” وہ میرے لیے اپنے والدین‘ بہن
بھائی اور خاندان چھوڑنے کو تیار ہے‘ اس کے کئی رشتے آئے مگر اس نے ٹھکرا
دیئے‘ سب کے منع کرنے اور دھمکیاں دینے کے باوجود وہ مجھ سے ملنے آتی ہے‘
وہ مجھے چاہتی ہے اور میں بھی اسے ٹوٹ کر چاہتا ہوں‘ ہم نے ایک ساتھ جینے
مرنے کا اقرار کیا ہے‘ اگر ہمیں ایک نہ ہونے دیا گیا تو ہم دونوں خودکشی
کرلیں گے!“ نوجوان شدید غصے میں تھا‘ میں جانتا تھا اس غصے کے عالم میں
میری کسی نصیحت یا تلقین کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا لہٰذا میں خاموش رہا
اور اسے بولنے دیا ۔” وہ خوبصورت ہے‘ پڑھی لکھی ہے‘ امیر ماں باپ کی بیٹی
ہے‘ آخر اس میں کون سی کمی ہے جو میرے والدین اسے بہو بنانے کو تیار نہیں؟
اگر میرے والدین سمجھتے ہیں میں اسے چھوڑ دوں گا تو یہ ان کی بھول ہے‘ اگر
ہمارے والدین نے ہمیں شادی نہ کرنے دی تو ہم دونوں گھر چھوڑ کر کہیں چلے
جائیں گے اور کورٹ میرج کر لیں گے“ میں پھر خاموش رہا اور اسے بولنے دیا۔ ”
اگر انسان اپنی پسند کی شادی بھی نہ کر سکے تو پھر جینے کا فائدہ ہی کیا؟
اگر اپنے ہی محبت میں رکاوٹ بن جائیں تو ایسے اپنوں کے ساتھ رہنے سے بہتر
ہے آدمی شہر چھوڑ کر کہیں دور چلا جائے یا خود کشی کر لے! “ میں نے چائے کا
کپ نوجوان کی طرف بڑھایا اور اسے مزید بولنے دیا ‘ وہ بولتا رہا اور میں
دلچسپی سے ہمہ تن گوش اسے سنتا رہا‘ بھڑاس نکالنے کے بعد جب وہ قدرے ٹھنڈا
ہوچکا تو اس نے مجھ سے پوچھا ” اب آپ بتائیں جو کچھ میں نے کہا وہ درست ہے
یا غلط؟ غلطی پر ہم ہیں یا ہمارے والدین اور عزیز رشتے دار؟ شادی نہ ہونے
کی صورت میں اگر ہم بھاگ گئے یا زہر کھا کر ہم نے زندگی کا خاتمہ کرلیا تو
قصور وار ہم ہوں گے یا ہمارے والدین اور یہ ظالم سماج ؟“
میں نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا‘ خالی کپ میز پر رکھا ، پہلو بدلا اور اسے
پیار سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ” دیکھو میرے پیارے میں نے آپ کی ساری باتیں
توجہ ‘ دھیان اور خاموشی سے سنی ہیں‘ مجھے امید ہے آپ بھی میری بات توجہ‘
دھیان اور ٹھنڈے دل و دماغ سے سنیں گے“ نوجوان نے اثبات میں سر ہلایا اور
میری طرف متوجہ ہوگیا ‘ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ” دیکھو
میرے شہزادے والدین ہمیشہ اپنی اولاد کے لئے اچھا ہی سوچتے ہیں‘ ماں باپ کی
خواہش ہوتی ہے اولاد کو خوش و خرم اور ترقی کرتا دیکھیں‘ وہ اولاد کی خاطر
ہر طرح کی قربانیاں دیتے ہیں‘ ماں بچوں کو کس طرح پالتی ہے ‘ اس کا تصور
کوئی لڑکی اس وقت تک نہیں کرسکتی جب تک وہ خود ماں نہ بن جائے‘ اسی طرح باپ
اولاد کے لئے کیا کیا تکالیف اور مصائب برداشت کرتا‘ اپنے بچوں کی ضروریات
پوری کرنے کی خاطر وہ اپنی کتنی خواہشات قربان کرتا ہے‘ اولاد سے اسے کس
قدر محبت ہوتی ہے‘ وہ بچوں کی خواہشات پوری کرنے کی خاطر کیا کیا پاپڑ
بیلتا ہے‘ بچہ سکول سے لیٹ ہو جائے تو وہ کتنا پریشان ہوتا ہے‘ بچہ بیمار
ہو جائے تو اس پر کیا قیامت گزرتی ہے‘ اس سب کچھ کا احساس کسی نوجوان کو اس
وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود باپ نہ بن جائے! لہٰذا کسی نوجوان لڑکے یا
لڑکی کو شادی سے قبل یہ سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ اس کے والدین جو کچھ
کہہ رہے ہیں وہ اس کے فائدے اور اس کی بھلائی کے لئے کہہ رہے ہیں‘ آپ کو
بھی آج والدین کی جو باتیں سمجھ نہیں آرہیں صاحب اولاد ہونے کے بعد خود
بخود سمجھ آجائیں گی مگر اس وقت سوائے افسوس کے اور کچھ حاصل نہ ہوگا لہٰذا
میری گزارش ہے آپ والدین کے بارے میں غلط نہ سوچیں ‘ ان کے بارے میں سخت
الفاظ نہ کہیں‘ انہیں پریشان نہ کریں‘ ان کی بات کو یکسر نظر انداز کرنا
درست نہیں‘ ہاں پیار محبت سے‘ منت سماجت کر کے‘ ان کے پاﺅں پکڑ کر اگر آپ
انہیں راضی کر لیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں‘ ہم نے دیکھا ہے جو شخص
والدین کو تنگ کرتا ہے‘ انہیں برا بھلا کہتا ہے‘ ان کی نافرمانی کرتا ہے
