انسان، ایک بکاؤ مال

دنیا ایک تجارتی منڈی ہے جہاں ہمہ اقسام کا مال خریدا اور بیچا جاتا ہے جن میں معمولی اشیائے صرف سے لے کر بڑے سے بڑا تجارتی مال شامل ہے۔ اس منڈی میں ہر قسم کے مال کے دام لگ جاتے ہیں چاہے وہ چیز کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو اس لئے کہ یہاں ہر قسم کے مال کا تاجر موجود ہے جو چیز کے معیار اور اسکی طلب کے مطابق اسکی قیمت لگاتا ہے۔اس منڈی کا یہ اصول ہے کہ اس کا تما م مال ”کچھ دو اور کچھ لو “ کی بنیاد پر ملتا ہے کوئی چیز بھی بلا قیمت اور بغیر محنت کے دستیاب نہیں ہوتی محنت بھی گویا ایک قسم کی کرنسی ہے جس کے عوض مطلوبہ مال حاصل کیا جاتا ہے، اگر کسی شخص کے پاس روپیہ پیسہ نہ ہو یا وہ محنت نہ کر سکے تو اس کیلئے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ یہاں بھیک بھی بغیر محنت کے نہیں ملتی اس کیلئے بھی سو جتن اور حیلے بہانے کرنے پڑتے ہیں تب جا کر کوئی روپیہ ٹکہ ہتھیلی پر رکھتا ہے۔

انسان دنیا کی اس تجارت کا محور ہے کیوں کہ اسکا ہر مال انسانی زندگی اور اسکو زیادہ سے زیادہ پر آسائش بنانے کے متعلق ہے مگر انسان کی خواہشات لا محدود ہیں اور انکو پورا کرنے کے ذرائع محدود!! لہٰذا وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ہر جائز و نا جائز ذریعہ اختیار کر تا ہے۔ دولت سے معیار زندگی بلند ہوتا ہے اسی سے معاشرے میں عزت ملتی ہے اچھا رشتہ ،مکان،کاروبار غرض زندگی کی ہر آسائش و آرام کیلئے دولت کی ضرورت ہے لہٰذا ان چیزوں کے حصول کیلئے انسان بھی دنیا کی اس تجارتی منڈی کا ایک ”بکاﺅ مال“ بن جاتا ہے وہ اس طرح کہ انسان کی خدمات، اسکی ہنر مندی اور محنت و مشقت سب بکاﺅ چیزیں ہیں مثلاً ایک مزدور یا ملازم پیشہ اپنی محنت سے، ایک اداکار اپنی اداکاری سے، ایک گلوکار اپنی گلوکاری سے، اور ایک پیشہ ور طوائف اپنی عزت و عصمت کا سودا کر کے دولت کماتے ہیں مگر اس دنیا میں جو جنس سب سے زیادہ بکنے والی ہے اور جس کی قیمت اس تجارتی منڈی میں سب سے زیادہ لگتی ہے وہ انسان کا ضمیر و ایمان ہے، یہ وہ جنس ہے جس کی ”مارکیٹ ویلیو“ کبھی کم نہیں ہوتی اور نہ کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے اور اسکے خریدار بھی ایک سے ایک بڑھ کر ہیں جو موقع و محل کی مناسبت سے اسکے دام لگاتے ہیں۔

