معاشرت انسان کی فطری ضرورت ہے۔ اﷲ نے انسان کو محض
ایک فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔اسلام
انسانوں کے باہمی میل جول سے پیدا ہونے والی اجتماعیت کو نہ صرف تسلیم کرتا
ہے بلکہ اس اجتماعیت کی نشوونما میں انسان کی معاونت بھی کرتا ہے اور ایسے
فطری اصول دیتا ہے جس سے اجتماعیت کوتقویت حاصل ہوتی ہے۔ ایمان ،محبت اور
ایثار کی بنیادوں پر استوار اجتماعیت و معاشرہ ’’تنازع للبقا ‘‘کے بجائے’’
تعاون اور اشتراک عمل‘‘ کامظہر ہوتاہے جہاں ہر شخص ایک دوسرے کا معاون و
مددگارہوتا ہے جو گرنے والے کوگرنے نہیں دیتا بلکہ گرنے والے کو تھامنے کے
لئے سینکڑوں ہاتھ آگے بڑھتے ہیں ،جوپیچھے رہنے والوں کو نہیں چھوڑتابلکہ
انہیں سہارا دے کر آگے بڑھاتا ہے۔ بین الشخصی تعلقات آدمی کو حالات اور
زندگی سے مقابلہ کرنے کے لائق بناتے ہیں ۔ایک بات جسے ہمیں اپنے ذہنوں میں
رکھنے کی شدید ضرورت ہے کہ تمام چیزیں انسان کو یک لخت و فوراً حاصل نہیں
ہوسکتی ہیں ۔ اسی طرح تعمیر شخصیت وسیرت کی مکمل منصوبوں اور اس کی اسکیم
کو پوری طرح سمجھنے کے بعد ہمیں چاہئے کہ ایک ایک چیز کولیتے جائیں اور یہ
امر بھی لازمی ہے کہ اپنائی گئی چیزوں کواختیار کرنے کی کوشش کریں۔
تدریجاًایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری چیز لیتے جائیں۔بین الشخصی
تعلقات بھی ایک تدریجی اور مسلسل عمل ہے جس پر استقامت سے جمے رہنا ضروری
ہے۔تعمیر سیر ت اور بین الشخصی تعلقات کو استوار کرنے کے ضمن میں حضرت عبداﷲ
بن عمرؓ کا تکمیل سورہ بقرہ کا واقع ایک درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے سورۃ البقر ہ کی تکمیل میں سات سے آٹھ سال کا عرصہ
صرف کیا۔جب اس قدر تاخیر سے سورہ بقرہ کی تکمیل کی وجہ دریافت کی گئی تو آپؓ
نے فریا کہ میں ایک چیز کو پڑھتاتھا ، اس کو اختیار کرتھاتب جاکے آگے بڑھتا
تھا۔حقیقت بھی یہ ہی ہے کہ بین الشخصی تعلقات ہو یا شخصیت کی تعمیر یا سیرت
کی تشکیل و تعمیر یہ ایک مسلسل تدریجی اورانتھک عمل ہے۔یہ مقصد سعی پیہم و
جہد مسلسل سے حاصل ہوتا ہے۔بین الشخصی تعلقات کا علم استادنہ صرف خود حاصل
کرے بلکہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے اپنے طلبہ میں بھی ماہرانہ انداز میں
منتقل کرے۔استاد اور طلبہ بلکہ ہر فرد کو سیر ت کی تعمیر اور بین الشخصی
تعلقات کو استوار کرنے میں کئی مشکلات اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے
لیکن یہ راہ کے لازمی مراحل ہیں جس سے گزرے بغیر بہتر سیرت اور عمدہ بین
الشخصی تعلقات کو استوار کرنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔
اسکولس کے گردو پیش اور آج کے وسیع عالمی مناظر نامے میں اساتذہ کی اپنے
اہداف و مقاصد کے حصول کی جانب بغیر کسی رکاوٹ کے پیش قدمی کرنے کے لئے
انسانی تعلقات کے فن سے علم وآگہی بے حد ضروری ہے۔طلبہ،اولیائے طلبہ،اپنے
ساتھی ملازمین،ذمہ داران انتظامیہ اور اسکول سے متعلق افراد سے اساتذہ
معیاری اور صحت مند تعلقات کو استوار کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتے ہیں تو
اس کے مثبت اثرات نہ صرف اساتذہ کی کارکردگی بلکہ معیار تعلیم اور درس و
