برق گرتی ہے تو صرف اہلِ مدارس پر کیوں۔۔۔؟

مدرسے یا دینی ادارے آج کی پیداوار نہیں ہیں ۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ دین اسلام کی پہلی درسگاہ مدینۃ المنورہ میں ’’صفہ ‘‘ تھی جسے دین اسلام کی پہلی یونیورسٹی کہا جاتاہے۔ اس درسگاہ میں پڑھنے والے صحابہ کرام اور پڑھانے والے معلم اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہوتے تھے۔ وہاں قرآن پڑھایا جاتا تھا اور اسی کے متعلق تشریحات بیان کی جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ چلتا ہوا آگے بڑھا۔ بعد کے دور میں بھی اسی طرز پر مدرسے قائم ہوئے۔ لوگوں نے بذات خود اپنے اوپر دینی تعلیم کا حصول لازمی قرار دیا۔ ہر گھر سے ایک فرد لازمی دینی تعلیم حاصل کرنے جاتا تھا اور اپنے گھروالوں کو سکھا تا تھا۔ اور یہی سلسلہ آج تک چلا آرہاہے۔ اسپین میں مسلمانوں کا آٹھ سو سالہ سنہری دور اسی طرح کے مدارس اور دینی اداروں کا مرہونِ منت تھا۔ آج کے دور کے مدارس کا جائزہ لیاجائے تو وہاں بھی قرآن، حدیث اور فقہ سے متعلق مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔

اپنا نظریہ ، سوچ اور فکر درست کریں کہ مدارس اور دینی جامعات میں ٹیررزم نہیں بلکہ اینٹی ٹیررزم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ انہیں اسلامی تعلیم دی جاتی ہے۔ آداب و اخلاق سکھائے جاتے ہیں۔ صبر اور قناعت کا درس دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو اب بھی مدرسوں اور دینی اداروں سے الرجی ہے تو اس کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے ایک بچے کو انگریزی اسکول ، کالج یا یونیورسٹی میں داخل کرائے اور ایک بچے کو مدرسہ یا جامعہ میں داخل کرائے۔ پھر چند سالوں بعد ہی اسے دونوں بچوں میں خاص فرق محسوس ہوگا۔ ان بچوں کے رویے ، طور طریقے، رہن سہن ، طرزِ زندگی ، گفتگو کا سلیقہ اور عادات خود بتائیں گے کہ کس بچے نے کہاں سے کیا سیکھا۔ دینی ادارے میں پڑھنے والا بچہ فرمانبردار اور تربیت یافتہ ہوگا جبکہ انگریزی تعلیمی اداروں سے پڑھنے والے بچے کے پاس تعلیم تو ہوگی لیکن اس میں تربیت کی کمی ہوگی۔ لہٰذا نصاب مدرسوں کا نہیں بلکہ انگریزی تعلیم کا نصاب بدلنے کی ضرورت ہے جن کے اندر سب سے بڑی چیز ’’انسانیت‘‘ کی کمی ہوتی ہے۔ وہ اپنے فن میں تو ماہر ہیں لیکن ان میں انسانیت نام کی چیز نہیں ہے۔ آئے روز اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے احتجاج اور بائیکاٹ ہوتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے مریض پریشان ہوجاتے ہیں۔ چاہے مریض تڑپ رہاہو یا مر رہاہو، انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اسی طرح کتنے ہی اسپتال ایسے ہیں جہاں بغیر فیس کے مریض کو ہاتھ تک نہیں لگایا جاتا۔ اتنی بڑی بڑی ڈگریاں لینے والوں کے اندر ’’ ہمدردی اور انسانیت ‘‘کا جذبہ چھو کر بھی نہیں گزرا۔ اس کی سب سے بڑی مثال لاہور میں پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں وکلاء اور ڈاکٹروں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ حالانکہ ڈاکٹروں کے ساتھ وکلاء بھی پڑھے لکھے طبقوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وکلاء کے اس انسانیت سوز حرکتوں پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہ وکالت کا نصاب تبدیل کیاجائے۔ وکیل بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں انسان بھی بنایا جائے۔ انہیں اخلاقیات اور آداب سکھائے جائیں۔ ان میں انسانی ہمدردی پیدا کی جائے۔ وکلاء کی دہشتگردی اس کا بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ان کے نصاب میں انسانیت اور اخلاقیات کے اسباق شامل کیے جائیں۔ انہیں پڑھاتے وقت یہ باور کرایا جائے کہ دوسرے لوگ بھی انسان ہی ہیں، کوئی اور مخلوق نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے وکلاء اپنی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگ جاتے ہیں۔

