آ ج کل ہر طرف یہی شور سنا ئی
دیتا ہے کہ حکومت عوام کو کھائے جا رہی ہے‘ عوام کا خون پیا جا رہا ہے‘
غریبوں پر ٹیکسز کا انبار لگا کر زمین دوز کیا جا رہا ہے‘ مگر سہولیا ت نہ
ہو نے کے برابر ہیں‘ بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔ جبکہ اکٹھے کئے گئے ٹیکسز
کرپشن اور عوامی نمائندوں کی طرز حکمرانی میں ختم ہو جاتے ہیں اس صورتحال
کا کون ذمہ دار ہے؟ یہی سوال ہر خاص و عام کی زبان پر ہے ۔ اگر اس کو باریک
بینی سے سوچا جائے تو سب سے پہلے ہم خود ان تمام کاموں کے ذمہ دار نظر آتے
ہیں۔ ایک طرف تو ہم ہی تمام عوامی نما ئندوں کو منتخب کرتے ہیں پھر ان میں
کیڑے بھی خود نکالنے لگتے ہیں۔ دوسرا ہم خود بھی روحا نی و سماجی بیماریوں
میں مبتلا ہیں‘ ٹیکس ہم چوری کرتے ہیں‘ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اور اشیاء
میں ملاوٹ سے بھی نہیں چوکتے۔ فرمان ہے کہ جیسا معاشرہ ہو تا ہے ویسے ہی
حکمران ہو تے ہیں اور یہی ہماری کمزوری ہے ان تمام باتوں کو چھوڑ کر ہمارے
اجتماعی رویے بھی ہمارے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں ۔سہولیات تو
تھوڑی بہت مل رہی ہیں جبکہ کئی نجی ادارے بھی ہمارے ملک میں عوام کو سہولیا
ت دینے کے لئے کام کر رہے ہیں تو حکومت نے بھی عوام کی بھلائی کے لئے بہت
سے ادارے بنائے ہیں جن سے عوام کو سہو لیا ت فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی
جا تی ہے۔ اسی طرح کا ایک ادارہ صوبائی امن اور مصالحتی کمیٹیوں کے روپ میں
عوام کے سا منے ہے۔ ان کمیٹیوں کا بنیادی مقصد اور کام امن و امان کی
صورتحال کو بہتر رکھنا اور حکومتی رٹ قائم رکھنے والے اداروں کا سا تھ دینا
ہے تاکہ ان کی کار کر دگی بھی بہتر رہے اور چھو ٹے چھو ٹے کام تھا نے
کچہریوں سے پہلے ہی ختم کر کے ایک اسلا می معا شرے کی حقیقی عکا سی کی جا
ئے۔یہ کمیٹیاں تو اپنا کام ہر شہر کے لیول تک بھر پور طریقے سے ادا کر رہی
ہیں مگر اگر یہی کمیٹیاں محلے کی سطح پر قائم کر دی جا ئیں تو ان کے دور رس
نتا ئج سا منے آئیں گے کیو نکہ اگر ہر محلے کے لیول کے حساب سے ان کمیٹیوں
کا قیام عمل میں لا یا جا ئے تو امید ہے اس محلے سے قتل و غارت، ڈکیتی اور
باقی تمام جرائم پر قا بو بھی پا یا جا سکتا ہے اور باقی ضروریات زندگی کی
بنیادی اشیاء کی فراہمی بھی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان
کمیٹیوں کے سا تھ مل کر ہر محلے اور ہر گلی کے تر قیاتی کا مو ں کوان
کمیٹیوں کے سپرد کر دیا جائے تو بہت سے مسا ئل پر قا بو پایا جا سکتا ہے
اور حکومت بڑے بڑے پراجیکٹس (بجلی، روڈ) پر بھرپور قوت ارادی اور افرادی
قوت کے ساتھ ساتھ پوری دلجوئی سے کام کرسکتی ہے اس لئے ان کمیٹیوں کو مکمل
فعال کرنا چا ہئے اور ان کی ذمہ داریاں بڑھائی جا نی چاہئیں اس کے لئے ایک
مکمل واضح پلان پیش کیا جا نا چاہئے اور یہی کمیٹیاں اپنے اپنے محلے کے ہر
گھر سے 50/50 روپے ماہوار اکٹھا کر یں اور ان کا با قا عدہ حساب رکھا جا ئے
تو ان پیسوں سے محلے کی ہر گلی اور ہر چوک جہاں کو ئی مسئلہ آ تا ہے‘ پانی
کی فراہمی بند ہو جاتی ہے یا کبھی بجلی کی لا ئنوں میں گڑبڑ ہو جا تی ہے یا
کو ئی اور ایسا واقعہ رو نما ہو جا تا ہے تو یہی چھو ٹی چھو ٹی کمیٹیاں (یونینز)
اپنے اپنے محلوں میں ان مسا ئل پر فوراً قا بو پالیں گی اور معا شرہ ترقی
کر ے گا۔ ان سا ری با توں پر عمل کے لئے ہمیں جاپان جیسی محنتی قوم کا جذبہ
اور حب الوطنی کو یا د رکھنا چاہئے جس نے زلزے کے بعد بھی ترقی کا را ستہ
نہیں چھوڑا اور اس نازک موقع پر ہر کسی نے اپنے حصے کا کام خود پر وطن کا
قرض سمجھ کر ادا کیا اور اپنے ملک کو پھر سے بھرپور توانائی والے قدموں پر
کھڑا کرنے کے لئے ہر کسی نے سا تھ دیا چا ہے وہ کو ئی انجینئر تھا یا کو ئی
دکاندار یا پھر ایک عام آ دمی سب نے اپنے حصے کا کام جانفشانی سے کر کے
اپنی حب الوطنی کا بہترین ثبوت دیا اور آج بھی جاپان ویسی ہی تر قی کرتا
نظر آ تا ہے جو زلزلے سے ایک ماہ پہلے کر رہا تھا۔ جاپان کے ہنر مند افراد
نے متاثرہ افراد کو مدد پہنچانے اور ڈاکٹروں نے بیماروں کا علاج خود ہی
شروع کردیا۔ اسی طرح وہاں کے مزدور اور انجینئرز نے اپنے ملک کا خود پر قر
ض سمجھتے ہوئے پلوں، ٹیلی فون لائنوں اور با قی ضروریات زندگی کو ٹھیک کر
نے میں بغیر کسی ذاتی مفاد کے مصروف عمل ہو گئے۔ یہ ہے ایک عظیم قوم کی
کہانی جس نے تاریخ کے اوراق پر سنہری حروف میں اپنا نام رقم کر دیا ہے اس
لئے پاکستانی قوم کو بھی یہی روش اپنا نی چا ہئے اور اپنی حب الوطنی کے
فرائض مکمل کر نے چا ہئیں اور ان کمیٹیوں کے ممبران کا مکمل ڈیٹا متعلقہ
تھانوں میں بھی ہو نا چا ہئے تاکہ پو لیس اور قا نون نا فذ کر نے والے
ادارے ان لوگوں سے ان کے محلے اور دیگر لوگوں کے کریکٹر اور دوسری باتوں پر
کھل کر با ت کر سکیں اس سے پورے ملک میں یکجیتی کا عنصر نظر آ ئے گا اور وہ
معا شرہ تشکیل پا ئے گا جس کا نام رہتی دنیا تک زندہ رہے گا- |