امریکی کانگریس نے اپنی ایک
رپورٹ میں بڑی دیدہ دلیری سے کہا ہے کہ پاک فوج کے پاس دہشت گردی سے مقابلہ
کر نے کے لیے کو ئی منصوبہ نہیں ہے۔ یعنی ایک بار پھر اپنی نا کامی کا
الزام پاکستان کے سر رکھ دیا گیا اس لا یعنی امریکہ کی خود ساختہ اور
پاکستان پر مسلط کردہ جنگ میں پاکستان کے عوام اور فوج نے جس قدر قربانیاں
دیں وہ خود امریکہ اور اسکے اتحاد یوں کی مجموعی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے
جس پر کسی پاکستانی کو فخر نہیں لیکن دکھ ضرور ہے ہاں اپنے ملک میں امن
بحال کرنے کے لیے ہماری فوج اور دوسرے سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے اپنے
عوام کی جانیں بچانے کے لیے جس طرح اپنی جانیں قربان کیں وہ قابل فخر ہیں
اور اس سارے جانی نقصان کا ذمہ دار امریکہ ہے اس نے علاقے میں اپنی موجود
گی کے لیے دہشت گردی کا شوشا چھوڑا اور پھر یہاں اسے پروان چڑھا یا میں
ایسا اس لیے کہہ رہی ہوں کہ خود امریکہ کی یہاں موجودگی ہی دہشت گردی کی
بڑی وجہ ہے آج امریکہ یہاں سے کوچ کر جا ئے دہشت گردی کا مسئلہ خود بخود
ختم ہوجائے گا کیونکہ یہ جنگ دراصل امریکہ کے خلاف ہے جسے وہ اپنے دیگر مدد
گاروں کے ذریعے پاکستان اور افغانستان میں لڑ رہا ہے اور وہ مددگار بھارت ،
اسرائیل اور نیٹو ممالک کی افواج ہیں جبکہ بھارت اور اسرائیل کی خفیہ
ایجنسیاں مسلسل پاکستان میں گڑبڑ پھیلانے میں مصروف ہیں بلکہ تمام تر دہشت
گردی کی منصوبہ بندی انہی لوگوں کی مرہون منت ہے پیسہ ادھر ہی سے آرہا ہے
کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وزیرستان، سوات، خیبر یا بلوچستان کے وہ غریب
لوگ جو دو وقت کے کھانے کو ترستے تھے ، وہ لوگ جو انتہائی معمولی کاروبار
یا مزدوری کرتے تھے اچانک لیڈر بن گئے بڑی بڑی گاڑیوں کے مالک بن گئے ظاہر
ہے یہ سب کچھ بیرونی مدد کے بغیر ممکن نہ تھا اور نہ ہے یہ مدد اب بھی جاری
ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے اب ہر الزام پاکستان پر دھر رہے ہیں کہ اُس کے
پاس دہشت گردی روکنے کا کوئی منصوبہ نہیں جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ پاکستان
اس محاذ پر کئی دشمنوں سے بر سرپیکار ہے اگر چہ پاکستان کے عوام کو اس بات
پر اعتراض ہے کہ ہم امریکی جنگ سرزمین پاکستان پر کیوں لڑ رہے ہیں۔لیکن کیا
ایسا نہیں ہے کہ یہی طاقتیں پاکستان کے کسی منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار
نہیں ہونے دیتی کیونکہ اگر اس جنگ کو ختم کرنے میں پاکستان کامیاب ہو جائے
تو آخر امریکہ کو یہاں رکنے کے لیے کیا جواز پیش کرنا ہوگا پاکستان اپنی
تمام تر قوت اور اپنے وسائل سے بڑھ کر اس جنگ پر خرچ کر رہا ہے ہم نے اپنی
معاشی، معا شرتی، تعلیمی ، طبی ہر قسم کی ترقی داؤ پر لگا دی ہے امریکہ اس
جنگ کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں اسی لیے بات بات پر پاکستان کی امداد
روکنے کی دھمکیاں دینے لگتا ہے اس بات کا احساس کئے بغیر کہ پاکستان اپنے
وسائل سے بڑھ خرچ کررہا ہے۔حکومت پاکستان کو امریکہ کے اس اعتراض پر ایک
مضبوط موقف اپنانا چاہیئے اگر چہ ابھی تک ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے
اور اگر آیا بھی ہے تو بہت جلد ہتھیار ڈال دیئے گئے ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ
ہی لیجئے جس کے لیے ایک بھونڈا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ مقتولین کے