اسے اس جرم کی سزا آخرت میں تو ملے گی ہی ایسا شخص دنیا میں بھی ذلیل و
رسوا ہوتا ہے۔ دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں ‘ اللہ کرے آپ کی سمجھ میں
آ جائے‘ وہ یہ ہے کہ آج وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو Love کرتے ہیں اور
love marriage کرنا چاہتے ہیں ان کی سوچ انتہائی محدود ہے‘وہ اپنے آپ کو
فلمی ہیرو اور ہیروئن تصور کر لیتے ہیں، لہٰذا وہ ہر قیمت پر جیون ساتھی
بننا چاہتے ہیں ‘ وہ سوچتے ہیں ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں‘ اس لئے
زندگی خوب مزیدار گزرے گی‘ شادی کے بعد ہنی مون منائیں گے‘ گھومیں پھریں گے
اور خوب خوب مزے کریں گے ۔ ان کی اس محدود سوچ کی وجہ سے بہت سارے مسائل
جنم لیتے ہیں‘ اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں کہوں گا جتنی باتیں آپ نے کیں
وہ اسی محدود سوچ کا نتیجہ ہیں‘ آپ ایک لڑکی کو جیون ساتھی بنانے کی خاطر
گھر بار‘ بہن بھائی‘ والدین اور خاندان چھوڑنے کو تیار ہیں‘ اسی طرح وہ
لڑکی بھی یہی سب کچھ کرنے کو تیار ہے آپ کہتے ہیں اگر آپ کی خواہش پوری نہ
ہوئی تو آپ خودکشی کر لیں گے یعنی حرام کی موت مر جائیں گے‘ یہ ایک منفی
سوچ ہے لہٰذا میری گزارش ہے آپ اور آپ جیسے دوسرے ہزاروں نوجوان لڑکے اور
لڑکیاں اپنی سوچ درست کریں۔“ وہ درست سوچ کیا ہے ؟ نوجوان نے تجسس سے پوچھا
” درست سوچ یہ ہے کہ یہ سوچنے کے بجائے کہ آپ نے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب
اپنی پسند کے مطابق کرنا ہے ‘ آپ یہ سوچیں آپ نے اپنے بچوں کو ماں کیسی
دینی ہے‘ آپ سوچیں جو لڑکی آپ سے فون پر باتیں کرتی ہے‘ چھپ چھپ کر تنہائی
میں آپ سے ملتی ہے وہ کس کردار کی مالک ہے‘ وہ لڑکی جسے اپنے والدین کی عزت
کا کوئی خیال نہیں‘ جسے اپنی عزت کا کوئی پاس نہیں‘ جسے بھائیوں کی بدنامی
کا کوئی ڈر نہیں‘ جو سب کچھ داﺅ پر لگا کر ایک نوجوان سے ملنے چلی آتی ہے ‘
ایسی بے شرم اور بے حیاء لڑکی کو آپ اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتے ہیں تو اس
کا مطلب یہ ہے آپ اپنے بچوں کو ایک اچھے کردار کی باعفت اور باحیا ماں نہیں
دینا چاہتے ‘ کل جب آپ کی اولاد ہوگی تو اگر کسی عزیز رشتے دار‘ محلے یا گاﺅں
کے کسی شخص نے ان کو بتا دیا کہ تمہارے والدین ایسے تھے تو ان بچوں پر کیا
گزرے گی اور یہ سب کچھ معلوم ہو جانے کے بعد ان کی نظروں میں آپ کا کیا
مقام رہ جائے گا؟ اور کیا اس کے بعد آپ کی کسی نصیحت کا ان پر کوئی اثر
ہوگا؟ تو میرے شہزادے آپ اور آپ جیسے نوجوانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ انہوں
نے اپنے بچوں کو ماں کیسی دینی ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ
انہوں نے اپنے بچوں کو باپ کیسا دینا ہے؟
میں یقین سے کہتا ہوں آج کے روشن خیالی کے دور میں بھی ہر مہذب اور صاحبِ
کردار شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نیک‘ پاک صاف‘ با حیاء
اور با کردار ماں دے اور یہی خواہش ہر عورت کی بھی ہوتی ہے کہ اس کے بچوں
کا باپ نیک‘ با کردار اور با حیاء شخص ہو‘ اگر آج کی نوجوان نسل یوں سوچ کر
اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرے تو بہت سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں‘
بہت ساری برائیاں مٹ جائیں‘ بہت سے جھگڑے ختم ہو جائیں اور Love نے ہمارے
معاشرے میں جو گند پھیلا رکھا ہے اس سے معاشرہ پاک ہو جائے“ نوجوان مجھے
بڑے انہماک سے سن رہا تھا ‘ اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں ‘ وہ اٹھا اس نے
ٹشو سے آنسو پونچھے ‘ آگے بڑھ کر مجھ سے بغل گیر ہوا اور پھر تیزی سے
دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اللہ حافظ کہا۔ میں نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟
والدین سے معافی مانگنے! اس نے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے جواب دیا۔ |