اکتساب پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔اگر اساتذہ انسانی تعلقات کے فن سے ناواقف ہو
تب نہ صرف معیار تعلیم گراوٹ کا شکارہوجاتا ہے بلکہ درس وتدریس کے مقاصد
اور تعلیمی اہداف کا حصول بھی تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔موثر درس وتدریس کو
ممکن بنانے کے لئے اساتذہ کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو صیقل کرنے کے ساتھ
ساتھ انھیں انسانی تعلقات کے فن اور نفسیاتی اصولوں سے واقف کرنا اشد ضروری
ہے۔انسان کو سماجی حیوان کہا گہا ہے لیکن اس کے اندرکی حیوانیت کے قلع قمع
کے لئے تعلقات عامہ (انسانی تعلقات) کے فن سے اسے آراستہ کرنے کے ساتھ اس
کی غرض و غایت اور اہمیت و افادیت سے واقف کر ناضروری ہے۔ سماجی زندگی کے
دائرے میں رہ کر آدمی دیگر افراد سے صحت مند اور بہتر تعلقات کو برقرار
رکھتے ہوئے سماج کی ناگفتہ بہ پریشانیوں اور الجھنوں سے خود کو محفوظ رکھتا
ہے۔اگراساتذہ مدرسہ اور کمرۂ جماعت تک ہی اپنے آپ کو محدود کرلیں اور مدرسہ
اور کمرۂ جماعت کی باہر کی دنیا سے کوئی سروکار نہ رکھیں تب تعلیم اور درس
و تدریس کے معیار اوراس کی اثرپذیری میں گراوٹ واقع ہوتی ہے۔معیار ی تدریس
اور تعلیمی اہداف کے حصول کے لئے اساتذہ کا طلبہ اور تعلیم سے وابستہ تمام
افراد سے صحت مند اور عمدہ تعلقات کی برقراری کا لازمی عناصر میں شمار ہوتا
ہے۔یہ عناصر اساتذہ، طلبہ اور تعلیم سے وابستہ افراد میں ایک گوناں گو ہم
آہنگی کی فضا بحال کرتے ہیں جس کے زیر سایہ طلبہ اور تعلیم کے اکثر و بیشتر
مسائل کو کامیابی سے حل کرنا ممکنہے۔
صحت مند تعلقات کبھی اپنے آپ ظہور پذیر نہیں ہوتے ہیں بلکہ انھیں استوار
کرنا پڑتا ہے ۔تعلقات کی تشکیل و فروغ کے لئے مسلسل محنت و کاوشیں ں درکار
ہوتی ہیں۔کشیدہ ،مجروح اور خراب تعلقات کو بہتر و معتبر بنانے کے لئے بھی
رویوں ،طرزعمل اور نفسیاتی علوم سے آگہی ضروری ہے ،جس کی بنا نہ صرف ہم
اپنے آپ میں تبدیلی محسوس کرسکتے ہیں بلکہ موثر تعلقات کے اصولوں پر عمل
پیرائی کے ذریعے دوسروں کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔اسکول کے تمام تر وسائل
اور انتظامی ذمہ داریوں کے بہتر انتظام اور اسکول سے وابستہ سبھی افراد کو
مطمین رکھنے کے لئے اساتذہ کو تعلقات عامہ کی تمام ایسی مہارتیں سیکھنا
ضروری ہے جو خوشگوار تعلقات استوار کرنے میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔
اساتذہ انسانی تعلقات کی اہمیت اور مہارتوں کا شعوری ادراک رکھیں اور ان پر
عمل پیرا ئی کے طریقہ کار سے بھی آگہی پیدا کریں۔اطمینان بخش اور موثر
گفتگو کی فضا ہموار کرنے کے لئے تعلقات استوار کرنے والے ایسے سبھی نقاط
نظر کو شامل کرنا ضروری ہے جس سے تعلقات عامہ کو استخکام حاصل ہوسکتا ہے۔ان
مہارتوں سے لیس اساتذہ نہ صرف اپنے تدریسی و غیر تدریسی افعال بہترطورپر
انجام دے سکتے ہیں بلکہ یہ مہارتیں دوسروں سے ربط وضبط میں بھی بہت معاون
ہوتی ہیں۔اساتذہ بین الشخصی تعلقات کو ہموار و استوار کرنے والی خصوصیات پر
توجہ مرکوز کرتے ہوئے اپنے طلبہ، ہم پیشہ ساتھیوں اور دیگر افراد کو تعلقات