رشتہ داروں نے دیت قبول کر لی معاملہ مقتولین اور اسکے رشتہ داروں تک محدود
ہوتا تو بات قبول ہوتی لیکن معاملہ تو جاسوس ریمنڈ ڈیوس کا تھا اپنے مقاصد
کے لیے کا رندے بھرتی کرنے کا تھا۔ فیضان اور فہیم جو بھی تھے ان کے ورثا
نے دیت جیسے بھی قبول کی حکومت پاکستان کوئی مضبوط موقف نہ اپنا سکی ڈرون
حملوں کو ہی لیجئے شروع شروع میں تو احتجاج ہو ہی جاتا تھا اب تو وہ بھی
نہیں ہو رہا ۔ شمالی وزیرستان میں جرگے پر ڈرون حملے پر فوج نے جو شدید
احتجاج کیا اُس کے بعد حکومت کو بھی یہ احساس ہوا کہ شمالی وزیرستان کے لوگ
بھی پاکستانی ہی تھے اور مرنے والوں میں کوئی نام نہا د دہشت گرد بھی نہیں
تھا اور درحقیقت یہی احتجاج تھا جو امریکہ کو کھٹک گیا اور اُس نے پاکستان
پر اعتراضات بڑھا دیئے کہ پاکستان کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ وہ
دہشت گردی روک سکے ۔حکومت اور سیاست کی تو جو بھی مصلحتیں ہوں لیکن ایک عام
پاکستانی اس کا بڑا آسان حل پیش کرتا ہے افغانستان سے امریکی فوجوں کی
واپسی اور وہاں کے لوگوں کو اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کا حق دینا اور
پاکستان میں خفیہ سرگرمیاں چاہے خود یا کسی اور ملک کے توسط سے ہوں ختم کر
نا ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی غربت اور معصومیت کا فائدہ اٹھانا بند کرنا ہوگا
ان پر بمباریاں بند کرنی ہونگی اور یہ توقع رکھنا کہ امریکہ خود ایسا کر لے
گا یا میرے جیسے عام پاکستانیوں کے لکھنے کہنے سے بند کر دے گا سراسر حماقت
ہے ایسا کروانے کے لیے ہماری حکومت کو کچھ کرنا ہوگا اور اپنی اہمیت منوانی
ہوگی امریکہ بھی جانتا ہے کہ اس وقت اُسے پاکستان کی کتنی ضرورت ہے اور یہی
وجہ ہے کہ وہ آجا کے اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کے سر رکھ دیتا ہے جو
اُس نے ابھی بھی کیا وہ جانتا ہے کہ پاک فوج ہی کی منصوبہ بندی تھی کہ سوات
میں طالبان کے خلاف فتح ممکن ہوسکی لہٰذا امریکہ کو یہ بیان سوچ سمجھ کر
دینا چاہیے تھا بلکہ اگر وہ اسے اپنی فوج پر منطبق کرکے کہہ دے تو زیادہ
بہتر ہوگا جس نے اگر کہیں کوئی کامیابی حاصل کی بھی تو منصوبہ بندی کی وجہ
سے نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر اور عام شہری آبادی کے قتل عام سے ہی ،کہ
حکومتیں اپنے شہریوں کے مزید قتل عام کے خوف سے جنگ بندی پر مجبور ہو جاتی
ہیں لیکن پاکستان جنگی طاقت کے لحاظ سے نہ تو عراق ہے نہ افغانستان ، ویت
نام یا لیبیا ۔اور یہ امریکہ کو بہر حال ایک سخت مقابلہ دے سکتا ہے اور یہ
بھی یاد رہے کہ سی آئی اے کی طرح امریکہ فوج کے سر بھی کسی عظیم منصوبہ
بندی کا سہرا نہیں ہے۔ یہی حال اُس کا افغانستان میں بھی ہے کہ آٹھ سال سے
لڑتی ہوئی جنگ کو وہ کسی انجام تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ لہٰذا ان کے الزام
کے جواب میں حکومت پاکستان کو ان تک اپنا اور پاکستانی عوام کا مخلصانہ
مشورہ اور منصوبہ پہنچا دینا چاہیئے کہ افغان مسئلے اور دہشت گردی کی جنگ
کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ امریکہ خطے سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لے تاکہ
یہاں کے لوگ امن اور چین سے رہ سکیں اور وہ اپنی جنگ اپنے ملک میں لڑے تو
پوری دنیا جو امریکہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اس آگ میں جھونکی گئی ہے محفوظ
ہوجائے گی۔ |