روشن خیال پاکستان

کیمونزم کے آقاوں نے جب اس کی بنیاد رکھی تھی تو سب سے نمایاں بات ،مساوات کے علاوہ روشن خیالی تھی۔ویسے تو ہر مادر پدر آزاد معاشرہ روشن خیال ہے چاہے ، کیمونزم ہو،سرمایا دارانہ یا کو ئی دوسرا نظام ہو۔مذہب بیزاری کیمونزم کی بنیاد تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ مروجہ انسانی اخلاقی روایات کو بھی اس نے ختم کر دیا تھا اور انسان کو حیوان بنا دیا تھا۔

کیمونزم کی مشہور کہاوت تھی( نعوذ باللہ) خدا کا خیا ل فرسودہ ہے مذہب ایک افیون ہے اس کا خیال کو دل سے نکال دو ۔ دوسرے لفظوں میں معاشی جانور بن جاؤ۔ کارل مارکس کمیونسٹ لیڈر خدا کے وجود یا ذات کا انکاری تھا۔لیکن مرتے وقت اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تھے (اے خدا اگر کوئی خدا ہے تو میری مدد کر اگر تو کر سکتا ہی)آخر مرتے وقت اُسی خدا کو پکارنے لگا تھا۔جس کا انکاری تھا۔ روس کی طرف جب پہلا اسپٹنک راکٹ فضاؤں میں بھیجا گیا اس کے بعد کیمونزم کے ترجمان پر ا ودا اخبار نے اپنی اشاعت میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں فضاؤں میں فرشتے اُترتے چڑتے ہوئے ہوئے نہیں ملے ۔نہ ہی جنت دوزخ کا نام و نشان ملا یہ خدا بیزاری کا ایک نمونہ ہے۔ کیمونزم پر گرفت کرتے ہوئے مولانا مو دودی ؒ نے یہ با ت کہی تھی’’ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہو گا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہو گی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن او ر پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہو گا۔نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمہنوں اور جرمنوں میں میں اپنے معتقد نہ پا سکے گی‘‘ ماخوز تقریر ۰۳ دسمبر۶۴۹۱ ء کتابچہ شہادتِ حق کہی تھی۔مولانا مودودی ؒنے فرعون اور خروشیف روسی وزیر اعظم کے متعلق سورت القصص آیت ۸۳ حاشیہ۳۵ تفسیر تفہیم القرآن جلد ۳ صفحہ ۸۳۶ میں بیان کیا ہے درج کر رہا ہو۔ فرعونی ذہنیت کی تشرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’یہ اس قسم کی ذہنیت تھی جیسی موجودہ زمانے کے روسی کمیونسٹ ظاہر کر رہے ہیں ۔ یہ اسپٹنک اور لُونک چھوڑ کر دنیا کو خبر دیتے ہیں کہ ہماری اِن گیندوں کو’’ اوپر کہیں خدا نہیں ملا‘‘۔ یہ باتیں روس کے ایک سابق وزیر اعظم خروشچیف کی باتوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں جو کبھی ’’خدا کا انکار کرتا ‘‘اور کبھی بار بار خدا کا نام لیتا ہی۔

کیمونسٹوں نے تقریباّ ۰۷ سال تک دنیا کے کافی حصے پر اپنے روشن خیال نظام کو زبردستی قائم رکھا۔ مگر اپنی بنیادی کمزوری کی وجہ سے ،یعنی اس دنیا جہان کے مالک سے بغاوت کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچا۔
دنیا میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کے نام سے معاشرہ نا واقف نہیں رہا۔ کسی نہ کسی نام سے لوگوں کے دِلوں میں اللہ کا نام رہا۔ قدیم زمانے میں لوگ جو شرک کرتے تھے وہ اس کی یہ توجیہہ بیان کرتے تھے کہ مانتے تو ہم اسی ربّ کو ہیں جس نے یہ زمین آسمان بنائے یہ بت ہمارے ربّ کے سامنے سفارشی ہیں۔اِن کے بغیر ربّ تک ہماری آواز نہیں پہنچ نہیں سکتی۔اس طرح زمانہ قریب میں عربوں نے جو تین سو ساٹھ بت خانہ کعبہ میں رکھے ہوے تھے اُن کا عقیدہ بھی اپنے ربّ کے لیے یہی تھا کہ ہم مانتے ربّ ہی کو ہیں جس نے یہ سارا جہان بنایا یہ بت اللہ کے سامنے ہمارے سفارشی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے متعلق مشرکانہ خیال سب شیطانی تہذیبوں میں مشترک رہا ہے ۔اب بھی ہندوستان میں لوگوں کا یہی عقیدہ ہے کہ بت ہمارے سفارشی ہیں۔

