بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’استغناء و بے نیازی‘‘ کہتے ہیں لوگوں کی خوش حالی ، مالی فراوانی اور اُن
کے مرتبہ و اقتدار سے لاپرواہ اور بالاتر ہوکر اِس طرح زندگی گزارنے کو کہ
اﷲ تعالیٰ کے علاوہ انسان کوکسی سے کچھ پالینے یا مل جانے کی حرص و طمع نہ
رہے ۔ چناں چہ انسان کی بے نیازی یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ بے نیاز ذات کے
علاوہ دوسرے تمام لوگوں سے بے نیاز اور مستغنی ہوکر زندگی گزارے۔ نہ کسی کے
مال و دولت پہ نظر ہونہ عہدہ و اقتدار پہ، نہ جاہ و منزلت پہ نظر ہو نہ شان
و شوکت پہ۔اِس لئے کہ جو لوگ دُنیا میں خوش حالی و فراوانی کی زندگی گزار
رہے ہیں وہ خوداُس ذات سے بے نیاز نہیں ہوسکتے جو سب سے بڑھ کر بے نیاز ہے۔
لہٰذا انسان کو مخلوق سے مستغنی و بے نیاز ہوکر اُس بے نیاز ذات کے سامنے
دست سوال دراز کرنے کے لئے جھکنا چاہیے جو تمام مخلوقات سے مستغنی اور بے
نیاز ہے۔ اور دُنیا بھر کے تمام امیر و غریب اورشاہ و فقیر اُس کے در کے
سوالی اورحاجت مند ہیں۔
چناں چہ خود اﷲ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں: ’’ترجمہ:اے لوگو! تم سب
اﷲ کے محتاج ہو، اور اﷲ بے نیاز ہے، ہر تعریف کا بہ ذاتِ خود مستحق!‘‘(سورۂ
فاطر: ۱۵/۳۵) دوسری جگہ فرماتے ہیں:
’’ اور اﷲ بے نیاز ہے اور تم ہو جو محتاج ہو!‘‘(سورۂ محمد:۳۸/۴۷)ایک جگہ
فرماتے ہیں: ’’ترجمہ: اﷲ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، بے شک
اﷲ تعالیٰ ہی ہے جو سب سے بے نیاز ہے، بہ ذاتِ خود قابل تعریف ہے!‘‘(سورۂ
لقمان:۲۶/۳۱)ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’اور اگر کوئی ناشکری کرے تو اﷲ بڑا بے
نیاز ہے ہے، بہ ذاتِ خود قابل تعریف!‘‘ (سورۂ لقمان:۱۲/۳۱) ایک جگہ فرماتے
ہیں: ’’ترجمہ:اور اگر کوئی انکار کرے تو اﷲ دُنیا جہاں کے تمام لوگوں سے بے
نیاز ہے!‘‘ (سورۂ آلِ عمران: ۹۷/۳)ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’یقینا اﷲ دُنیا
جہان کے لوگوں سے بے نیاز ہے!‘‘ (سورۂ عنکبوت: ۶/۲۹)
اسلام میں استغناء و بے نیازی کا سب سے بڑا اور اہم اُصول ’’قناعت پسندی‘‘
ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو کچھ ملا ہے اُس
پر صبر و شکر کرے اور زیادہ کی حرص وطمع نہ کرے۔چناں چہ خود اﷲ تعالیٰ نے
اِس سے منع فرمایا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ’’ترجمہ:اور جن چیزوں میں ہم نے
تم کو ایک دوسرے پر فوقیت دی ہے ، اُس کی تمنا نہ کرو!‘‘ (سورۂ
نساء:۳۲/۴)ایک دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’ترجمہ: اور دُنیوی زندگی کی اُس بہار
کی طرف آنکھیں اُٹھاکر بھی نہ دیکھو جو ہم نے اِن (کافروں) میں سے مختلف
لوگوں کو مزے اُڑانے کے لئے دے رکھی ہے!‘‘(سورۂ طہ: ۱۳۱/۲۰)
بعض لوگ انتہائی مال دار اور دولت مند ہوتے ہیں، لیکن اِس کے باوجود بھی وہ
مال دولت کی حرص و طمع میں مبتلا رہتے ہیں۔ اِس لئے وہ مال دار اور دولت
مند ہونے کے باوجود محتاج اور حاجت مند رہتے ہیں۔ لیکن اِس کے برخلاف بعض
لوگ انتہائی غریب اور مفلس ہوتے ہیں، لیکن اِس کے باوجود وہ زیادہ مال و