عامہ کی اہمیت سے واقف کرتے ہوئے بہتر طور پر ذہن سازی کا کام انجام دے
سکتے ہیں۔انسانی تعلقات کی مہارتوں اور خوبیوں پر توجہ مرکوز کرنے سے
اساتذہ اور دیگر افراد کے مابین باہمی روابط مستحکم اور نتیجہ خیز ہوجاتے
ہیں۔یہ تعلقات باہمی اعتماد،تعاون ایک دوسرے کو قبول و برداشت کرنے
اورہمدردی و مدد کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔موثر تدریس اور اسکول کے کامیاب
انصرام و بہتر کارکردگی کے لئے اساتذہ انسانی تعلقات کو پروان چڑھانے کے فن
کو خاص اہمیت دیں اور بین الشخصی تعلقات کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے
اپنے ہم پیشہ افراد،طلبہ،انتظامیہ ،اولیائے طلبہ اور سماج کے دیگر افراد سے
بہتر تعلقات قائم رکھنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔
بین الشخصی تعلقات(Interpersonal Relationship)
ہر فرد کی اپنی چند فطری ضروریات و تقاضے ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے وہ
دوسروں پر انحصار کرتا ہے۔کسی بھی شخص کے تعلقات کا معیار اس کے ہمہ وقتی
(روزمرہ کے) صحت مند اور متوازن تعلقات پر مبنی ہوتا ہے۔بین الشخصی تعلقات
کے اسرار و رموز سیکھنے اور اس کی استحکام اور برقراری کی سمت اٹھایا جانے
والا اساتذہ کا ہرقدم ہر پل ان کی صلاحیتوں کو فروغ دیتاہے ۔اعتماد کی
فراہمی کے علاوہ کشمش اور تناؤ سے پر حالات پر قابو پانے کی صلاحیت بھی بین
الشخصی تعلقات کا فن انھیں سکھاتاہے۔ شعوری طور پر بین الشخصی تعلقات و
مہارتوں کو سمجھنے پر آمادہ اور عمل پیرائی کی شدید خواہش رکھنے والے ذہنوں
کے لئے صحت مند اور مثبت روابط وتعلقات کے دروازے ہمیشہ وا رہتے ہیں۔
تعلقات کو مربوط و منظم رکھنے کی مہارت کے عدم استعمال ، لاعلمی یا فقدان
کے سبب حالات بہتزیادہ سنگین اور دھماکو شکل اختیار کرلیتے ہیں۔تجربہ کار
اساتذہ نے بین الشخصی تعلقات کی مہارتوں جیسے موثر گفتگو،جوش و خروش،سماعت
کی تکنیک وفن،تدبیر وحکمت،قائل کرنے کی صلاحیت و استعدادکی برقراری کو
ہمیشہ فوقیت واہمیت دی ہے ۔کیونکہ یہ ہی و ہ عناصر ہیں جو کسی بھی شخص کو
ایک خاص اور شخصی تعلق کا احساس دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔موثر و
صحت مند اشاروں و کنایوں کی پرورش سے لوگوں میں تعلقات کی استواری اوراسے
قائم رکھنے کا اشتیاق پیدا ہوتاہے۔ کسی بھی بات کو بہتر طور پر سننا،دوسروں
کی بہتری کے لئے جوش و ولولے کا اظہار،بوقت ضرورت ہمدردی اور محبت کا اظہار
وعمل،موثر گفتگو اور قائل کرنے اور سمجھانے کی صلاحیت،وفاداری نبھانا، پاس
و لحاظ کا جذبہ،ہمیشہ دست تعاون دراز رکھنا،حوصلہ افزائی و دلجوئی کرنے
والا قلب وغیرہ چند ایسے عناصر ہیں جس کی بنیاد پر صحت مند بین الشخصی
تعلقات کو استوار کیا جاسکتا ہے۔بارہا دیکھاگیا ہے کہ ناقص پیش قدمی،موثر
گفتگو کے فن و مہارت کا فقدان یا کمی،جذباتی عدم استحکام و ناپائیداری
وغیرہ اچھے و بہتر تعلقات استوار کرنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔عمدہ و موثر
گفتگو کی مہارتیں اوردانش وارانہ بین الشخصی اقدامات و پیش قدمیاں شراکت
داری(شمولیت/ اشتراک عمل) میں اضافے کا سبب اور سعی و کاوش کے معیار میں