مگر افسوس ہوتا ہے کیمونزم کے ایجاد کرنے والے یہودی ذہن پر کہ اس نے خدا کے وجود کا سرے سے انکار کیا اور شیطانی نظام کی بنیا درکھی جو صرف ۰۷ سال ہی میں زمین بوس ہو گیا۔جو بھی عقیدہ حقیقت سے ہٹ کر پیش کیا جائے گا اس کو فنا ہونا ہی ہی۔ یہی تعلیم ہمیں قرآن شریف سے ملتی ہے یہی ابدی حقیقت ہے اسی کو قائم ودائم رہنا ہے اسی لیے کیمونسٹ روشن خیال معاشرے کو اپنے دامن میں پناہ نہیں ملی ۔

قاریئن کیونزم روشن خیال تہذیب کا بیڑا ا فغان مجاہدین کے ذریعے ختم ہوا اور کیمونزم ماسکو تک سُکڑ گیا۔اور اس کی تباہی کے نتیجے میں کئی ریاستیں وجود میں آئیں جس میں چھ اسلامی ریاستیں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں قازقستان،کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان ۔اس کے بعد گوربچوف نے اصلاحات کر کے کیمونزم کا بیڑا غرق کر دیا اور ایک کیمونز م روشن خیال نظام سے دوسرے سرمایادارانہ روشن خیال نظام کی طرف سفر شروع کیا۔

دوسرا روشن خیال معاشرہ مغرب اور امریکی معاشرہ ہی۔ عرف عام میں سرمایادارنہ معاشر ہ کہلاتا ہے . جس میں انسان مشین کی طرح کام کرتا ہی۔ اس میں اِن کے اپنے سروے کے مطابق ۰۴ فی صد بچے ناجا ئز ہیں ان کو اپنے باپ کا پتہ ہی نہیں۔یہ عورت اور مرد کے آزاد ملاپ سے پیدا ہوئے ہیں۔ان کا خاندانی نظام بکھرا ہوا ہی۔انسانی اخلاقی قدریں ختم ہو چکی ہیں۔ایک ہی پانی کے تا لاب میں ماں باپ نوجوان بیٹی ،نوجوان بھائی، نوجوان بہن اور دوسرے افراد اکھٹے نہاتے ہیں جس سے خرابیاں پیدا ہوتیں ہیں۔ایک ہی ہوٹل میں باپ بیٹا کھانا کھاتے ہیں اور ادائیگی علیحدہ علیحدہ کرتے ہیں،۸۱ سال کی بچیوں کو معاشرے میں آزاد چھوڑ دیا جاتا ہے کہ جاؤ اور اپنی معاش تلاش کرو۔بوائے فرینڈ کا رواج عام ہے ۔ اس سے سیکس سوسائٹی وجود میں آئی جو خرابی کی جڑ ہی، مرد شام میں مزدوری کر کے گھر آتا ہے تو بیوی موجود نہیں ہوتی ایک کاغذ پر خط لکھا ہوا ملتا ہے میں دوسرے شوہر کے ساتھ جا رہی ہوں کل صبح کور ٹ میں آ جانا میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی میں نکاح منسوخ کرتی ہوں۔بوڑھے ماں باپ کو ہوسٹلز میں رکھا جاتا ہے سال تک ماں باپ اپنے بیٹوں ،بیٹیوں،نواسی، نواسیوں کو دیکھنے کے لیے ترستے رہتے ہیں سال بعد کرسمس کے موقعہ پر کچھ لوگ پھولوں کے گل دستے کے ساتھ آئے مم ڈیڈ کہا اور فوراّ چلے گئے۔ پھر دنیاداری کے سمندر میں غرق ہو گئے مم ڈیڈ کے آنسوں پھر خشک ہو گئے۔آرام و آسائش ودنیاداری نے مغربی معاشرے کو اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ اسے عام انسانی اخلاقی روحانی قدروں کا پتہ ہی نہیں۔

غالب تہذیب کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ دنیا میں اسی کا بول بولا ہو۔ امریکہ اس مشترکہ روشن خیال تہذیب کو دنیا میں رائج کرنے کوشش کرتارہتا ہے۔اس میں غریب ممالک کے ٓادھے تیتر آدھے بٹیر پرویز مشرف صاحب جیسے لوگ کام آتے ہیں یعنی جو آدھے اپنی مسلم تہذیب اور آدھی بدیسی تہذیب سے متاثر ہوتے ہیں غالب تہذیب کے کام آتے ہیں۔