دولت کی حرص و لالچ میں نہیں پڑتے ، بلکہ جو کچھ ’’قوت لایموت ‘‘ میسر
آجائے، اُس پر قناعت کرلیتے ہیں ، چناں چہ وہ باوجود مفلس اور غریب ہونے کے
مستغنی اور بے نیاز ہوتے ہیں۔اِس لئے کہ استغناء و بے نیازی کا تعلق مال و
دولت کی کمی زیادتی سے نہیں، بلکہ اُس کا تعلق قلب و روح کی پاکیزگی سے ہے۔
چناں چہ حدیث شریف میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
کہ: ’’غنی و بے نیاز ہونا کچھ مال پر موقوف نہیں، بلکہ اصل تونگری تو دل کا
بے نیاز ہونا ہے!‘‘(بخاری و مسلم) ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : ’’دینے والے کا
ہاتھ مانگنے والے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور جو شخص تعفّف اور قناعت حاصل
کرنا چاہتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے قناعت پسند بنادیتے ہیں۔ اور جو شخص لوگوں کے
سوال سے مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہتا ہے، اﷲ تعالیٰ اسے غنی و بے نیاز
فرمادیتے ہیں۔ (بخاری و مسلم) ایک مرتبہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے فرمایا کہ جو کچھ آپ کی قسمت میں ہے اگر آپ
اُس پر راضی ہوجائیں تو آپ سب سے زیادہ بے نیاز ہوجائیں گے۔ (صحیح ابن
حبان)
اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ ایسے بے تاج بادشاہوں کے واقعات سے بھری
پڑی ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں اِس فانی دُنیا کی زیب و زینت کی طرف
آنکھ اٌٹھاکر کبھی غلطی سے بھی نہیں دیکھا۔ قاضی بکار بن قتیبہ رحمہ اﷲ مصر
کے مشہور محدث اور فقیہ گزرے ہیں۔ امام ابو جعفر طحاوی رحمہ اﷲ کے استاذ
ہیں۔ امام طحاوی رحمہ اﷲ نے ’’شرح معانی الآثار‘‘ میں متعدد حدیثیں آپ کی
سند سے روایت کی ہیں۔اُن کے زمانہ میں احمد بن طولون مصر کے حکم رَان تھے۔
وہ قاضی بکار رحمہ اﷲ کے درسِ حدیث لینے کے لئے خود اُن کی مجلس میں پہنچ
جاتے تھے۔ اُن کا دربان پہلے مجلس کے قریب پہنچ کر لوگوں سے کہہ دیتا کہ :
’’کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ اُٹھے !‘‘ اُس کے بعد ابن طولون چپکے سے آکے
بیٹھ جاتے اور عام طلباء کی صف میں بیٹھ کر حدیث کا درس لیتے۔ ایک زمانہ تک
ابن طولون اور قاضی بکار رحمہ اﷲ کے تعلقات بہت خوش گوار رہے۔ اور اُس عرصہ
میں احمد بن طولون قاضی صاحب کی تنخواہ کے علاوہ اُن کی خدمت میں سالانہ
ایک ہزار دینار بہ طورِ ہدیہ پیش کیاکرتے تھے ۔اتفاق سے ایک سیاسی مسئلہ
میں قاضی صاحب اور احمد بن طولون کا اختلاف ہوگیا ، احمد بن طولون چاہتے
تھے کہ وہ اپنے ولی عہد کو معزول کرکے کسی اور کو ولی عہد بنائیں اور قاضی
صاحب سے اس کی تصدیق کروا ئیں۔ قاضی صاحب اسے درُست نہ سمجھتے تھے۔ اِس لئے
اُنہوں نے انکار کردیا، جس کی وجہ سے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور نوبت یہاں تک
پہنچی کہ ابن طولون نے قاضی صاحب کو قید کردیا۔ اور یہ پیغام اُن کے پاس
بھیجا کہ : ’’جتنے دینار آپ کو بہ طورِ ہدیہ دیئے گئے وہ سب واپس
کیجئے!‘‘سالانہ ایک ہزاردینار دینے کا سلسلہ اٹھارہ سال سے جاری تھا۔ اِس
لئے مطالبہ یہ تھا کہ اٹھارہ ہزار دینار فوراً واپس کئے جائیں ! ابن طولون