بھی اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
باہمی ترقی کے لئے ہمیشہ چند خاص بین الشخصی مہارتیں درکار ہوتی ہیں۔اساتذہ
کو ان اصولوں اور اخلاقی ضوابط کو بروئے کار لانا چاہئے جو باہمی تعلقات کو
بہتر بنانے میں معاون ہوں اور اختلاف مزاج و فکر کے باوجود آپسی محبت و
مودت کی مضبوط برقراری میں رہنماہوں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’اے لوگو! اپنے
رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک انسان سے پیدا کیا (یعنی انسانِ اوّل) اس سے اس
کا جوڑا بنایا پھر اْن دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کر کے روئے زمین
پر) پھیلا دئیے اور اﷲ سے، جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے
ہو ڈرو اور ناطہ توڑنے سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ اﷲ تمہیں دیکھ رہا ہے ‘‘۔
(سورۃ ا لنساء:: 1) اﷲ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں’’ لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد
اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں تاکہ
تم ایک دوسرے کو پہچانو،درحقیقت اﷲ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا
وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہو، یقیناً اﷲ سب کچھ جاننے والا
اور باخبر ہے‘‘۔ (سورہ حجرات:13)پہلی آیت میں اﷲ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کی
اصلیت کوبتاتے ہوئے یہ تلقین کی ہے کہ آپسی تعلقات جب قائم ہوجائیں،توانھیں
نبھاناچاہئے اورانھیں توڑنے سے گریزکرناچاہئے،جبکہ دوسری آیت میں بھی اسی
چیزکوذرااوروسیع معنوں میں بیان کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ تمھاری مختلف
برادریاں اور قبائل اس لیے نہیں ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر اپنی برتری
جتائے اوربے جا فخرکرے،بلکہ یہ باہمی جان پہچان اور تعلقات کو فروغ دینے کے
لیے ہیں،البتہ تم میں بہترکون ہے اوربراکون ہے،اس کا تعلق دل سے ہے کہ جس
کا دل جتنا متقی اور پرہیزگارہوگا،وہ اسی قدرمتقی و پرہیزگاراورعنداﷲ مقرب
ہوگا۔
نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:’’ وہ مسلمان جو لوگوں کے ساتھ ملتا جلتا
ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے ، اس مسلمان سے کہیں بہتر ہے جو نہ
لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور نہ ہی ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے‘‘۔ (سنن
ترمذی:2507) قرآنِ کریم کی آیات اور احادیثِ نبوی پر غور وفکرسے یہ حقیقت
واضح ہو جاتی ہے کہ تمام انسانوں کے ساتھ خیر اور بھلائی کا معاملہ کرنا
اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے، اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر لوگوں کے
ساتھ تعلقات کی عمارت قائم ہو نی چاہئے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے’’نیکی اور
تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں
میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو‘‘( سورۃ المائدہ :2)۔یہ وہ اعلیٰ اخلاق و