قرآن شریف میں ہے کہ ’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہی‘‘رسول ؐ نے فرمایا اے خانہ کعبہ تیری بڑی عظمت و احترام ہے مگر اس سے بڑھ کر مسلمان کی عزت واحترام ہے نبی ؐ مہربان نے فرمایا’’ میں مکارم ِاخلاق کے لیے مبعوث کے گیا ہوں تاکہ اخلاق کی تکمیل ہو‘‘ اسلام سے پہلے انسانی قدریں ختم ہو گئی تھیں اسلام کے آنے سے ظلم و زیادتی کا نظام ختم ہوا ۔پڑوسی کے حقوق متعین ہوی، حقوق میں سب برابر ہیں۔آج جو بھی اچھائی دنیا میں ہے وہ اسلام کی وجہ سے ہی۔بادشاہ فقیر سب برابر بقول شاعر ’’تیری دربا میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‘‘ عدل کا نظام قائم کیا، انصاف سب کے لیے برابر، لڑائی ہو گی تو فی سبیل اللہ،عورتوں کے حقوق،بادشاہت کا خاتمہ اور خلافت کا قیام ،فحاشی پھیلانے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ،سود کے نظام کو اللہ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ کہا،شخصی آزادی کا اتنا رواج کہ ایک عام مسلمان کا اپنے خلیفہ سے کہنا کہ اگر تم اللہ اور رسول ؐ کے راستے سے ہٹو گے تو ہم تمیں سیدھادا کر دیں گی۔نکاح کا عام اور سادا نظام، کسی کی تجسس کرنے سے ممانعت ،ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر، برائی سے ایک دوسرے کو روکنا اور نیکیوں میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا،رزق حلال عام ہونا،بغیر ثبوت کے کسی کو پابند سالاسل نہ کرنا،قانون کی حکمرانی، مشاورت کے نظام کا رواج، عورتوں کے حقوق ان کو والدین اور شوہر کے ترکے سے دوگناحصہ،ماں کے پاؤں میں جنتّ،باپ کی دعا میں اللہ کی رضا کی مرضی وغیرہ یہ تھی اسلامی تہذیب کی ایک جھلک جو رسول ؐ نے مدینے کے اندر قائم کی اور خلفاے راشدین نے اپنے دور میں اس پر عمل کیا۔

پرویز مشرف جب امریکہ میں کیمپ ڈیوڈ کے مذاکرات کر کے واپس پاکستان آئے تو سب سے پہلے ترکی اور تیونس کا بیرونی دورہ کرنے گئے تھے ۔ ان دونوں ملکوں میں اسلامی تہذیب کا بیڑ ا غرق کیا گیا تھا اب ترکی میں اربکان صاحب اسلام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ دورہ اس نے امریکی صدر بش کے کہنے پر کیا تھا تاکہ وہاں اسلامی روشن خیالی کا مشاہدہ کر کے آئیں اور اس کو پاکستان میں رائج کریں۔