سمجھتے تھے کہ یہ مطالبہ قاضی صاحب کو زچ کردے گا ، لیکن جب پیغام اُن کے
پاس پہنچا تو قاضی صاحب کسی تردّد کے بغیر اندر تشریف لے گئے اور گھر سے
اٹھا رہ تھیلیاں نکال لائے، جن میں سے ہر ایک تھیلی میں ہزار ہزار دینار
تھے ، یہ تھیلیاں جب ابن طولون کے پاس پہنچیں تو اُس نے دیکھا کہ یہ تو
بعینہٖ وہی تھیلیاں ہیں، جو قاضی صاحب کے پاس بھیجی گئی تھیں اور اُن کی
مہریں تک نہیں ٹوٹی تھیں ۔ ابن طولون یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قاضی بکا
ررحمہ اﷲ نے اُن میں سے ایک تھیلی بھی نہیں کھولی، بلکہ اسے جوں کا توں
محفوظ رکھ لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ قاضی بکاررحمہ اﷲ نے اسی خیال سے
اُنہیں استعمال نہیں کیا کہ امیر سے بلا شبہ اِس وقت تعلقات اچھے ہیں ،لیکن
اگر کبھی اختلاف پیدا ہوا تو اُنہیں جوں کا توں واپس لوٹادوں گا۔ ابن طولون
قاضی بکار رحمہ اﷲ کی یہ بلندیٔ کردار، ذہانت و حکمت اور استغناء و بے
نیازی کی یہ نرالی شان دیکھ کرشرم سے عرق عرق ہوگئے ۔ ( النجوم الزاہرہ فی
اخبار ملوک مصر والقاہرہ : ۱۹/۳)
کہاں سے اے اقبال تونے سیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا بادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا
اِس کے برعکس فانی دُنیا کے پجاریوں کا یہ حال ہے کہ ایک مرتبہ حضوراقدس
صلی اﷲ علیہ وسلم کیخدمت میں ایک شخص نے گھی،پنیراور ایک مینڈھا پیش کیا،آپ
علیہ السلام نے گھی اور پنیر قبول فرمالیا اورمینڈھا واپس کردیااور آپ علیہ
السلام کی یہ عادت شریفہ بھی تھی کہ بعض کا ہدیہ قبول فرمالیتے اور بعض
کاردّفرما دیتے ۔ چناں چہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ:
’’میرایہ ارادہ ہے کہ کسی شخص کا ہدیہ قبول نہ کروں بجزاُن لوگوں کے جو
قریشی ہوں یا انصاری یاثقفی یا اوسی۔اور اس ارشاد کا مبنیٰ یہ تھا کہ ایک
اعرابی نے آپ علیہ السلام کی خدمت میں ایک اونٹنی پیش کی۔ آپ علیہ السلام
کی عادت شریفہ چوں کہ ہدیہ کابدلہ مرحمت فرمانے کی تھی ۔اس لئے اُس کے بدلے
میں آپ علیہ السلام نے چھ اونٹ اُس کو دئیے، جو اُس نے کم سمجھے کہ وہ اُن
سے بھی زائد کا اُمید وار تھااور اِس پراُس نے ناگواری کا اظہار کیا۔ جب آپ
علیہ السلام کو اِس واقعہ کا علم ہوا توآپ علیہ السلام نے وعظ میں اِس
واقعہ کو ذکر فرما کر اپنے اِس ارادہ کا اظہار فرمایااور جن لوگوں
کومستثنیٰ کیااُن کے اخلاص پرآپ علیہ السلام کواعتماد تھا۔(بذل المجہود شرح
سنن ابی داؤد)
خلاصہ یہ کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ کے سوا تمام دُنیا سے مستغنی اور بے نیاز
ہوکر زندگی گزارنی چاہیے۔ وہ غلطی سے بھی لوگوں کے مال و دولت، عہدہ و
قتدار اور جاہ و منزلت کی طرف نظر اُٹھاکر بھی نہ دیکھے ۔ بلکہجو کچھ اﷲ
تعالیٰ نے اسے عطاء فرما رکھا ہے صبر و شکر کے ساتھ اسی پر قناعت کرے۔ اور
لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے کے بجائے اُس بے نیاز ذات کے سامنے اپنا
دامن پھیلائے جو سب سے بڑھ کر غنی اور بے پرواہ ہے اور تمام دُنیا قدم قدم
پر اُس کی محتاج ہے اور وہی ایک سب کا حاجت روا ہے۔
|