تحریر: محمد ارسلان رحمانی
ظہر کی نماز کے لیے گھر سے نکلا، مسجد گھر سے قریب ہی تھی،مسجد پہنچ کر
وضوء خانے کی جانب بڑھا،وضوء خانے پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ ایک لڑکے کو
جس کی عمر 15 سال کے لگ بھگ تھی کچھ افراد نے گھیر رکھا ہے اور ایک باباجی
خوب اس کی کلاس لے رہے۔ معاملے کی جانچ پڑتال کے بعد پتا چلا کہ اس بچے کا
کہنا ہے کہ وہ ایک ہوٹل میں کام کرتا ہے لیکن کچھ دیر پہلے اس سے ہوٹل کا
کوئی برتن ٹوٹ گیا اور ہوٹل کے مالک نے آج ہی اسکا نقصان بھرنے کا کہا ہے،
بصورت دیگر اسے ہوٹل سے نکال دیا جائیگا۔
نماز سے فارغ ہوکر دیکھا تو وہ بچہ ایک کونے میں غمزدہ بیٹھا ہے،آنکھوں سے
آنسؤوں کی لڑیاں جھڑ رہی ہیں،یہ دیکھ کر مجھ پتھردل کو بھی اسپر رحم آنے
لگا،یہ جانے بغیر کہ اسمیں کتنی حقیقت اور کتنا جھوٹ ہے،اﷲ کی رضا کیلیے
اسے اتنی رقم تھمادی کہ جس سے وہ اپنے نقصان کا ازالہ بآسانی کرسکتا تھا۔
اس بات کو ابھی دو ہی دن گزرے تھے،محلے کی ایک اور مسجد میں نماز پڑھنے کا
موقع ملا،نماز کے بعد کیا دیکھتا ہوں کہ،وہی بچہ اسی طرح کا ڈراما رچائے
یہاں بھی سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنارہا،مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کہ میرے
جذبات کے ساتھ کتنا آسانی سے کھلواڑ کرکے مجھے لوٹا گیا۔
یقیناً اسی طرح کئی لوگوں سے پیسا نکلوایا گیا ہوگا، ایسے ہی لوگوں کی وجہ
سے آج کل صحیح حقداروں تک ان کا حق نہیں پہنچ پاتا، انہی کی وجہ سے اب لوگ
فقیروں کی مدد سے کتراتے ہیں،اس خوف سے کہ کہیں یہ پیشہ ور بھکاری نہ ہو
اور میرا پیسہ ضائع نہ جائے،مجھے اپنے پیسوں کا دکھ نہیں، مجھے یہ دکھ ہے
کہ ایسے ہی پیشہ ور بھکاریوں کی وجہ سے نا جانے کتنے حقداروں کا حق مارا
جاتا ہوگا۔
آپ میں سے بھی ہر ایک کا واسطہ پڑا ہوگا، کبھی سر پر جسم سے بڑی پٹی باندھے
ننھے سے بچے سے،کبھی ہاتھ کپڑوں میں چھپائے بے ہاتھ شخص سے،کبھی بیلچہ و
درانتی اٹھائے نقلی مزدور سے،کبھی فرضی ڈاکٹر کی فرضی داوائیاں لکھے بل
اٹھائے اچھے خاصے نوجوان سے،کبھی ہندو مذہب سے اسلام میں داخل ہونیکی وجہ
سے بے گھر کئیے گئے جوڑے سے،اور بھی نہ جانے ان جیسے کتنے پیشہ وروں سے۔
مدد ضرور کیجئے،لیکن اس بات کا خیال رہے کہ کہیں میری مدد سے حقدار کا حق
تو نہیں مارا جارہا۔
|