة پڑھو ،یہ ورد کرو اس ایس ایم ایس کو فارورڈ کردو اور ایک پاکستانی ہونے کے ناطے ہم یہ سب کرتے بھی رہے ۔میچ ختم ہوگیا اور پاکستان ہار گیا ۔ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ اب میرے دل کی آواز ابھری اور میں نے اسے دبانے کی بھی کوشش نہ کی ۔میں اپنے آنسوں کو صاف کر کے پاکستان زندہ باد اور اللہ اکبر کے نعروں کے بارے میں سوچنے لگا کہ کیا اب کوئی یہ نعرے نہیں لگائے گا؟کیا اب اللہ اکبر نہیں؟ اب پاکستان زندہ باد نہیں؟ میرے دوست بھی پاکستان ٹیم کے میچ ہارنے کے بعد افسردہ ہوگئے تھے میں نے ان کی یہ حالت دیکھتے ہی ان سے کہا کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا لیکن اکثر نے کہا کہ ا ب بھی پاکستان زندہ باد؟میں نے کہا ہاں ہمیشہ تک زندہ باد لیکن انہوں نے کہا پر آج نہیں میں ان کی یہ بات سن کر اور بھی پریشا ن ہوگیا اوراپنے آپ کو دوستوں کو اس پریشانی سے نکالنے کے لئے کہا کہ اللہ کا بہت شکر ہے کہ جو بھی ہوا اچھا ہوا۔چلیں میچ کی وجہ سے ہی سہی ہم سب نے یکجان ہونے کا ثبو ت تو دیا ہم نے دل سے اپنے رب کو اپنے وطن کی عزت کے لئے یاد تو کیا!کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہی رہتی ہے آج وہ جیت گئے کل اگر اللہ نے چاہا تو ہم جیت جائیں گے۔ اور جو نوافل ہم نے شکرانے کے پڑھنے تھے وہ اب کیوں نہ پڑھیں کیا اللہ صرف جیت کے وقت ہی اللہ ہے؟ اگر اللہ ہر وقت کا اللہ ہے تو اسے کو سجدہ کرنے کے لئے ہم جیت کا سہارا کیوں لیں اور رہی پاکستان زندہ باد کی بات تو بزرگوں کا فرمان ہے کہ جو چیز اللہ کے نام پر حاصل کی جاتی ہے اس کے مقدر میں فناء ہونا نہیں اور پاکستا ن اللہ کے نام پر قائم ہوا تھا اس لئے قیامت تک پاکستان زندہ باد رہے گا(انشاءاللہ) آج ہم نے میچ نہیں دیکھا بلکہ اپنے وطن سے محبت دیکھی ہے ، آج ہماری ٹیم کرکٹ ورلڈ کپ ہار گئی مگر ہمارا وطن محبت کا ورلڈ کپ جیت گیا اور ایسا بہت مدتوں کے بعد ہوا ہے ۔میں یہ کہ کر مطمئین ہوگیا لیکن ایک اور محب وطن دوست نے کہا کہ تمھاری بات ٹھیک ہے پر جب ہماری ٹیم نے ورلڈ کپ شروع کیا تھا تب ہی باہر ہوجاتی جیت کے اتنے قریب آجانے، اتنی دعاﺅں اور امیدوں کے بعد یہ ہی ہونا تھا! وہ تو کافر تھے پتھروں سے مانگتے تھے اور ہم نے تو اللہ سے مانگا تھا چھوٹے چھوٹے بچے دعائیں کرتے رہے نعرے لگاتے رہے۔ اللہ بچوں کی تو سنتا ہے ،پھر ایسا کیوں ہو ا پھر کیوں پتھروں کی پوجا کرنے والے جیت سے ہمکنا ر ہوئے؟ میں نے اس سے کہا کیا یہ بات فخر والی نہیں کہ ہم اللہ سے مانگتے رہے اور اگر پاکستان ورلڈ کپ کے اتنے قریب نہ پہنچتا تو کیا ہم نے اپنے ملک کے لئے اتنی دعائیں اتنے وظائف کرنے تھے،ہم نے یکجہتی کا ثبوت دینا تھا؟ رہی بات بچوں کی تو بچوں کو جو سمجھایا جانا ہے وہ ہی کرتے ہیں اور چلو ہماری وجہ سے غیر مذہب والوں کو خوشی مل گئی ۔ اب ہم اپنے اللہ سے شکوہ کر کے اس سے تو دور نہ ہوں اس نے کہا کہ فی الحا ل مجھ سے یہ ہار برداشت نہیں ہوتی میں اتنی جلدی کور نہیں کرسکتا۔ میں خاموشی سے سوچنے لگا کہ یہ ہار تو ہم سے برداشت نہیں ہوئی کیوں کہ ہم نے ہارنے کا سوچا ہی نہیں تھا لیکن حوصلہ ہے ہم پاکستانیوں کا کہ ہم نے برداشت کرلیا لال مسجد کی تباہی و بربادی کو وہاں پڑھنے اور بسنے والے یتیم بچوں کی تباہی کو!اس وقت ہم کہاں تھے؟اس وقت ہماری دعائیں ہماری منتیں کہاں تھیں؟ اس وقت کیوں ناں سڑکیں سنسان ہوئیں ؟اس وقت ہم کیوں نہیں یکجان ہوئے؟ ہماری مسجدوں، درباروں، عبادت گاہوں پر بم دھماکے ہوتے ہیں تب ہم کہا ں غائب ہوجاتے ہیں تب ہمارا جذبہ کہاں چلا جاتا ہے ؟ریمنڈ ڈیوس ہماری بہنوں کو بیوہ کر گیا ان کے بچوں کو یتیم کر گیا ۔ ہم آج تک کشمیر کو آزاد نہ کرواسکے ،آج تک ہم ڈورن حملے نہ رکواسکے،ڈاکٹر عافیہ کو ملک واپس لانے کے لئے کیا ہم نے آج تک آدھی چھٹی لے کر اس کے لئے دعائیں کروائیں،کیا ہم نے کشمیر کی آزادی کے لئے نوافل پڑھے؟کیا ہم نے سکولز ، کالز ،یونیورسٹوں ،ہسپتالوں، جیلوں میں ملک کی سلامتی اور یتیموں مسکینوں کے لئے دعائیں کروائیں؟ اتنے یتیموں ،مسکینوں،بے گناہ لوگوں اور اتنی بیواﺅں کے آنسو بہاکر بھی ہم اپنے اللہ سے شکوہ کرتے ہیں کہ ان پتھروں کی پوجا کرنے والوں کو کیوں جیتنے دیا! ہمیشہ پاکستان زندہ باد
Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 2 Articles with 1414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.