بلند اقدار تھے جو جس کی روشنی میں ماضی کے مسلمانوں نے اپنی ہم عصر اقوام
وملل کے ساتھ معاملہ کیا اور اسلام کی ایسی روشن تصویریں ان کے سامنے پیش
کیں جو رحمت و محبت ،الفت و اخوت اور ایک دوسرے سے اچھے تعلقات قائم کرنے
اور ایک دوسرے کا موقف سننے اور جاننے کی ہدایت دیتا ہے۔یہ وہ خاص بات تھی
جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے دوسروں کی صلاحیتوں ،ان کے علوم و فنون اور
کامیابیوں سے خو د بھی فیض اٹھایا اوردوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا۔بین
الشخصی تعلقات کی اسی پختگی نے محبت و ہمدردی اور امن و سلامتی کے پیغام کو
عام کیا۔
اساتذہ نہ خود دنیا سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنے طلبہ کو
سماج سے الگ تھلگ رکھنے کی کبھی کوشش کریں۔کوئی بھی فرد اس دنیا میں ایک
دوسرے سے الگ نہیں رہ سکتا ہے،دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرتے ہوئے
اور باہمی معاملہ فہمی کے ذریعے ہی وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔افراد کی
تعلقات نبھانے کی کوشش اور معاملہ فہمی کے نتیجے میں انسانیت خیرو عافیت سے
فیضیاب ہوسکتی ہے۔آدمی جب تک اپنی ذات تک کو خود تک محدود رکھتا ہے بہت
کمزور رہتا ہے اور جب وہ دوسروں سے مل جاتا ہے تو ایک قوت و طاقت کا حامل
ہوجاتا ہے۔ اساتذہ یہ بات خود بھی یاد رکھیں اور اپنے طلبہ کے ذہنوں میں
بٹھادیں کہ زندگی باہمی لین دین،دوسروں کو نفع پہنچانے اور دوسروں کی
تکالیف دور کرنے سے عبارت ہے ۔تعلقات استوارکرنا اور خیر و بھلائی کے کاموں
میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ایمان کا جزو ہے۔خیر و بھلائی میں معاونت کرتے
ہوئے دنیا میں محبت و ہمدردی اور اخوت و بھائی چارے کو فروغ دیا جاسکتا
ہے۔اساتذہ اسلام کے پیش کردہ فطری اصولوں کی روشنی میں طلبہ،اپنے ہم پیشہ
احباب،اولیائے طلبہ، اسکول مینجمیٹ، اہل خاندان اوردیگر ابنائے وطن سے
تعلقات استوار کرتے ہوئے ملک و قوم کو ترقی و خوش حالی کی راہ پر گامز ن
کرسکتے ہیں۔
تعلیم و تعلم کا اہم مقصد مہذب و ہمدرد معاشرے کی تشکیل و تعمیر اور صحت
مند ،مضبوط و مستحکم انسانی تعلقات کا فروغ ہے۔اساتذہ یاد رکھیں کہ اس مقصد
کا حصول کوئی آسان کام نہیں ہے۔
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!
اس گراں بار وگراں مایہ ذمہ داری کی ادائیگی میں ایک ایک استاد کی اپنے
پیشے سے رفاقت و وابستگی انتہائی قیمتی تصور کی جاتی ہے۔اس جذبے کی کمی و
فقدان کو کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جاسکتاخصوصاً جب ہمیں اس بات کا
علم بھی ہو کہ قلت اعوان و انصار اس راہ کا کلیہ ہے۔کوئی اجتماعی انقلاب
تعلیم یافتہ افراد بالخصوص اساتذہ کی تنظیم،ترتیب ،تربیت اور نظم و ضبط کے
ظہور پذیر نہیں ہوسکتا ۔ایک منظم و طاقت ور جماعت اس وقت تک وجود میں نہیں
آتی جب تک اس کے افراد ایک دوسرے سے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح
مضبوطی سے نہ کھڑے ہوں اور جس میں کوئی رخنہ اور انتشار کو کوئی جگہ نہ
ملے۔ایسے ہی اوصاف حمیدہ سے متصف اساتذہ منظم جدوجہد اور کامیابی کے نقیب
ہوتے ہیں۔(جاری ہے)
|