قارئین ہم سب کو پتہ ہے کسطرح ان دونوں اسلامی ملکوں نے اسلام اور اسلامی قدروں کو تباہ کیا ہوا ہے۔ پرویز مشرف نے روشن خیال پاکستان کے امریکی ایجنڈے پر کام کرتے ہوے ایک فون کال پر پاکستان کو امریکہ کی گود میں ڈال دیا ، ہمارے مسلمان پڑوسی ملک افغانستان کے خلاف امریکہ کو لاجسٹک سہولیات دے کر اُس کو اپنا مخالف بنا لیا،اب ہماری مشرقی سرحد غیر محفوظ ہو گئی جس کا نقصان اب تک پاکستان اُٹھا رہا ہی۔ تعلیمی سلیبس میں سے اسلامی شخصیات کے نام نکال کر این جی اوز کے نام ڈال دیے،جہاد کے مضامین،قرآنی آیات اور اسلامی تہذیب کے نام و نشان مٹا دیے۔ اسمبلی سے بدنامِ زمانہ حدودآرڈیننس پاس کروایا اور کہا’’ نسواں بل کے مخالف جھوٹے اور منافق ہیں خواتین اعتدال پسندوں کو ووٹ دیں پھر لاہور میں کہا میں مختاراں مائی اور شازیہ کے ساتھ ہوں، نسواں بل تبدیل نہیں ہوگا‘‘، جامعہ لال مسجد اور مدرسہ حفصہ پر فاسفورس کے بم ما رکر اس میں قوم کی بیٹیوں کو ناحق شہید کیا، اسلام آباد کی مساجد کو شہید کیا، اسلامی مدارس پر طرح طرح کے الزامات لگاے اور انہیں تباہ کرنے کی پوری پوری کوشش کی ، میراتھن ریس قوم کی خواتین سے کروائی، ملک میں فحاشی کا طوفان بدتمیزی برپا کیا۔ صدر مملکت ہوتے ہوئے اپنے ایک شہری اکبر بگٹی کو اعلانیہ قتل کروایا۔ ۰۰۶ مسلمانوں کو امریکہ کے حوالے کیا اور اس حوالگی کے عوض امریکہ سے ڈالر حاصل کیے۔ان میں اب بھی بہت سے گوانتا موبے کی جیل میں امریکی اذیت برداشت کر رہے ہیں۔مسلمان قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو ڈالر کے عو ض امریکہ کے حوالے کیا جو اب بھی امریکی جیلوں میں بند ہیں، اور ۸۸ سال کی سزا کاٹ رہی ہی۔ مختاراں مائی کو امریکہ کے حوالے صرف اس لیے کیا کہ وہ ایک واقعے کو بنیاد بنا کر اسلام کو مغرب میں بدنام کرتی پھرے جبکہ ایسے واقعات مغرب میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہزاروں پاکستانیوں کو دن دہاڑے امریکی خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کیا جو آج تک غائب ہیں ان کا اتا پتا نہیں لگ رہا۔پاکستان کے محسن ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دنیا کے سامنے ذلیل کیا اور ان سے زبردستی جھوٹ بلوایا بلکہ اُن کو امریکہ کے حوالے کرنا چاہتا تھا سابق وزیر اعظم جمالی صاحب کا انکشاف اور ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی تصدیق۔ امت مسلمہ اور پاکستانی قوم کو مختلف وقتوں میں تقاریر کر کے دنیا کے سامنے ذلیل کیا۔ ایک ٹیلیفون کال پر امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور ایک اسلامی ملک کا بیڑا غرق کروا دیا ٰ جبکہ ایران نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ۔کیا امریکہ ایران کو کھا گیا؟سب سے بڑی غلطی ،پاکستان کے آئین کو دو دفعہ توڑا۔عدلیہ کے ججوں کو قید کیا ۔ کیا پرویز مشرف اپنے اسلامی ملک افغانستان کے خلاف امریکی کاروائی میں شریک نہیں ہوا؟کیا اس سے ہماری مغربی سرحد غیر محفوظ نہیں ہو گئی؟کیا ہمارا ازلی دشمن بھارت اس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا ہی؟۔اپنے ہی لوگوں پر ایف سولہ جٹ تیاروں سے بمباری کی اور اب بھی ہو رہی ہی،امریکی کہنے پر اس کی صلیبی جنگ کو پاکستان میں لے آیا جسے پاکستانی قوم اب تک بھگت رہی ہے۔دنیا کی سب سے بڑی ہجرت (سوات) اپنے ہی ملک میں پاکستانیوں کو برداشت کرنی پڑی اور ابھی تک برداشت کر رہے ہیں، ملک تباہ و برباد ہو چکا ہے امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے مطابق ملک کے ۹ نامور جرنیل شہید ہو چکے ہیں دوسرے فوجی اس کے علاوہ ہیں۔ پرویز مشرف خود ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا ہی۔ اور واپس آنے کے لیے ترس رہا ہے ۔جھوٹ پر مبنی ٹیلی تھون پر پروگرام کیااور پاکستانیوں کی نفرت کا سامنا کیا۔ چند دن قبل اپنی پارٹی کا اعلان برمنگھم میں کیا اور اس دن سے جھوٹ بول رہا ہے پاکستان مخالف بیان دے رہا ہے مگر ملک میں نہیں آسکتا۔پاکستان اسٹیل مل کو سستے داموں بیچنے کی کوشش کی جو پاکستان کی عدلیہ بچایا۔ حبیب بنک کو کوڑیوں کے دام پر فروخت کیا ۔کیا کیا بیان کیا جائی۔

قارئین ڈکٹیٹر کی حسرت پر غور فرمائیں ،فرما تے ہیں مجھے ۵ سال مزید اقتدار میں رہنا چاہئیے تھا مجھے نہیں پتہ تھا فوج میری وردی اُترنے کے بعد مخالف ہو جائے گی۔ یہ ہے مکافات عمل جو اللہ نے پرویز مشرف کی قسمت میں لکھا ہوا تھا جو بھی اسلام کے ساتھ ٹکرایا اس کو اللہ تعالیٰ نے نشانِ عبرت بنا دیا۔یہ ہے زبردستی اسلامی سوسائٹی میں روشن خیالی کے نفاذ کا تجربہ جو برُی طرح ناکام ہوا اور اس کی باقیات کا بُرا حشر ہوا ۔الحمداللہ پاکستان اب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور انشااللہ آئندہ بھی اسلام کا قلعہ رہے گا چاہے دشمنوں کو پسند نہ ہو۔
Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094953 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More