دنیا کی تاریخ ضمیر فروشوں سے بھری پڑی ہے ایسے ایسے لوگ نظر آئیں گے جنہوں نے دولت شہرت اور اقتدار کیلئے اپنے ضمیر و ایمان کو بیچ ڈالا میر جعفر نے جو نواب سراج الدولہ کا کمانڈر تھا جنگ پلاسی میں لارڈ کلائیو سے ساز باز کی ،۷۵۸۱ء کی جنگ آزادی بھی ضمیر فروشان کی بدولت ناکام ہوئی اور چنگیز خان نے بھی ایسے ہی ضمیر فروشان کی کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کرایا تھا جو اپنے ملک و ملت کا سودا کرنے کے بعد اس سے اپنا ”حصہ “ وصول کرنے کیلئے گئے تھے علاوہ ازیں معاشرے میں راشی سمگلر، علماء سوء ڈاکو زانی اور اجناس میں ملاوٹ کرنے والے ضمیر فروشان شامل ہیں اور انسان ضمیر و ایمان کو بیچ کر بڑے بڑے فوائد حاصل کرتا ہے چاہے اسے اس کیلئے ذلت و رسوائی کی اتھا ہ گہرائیوں میں ہی کیوں نہ جانا پڑے انگلینڈ کے ایک مصنف نے ایک ناول لکھا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ انسان دولت کے حصول کیلئے کس قدر گھٹیا حرکات کر سکتا ہے وہ اس مقصد کیلئے ایک شخص کو منتخب کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ تم نے کس قسم کی حرکات کرنی ہیں اس کا وہ اس سے معاوضہ طے کرتا ہے اس میں اس شخص کو ناول نگار کے تلوے چاٹنے اور کتے کی طرح بھونکنے کی ہدائت بھی تھی اور اس نے ایسا کیا محض دولت کے حصول کیلئے۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس ”بکاﺅ مال “ کا سب سے بڑا خریدار خود اللہ تعالیٰ ہے جو اس کے ضمیر و ایمان کا پہلے ہی سودا کر چکا ہے اور وہ ایسا خریدار ہے جسے مال کی پوری طرح جانچ پرکھ ہے جو سونے کو بھٹی میں آنچ دئیے بغیر یہ بتا سکتا ہے مال کھرا ہے یا کھوٹا؟ قرآن پاک میں اس سودے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے فرمان الٰہی ہے:- ” بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے انکی جانوں کو اور انکے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ انھیں جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں وہ قتل کرتے ہیں اور شہید کئے جاتے ہیں اس پر اللہ کا سچا وعدہ کیا گیا ہے توراة میں انجیل میں اور قرآن میں اور اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو کون پورا کرنے والا ہے، تو تم لوگ اس بیع پر جس کا تم نے معاملہ ٹھہرایا ہے خوشی مناﺅ اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے“(التوبہ پ ۱۱)ان آیات میں اس حقیقت پر مطلع کیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے جان و مال کو جنت کے بدلہ میں خرید لیا ہے اور کہ انسان واقعی بکاﺅ مال ہے کہ جس کا سودا جنت کے بدلہ میں ہو چکا ہے اگرچہ اسکا نفع ادھار ہے مگر یہ ادھار ایسا ہے جو نقد سودے سے ہزار درجہ بہتر ہے اور اس نفع کی ادائیگی کا وعدہ اس سچے خدا نے تورات ،انجیل اور قرآن میں کیا ہے ۔لہٰذا جب انسان ضمیر و ایمان کی روشنی میں حق و راستی پر چلتا ہے تو یہ روشنی اسے کہتی ہے کہ اس راہ پر چل کر اپنی جان و مال قربان کردو صرف اس طریقے سے ہی تمہارے اس ”مال “ کی صحیح قیمت وصول ہو سکتی ہے ۔

صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آنحضرت ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کرتے تھے ، بیعت کا لغوی معنی بیچنا ہے ۔ گویا صحابہ کرام اپنے آپ کو آنحضرت ﷺکے ہاتھ پر اپنے آپ کو اس حیثیت سے بیچ دیتے تھے کہ اب ہماری مرضی ختم ! اب مرضی صرف آپ کی چلے گی آپ ہمیں جس کام کے کرنے کا حکم دیں گے ہم وہ کام کریں گے اور جس کام سے آپ روکیں گے اس سے رک جائیں گے اور یہ بات صحابہ کرام کی زندگیوں میں پوری طرح ملاحظہ کی جاسکتی ہے اس لئے انھیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے دائمی رضا مندی کا سرٹیفیکیٹ عطا فرمایا گیا کہ ”اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئیے کہ وہ اپنے ضمیر وایمان ،خود داری، عزت و شرافت اور غیرت کو چند ٹکوں کے عوض دنیا کے ”کباڑیوں“کے ہاتھ فروخت نہ کرے کیوں کہ یہ مال انتہائی مہنگے داموں پہلے ہی بک چکا ہے۔
Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 184 Articles with 289059 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More