اسی طرح حکومت کی جانب سے وقتا فوقتاً مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کی باتیں کی جاتی ہیں، حالا نکہ ابھی جو تعلیمی ادارے مرکزی دھارے میں ہیں، ان کا کیا حال ہے؟ ان کا تعلیمی معیار کیا ہے؟ سب کے سامنے ہے۔ وزارتِ تعلیم کے تحت چلنے والے اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کا نظام ناکارہ اور بوسیدہ ہے، نقل کلچر نے نظامِ تعلیم کو تباہ و برباد کرکے رکھا ہوا ہے ۔ ایسی صورت میں محکمۂ تعلیم سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے وہ دینی اداروں کو احسن طریقے سے چلاپائیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر دینی ادارے بھی مرکزی دھارے میں چلے گئے تو لوگوں کی نہ دنیا بچے گی اور نہ دین بچے گا۔

ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ یا نظام سو فیصد درست نہیں ہوسکتا۔ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں کالی بھیڑوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان کالی بھیڑوں کی وجہ سے پورے شعبے کو ملامت کرنا کسی بھی صورت درست نہیں ہوسکتا۔ ایک سادہ اور عام مثال ہے کہ مسجد میں سے اگر چپل چوری ہوجائیں تو ایسی صورت میں نہ ہی مساجد کو تالے لگائے جائیں گے او ر نہ ہی نمازیں چھوڑی جائیں گی۔ بلکہ چور کو تلاش کرکے اسے سزا دی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی دینی ادارے سے کوئی غیر قانونی یا غیر آئینی کام ہو رہاہوتو انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ صرف اسی ادارے کو نشانہ بنایاجائے ، صرف فرد واحد کے جرم کو بنیاد بناکر پورے دینی نظام تعلیم اور تمام دینی اداروں پر کیچڑ اچھالنا بددیانتی ہوگی۔ یہ صرف دینی اداروں کی بات نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ کسی بھی شعبہ یا طبقہ میں پیش آسکتا ہے۔ کسی کالج یا یونیورسٹی میں کوئی معاملہ ہوجاتاہے تو اس کا دائرہ اسی ادارے تک رہتا ہے۔ اس کی بنیاد پر پورے نظام تعلیم پر تنقید نہیں کی جاتی۔ لیکن جب بات دینی ادارے پر آتی ہے یا کسی باشرع شخص کی غلطی پر آتی ہے تو ایک فرد کی غلطی کی وجہ سے پورے نظام پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ آخر دینی طبقوں سے یہ امتیازی سلوک کیوں کیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں دینی طبقہ ہمیشہ نشانے پر رہتا ہے۔ اس کی معمولی غلطی کو بھی بہت بڑا پہاڑ بناکر دکھایاجاتا ہے۔ عجیب منطق ہے کہ انسانیت سوز حرکتیں ، غنڈہ گردی، جعل سازی، بھتہ خوری، لوٹ مار ، خواتین کی آبرو ریزی، بدتمیزی، قانون شکنی، توڑپھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ وغیرہ مغربی طرز پر دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے اور سیاسی جماعتیں کریں اور بات دینی مدارس کے نصاب بدلنے کی کی جائے۔ خدارا! اپنی سوچ اور فکر کا دھارا درست سمت میں لائیں اور خوامخواہ دینی طبقوں کو نشانہ مت بنائیں۔ نیز جس طبقے اور شعبے میں جو قانون شکنی کرتا ہوا پایاجائے صرف اسی کو ملامت کرکے آئین و قانون کی روشنی میں سزا دی جائے، اس کی بنیاد پر پورے نظام کو لعن طعن نہ کیا جائے، چاہے وہ شعبہ دینی ہو یا دنیوی۔
 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 74485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.